عورت کا مختصر لباس چور راستے دکھاتا ہے؟۔۔محمد اشفاق

جب آپ پہلی سیڑھی چڑھ لیتے ہیں تو آپ کو ایک فوری فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یا ایک قدم پیچھے پلٹ جائیں یا پھر سیڑھیاں چڑھتے چلے جائیں۔
“لباس فرد کا ذاتی معاملہ ہے” پہلی سیڑھی ہے۔ اگر آپ آج کل اس پہ پائے جاتے ہیں تو گزارش ہے کہ ذرا نیچے اتر کے میری بات سن لیں۔

لباس طے کرنا ریاست کا کام ہے نہ فرد کا۔ کون کیا لباس پہنے گا؛ یہ موسم، جغرافیہ، وقت اور ماحول کے تحت سماج طے کرتا ہے۔ جو لباس سماج طے کر لے وہ ثقافت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جو لباس ثقافت کا جزو بن جائے، وہ قبول عام کا درجہ پا لیتا ہے۔ جو لباس مقبول عام ہو جائے، اسے احترام مل جاتا ہے اور اگر سماج میں رائج مذہب یا مذاہب بھی اس کی توثیق کر دیں تو احترام کے ساتھ تقدس بھی۔
مذہب کا حوالہ آپ کو پسند نہیں تو رہنے دیں۔ ہمارے خطہ ارضی میں مروج لباس اسلام کی آمد سے قبل بھی کم و بیش یہی تھا جو اب ہے۔ ہمارے مردانہ و زنانہ پہناوے ہزاروں برس میں کوئی خاص تبدیل نہیں ہوئے۔ انہیں کسی ادارے یا کسی صنف نے ڈنڈے کے زور پہ یکساں نہیں رکھا ہوا۔ یہ ہماری ثقافت کی طاقت ہے۔

خواتین یہاں ہزاروں برس سے سر ڈھانپتی چلی آ رہی ہیں اور مرد بھی۔ مرد ضرورت کے تحت اور خواتین ہر وقت۔ میرے پورے خاندان، برادری، عزیز و اقارب اور دوستوں کے خاندانوں میں کوئی ایک ایسی خاتون میں نے نہیں دیکھی جو سر ڈھانپے بغیر گھر سے نکلتی ہو۔ اللہ جانتا ہے نہ آج تک خود کہا نہ کسی اور کو کہتے سنا کہ “بی بی سر پہ دوپٹہ کرو” جو حجاب کرتی ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے اور جو دوپٹہ کرتی ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے۔ ہمیں کیا پہننا نصیب ہوگا؟ یہ فیصلہ بھی ہماری خواتین کرتی ہیں، تو یہ سوچنا بھی محال ہے کہ ہم ان کا لباس طے کریں گے۔ یقیناً آپ کی طرف بھی کم و بیش یہی صورت احوال ہوگی۔

لیکن میرے سرکل سے باہر بھی ایک دنیا ہے اور اس میں بہت سی خواتین سر نہیں ڈھانپتیں یا سِرے سے دوپٹہ چادر لینے کی قائل نہیں ہیں۔ ہم سب اسے ان کا ذاتی فیصلہ سمجھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ وجہ یہ کہ وقت اور ماحول کے تحت سماج میں یہ چلن تقریباً قبول عام کا درجہ پا چکا۔ لیکن یہ ٹرینڈ بمشکل سو پچاس برس پرانا ہے تو اسے دوپٹے/چادر کے برابر احترام ابھی نہیں مل پایا۔ اور چونکہ مذہب اس کی توثیق نہیں کرتا تو تقدس کا درجہ تو کبھی بھی حاصل نہیں ہوگا۔

رہا معاملہ خواتین کے جینز اور شرٹس کا تو اسے اب تک عوامی سطح پر قبولیت ہی نہیں ملی، احترام یا تقدس تو بھول ہی جائیں۔ اس لئے جینز شرٹس کو عموماً قدرے ناپسندیدگی کے ساتھ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

یہ وہ بڑی معقول اور شائستہ حد ہے، جو خواتین کے لباس کے معاملے میں اس سماج نے طے کر رکھی ہے۔ اس کے اندر اندر لباس آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن آپ اس جامے سے باہر ہوں گی تو یہ معاملہ بھی آپ کے ہاتھوں سے باہر ہو جائے گا۔

اب اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سماج میں مرد نے عورت کو سینکڑوں ہزاروں برس سے باپردہ، معقول لباس میں دیکھ رکھا ہے۔ لبرلز بڑی ڈھونڈ کے کھیتوں کھلیانوں والی مثال لاتے ہیں۔ زرعی سماج میں ظاہر ہے عورتوں کو مردوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا تھا مگر یہ کلائیاں اور پنڈلیاں صرف کھیتوں ہی میں ظاہر ہوا کرتی تھیں۔ بازاروں میں ان کی نمائش نہ ہزار برس پہلے ہوتی تھی، نہ آج ہوتی ہے۔
تو ہمارے معاشرے میں، حقیقی زندگی میں، مرد آئیڈیلی جس واحد عورت کو بے لباس دیکھ سکتا ہے، یہ وہ عورت ہوتی ہے جس تک اسے سو فیصد رسائی حاصل ہوتی ہے یعنی اس کی بیوی۔

آج بھی اس معاشرے میں ایسے لاکھوں کروڑوں مرد ہیں جنہوں نے صرف اپنی زوجہ ہی کا ستر دیکھ رکھا اور وہ بھی صرف بشری ضرورت کے تحت ہی۔ اور ایسا آج سے نہیں سینکڑوں ہزاروں برس سے ہے۔ باقی صحیح ہے کہ پردوں کے پیچھے، چھپ چھپا کر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ شکر ہے خدا کا کہ پردوں کے پیچھے، چھپ چھپا کر ہو رہا ہے۔ بہت سوں کو پس پردہ جانے کی ہمت نہیں پڑتی، بہت سوں کو مواقع ہاتھ نہیں آتے،تو لاکھوں کروڑوں محفوظ ہیں۔

یہاں سے آگے دھیان سے  پڑھیے  گا ،کیونکہ یہی وہ نکتہ ہے جسے مقامی سماج پہ درآمد شدہ غیرملکی اقدار نافذ کرنے کے شوق میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ہزاروں برس سے چونکہ مرد صرف اسی عورت کو عریاں دیکھتا چلا آیا ہے جو اس کی دسترس میں ہوتی ہے۔ تو ہمارے سماج میں مرد لاشعوری طور پہ کم لباسی اور رسائی کو لازم و ملزوم سمجھتا ہے۔ عورت کا لباس جتنا کم ہوگا، وہ اسے اتنا ہی سہل الحصول سمجھے گا۔
لیکن کیا وہ غلط سمجھتا ہے؟
آپ کہیں گے ہاں۔
میرا ماننا ہے کہ نہیں۔
کیونکہ ہم تو چلیں، جاہل و ذہنی پسماندہ ٹھہرے، مہذب دنیا کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ جہاں جتنی کم لباسی ہے، وہیں عورت اتنی ہی قابل رسائی۔ کوئی ایک ملک، کوئی ایک جزیرہ، کوئی ایک خط ارضی ایسا بتا دیں جہاں کم لباسی تو ہو مگر آزادانہ جسمانی تعلقات نہ ہوں۔ اب انڈہ پہلے آیا یا مرغی، ہمیں دونوں ہر جگہ اکٹھے ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
دکھائی آپ کو بھی ہر جگہ ایسا ہی دیتا ہے مگر جب آپ انڈے پہ اعتراض نہیں کرتے تو ہم بدک جاتے ہیں، کیونکہ ہم پیچھے مرغی کو آتا بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
لیکن چونکہ آپ پہلی سیڑھی چڑھ چکے تو اب آپ نے اس کا حل رضامندی میں تلاش کر رکھا ہے۔ آپ کے خیال میں عورت ننگی بھی ہو جائے تو بھی مرد کا کام ہے اجازت طلب کرے۔ جو سو فیصد درست، سو فیصد اصولی بات ہے۔ لیکن یہ سو فیصد درست اور سو فیصد اصولی بات آپ کا مسئلہ تو حل کر دیتی ہے ہمارا نہیں۔

کیونکہ آپ کا مسئلہ صرف جبر ہے۔ کوئی پوچھ کر جو مرضی کرے، آپ معترض نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہاں پہنچ کر آپ کو ایک سیڑھی مزید پھلانگنا پڑتی ہے اور زنا بالرضا بھی آپ کے نزدیک ذاتی معاملہ بن جاتا  ہے۔

آپ کو چھوڑ کر باقی ماندہ، جاہل و پسماندہ سماج مگر ایسا نہیں سمجھتا۔ اس میں باہمی رضامندی کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ نکاح ہے۔
امریکا یا یورپ میں اگر عورت نیکر بنیان میں گھومتی پھرے تو مرد کو مسئلہ اس لئے نہیں ہوتا کہ ایسی کئی گھوم رہی ہوتی ہیں اور جب اس کا رضامندی کے حصول کا ارادہ بنے تو دس سے پوچھنے پر ایک مان ہی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اتنی آزادی حاصل ہونے کے باوجود بھی بالجبر وہاں بھی رکنے میں نہیں آ رہا۔ یعنی وہاں کا مرد جس کی ہمیں مثالیں دی جاتی ہیں، ابھی تک اتنا مہذب نہیں ہو پایا کہ اس غیر مشروط آزادی کے ہوتے ہوئے زبردستی پہ مائل نہ ہو۔

ہمیں ڈر یہ ہے کہ ہمارے ہاں عورتیں خدانخواستہ نیکر بنیان میں گھومنے لگیں تو ہمارے دلوں میں بھی ان کی رضا مانگنے کا شوق جاگ اٹھے گا، دس سے پوچھیں گے تو ایک آدھ یہاں بھی مان ہی جایا کرے گی، جس کی ہمارا سماج اجازت دیتا ہے نہ مذہب۔ پھر مزید چور راستے نکلیں گے، پھر عورتیں مزید غیرمحفوظ ہوں گی۔ فائدہ کچھ نہیں ہونا، گلی گلی، چوک، چوک پہ ایدھی کے پنگھوڑے رکھنا پڑیں گے۔

اس لئے گیو اس اے بریک پاءجی۔ ہمارے معاشرے نے عورت کو لباس کے معاملے میں بڑی معقول، متوازن اور شائستہ آزادی دے رکھی ہے۔ اس سے آگے کا سوچیں بھی مت۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عریانیت بدکاری کی پہلی سیڑھی ہے، ہمارے لئے چونکہ بدکاری ذاتی معاملہ نہیں ہے تو ہم لباس کو بھی ذاتی معاملہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ معذرت قبول کیجیے۔ آپ کو سارے جہاں کے پورن تک رسائی حاصل ہے۔ ایک ہماری عورتیں ننگی نہ دیکھیں تو آپ کا کیا بگڑ جائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply