خدا کے وجود کی حسابی دلیل۔۔احمد سعد

اگرچہ مضمون کے عنوان سے لگتا ہے کہ حسابی فارمولوں کی مدد سے خدا کا وجود ثابت کیا جائے گا تاہم حقیقت ذرا مختلف ہے۔ اس کا اندازہ آپ کو مضمون پڑھ کر ہوگا۔

اس مضمون میں ریاضی اور شماریات کی کچھ بنیادی باتوں کے ساتھ ساتھ فلکیاتی اصطلاحات کا بھی استعمال کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ آسان الفاظ میں بات ان تک بھی پہنچ سکے جن کے لیے یہ اصطلاحات نئی ہیں۔

حرکیات یعنی تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون کے مطابق کسی سسٹم کی بے ترتیبی، یعنی انٹروپی، میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے کمی نہیں، الا یہ کہ کوئی بیرونی طاقت اس عمل کو الٹا دے اور سسٹم کو ترتیب کی طرف لے جائے۔ جیسے ہمارے فریج  اور اے سی بجلی کی طاقت استعمال کرکے حرارت کے بہاؤ  کا فطری رُخ اُلٹ دیتے ہیں۔ اسے بنیاد بنا کر ہم ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ کسی خالق کے بغیر کائنات کی قوتوں کو قابو کرکے بے ترتیبی کو الٹا کر زندگی پیدا کردینا کس حد تک ممکن ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ میں اے بائیوجینیسس یعنی بے جان مادوں سے زندگی پیدا ہونے کے نظریے کا قائل ہوں کیونکہ اس کی تجرباتی شہادت موجود ہے۔ تاہم سمجھتا ہوں کہ اے بائیوجینیسس بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تمام شرائط پوری نہ ہوجائیں یا ان کو پورا ہونے پر مجبور نہ کر دیا جائے۔ جیسے لیبارٹری کے ماحول میں ملر اور یورے نامی سائنس دانوں نے کیا۔

زندگی کی جس قسم سے ہم واقف ہیں، کائنات میں کسی جگہ اس کی ابتدا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے کافی ساری شرائط پوری ہوجائیں۔ مثلاً :

۱۔ بہت ساری ہائیڈروجن کسی مقام پر جمع ہوجائے تاکہ مرکز میں شدید دباؤ  کے باعث نیوکلیئر فیوژن کا عمل شروع ہو، یعنی ایک ستارہ پیدا ہو اور سانسیں لینا شروع کردے۔

۲۔ اس ستارے کو گرد ایک سیارہ وجود میں آئے اتنے مناسب فاصلے پر جہاں پانی مائع حالت میں برقرار رہ سکے۔

۳۔ اس سیارے میں بھاری عناصر کی اکثریت ہو تاکہ مستقبل میں یہ ایک پتھریلی شکل اختیار کرسکے، بجائے اس کے کہ یہ مشتری اور زحل کی طرح گیسز کا دیوقامت گولہ ہو۔

۴۔ اس سیارے کی کمیت، نتیجتاً کشش ثقل اتنی ہو کہ اس کا کرّہ ہوائی یعنی ایٹماسفیئر اس کے گرد موجود رہے، بجائے اس کے کہ خلا کی وسعتوں میں بکھر جائے۔

۵۔ اس سیارے پر مختلف عناصر اسی نسبت سے پائے جائیں جو مستقبل میں پیدا ہونے والی زندگی کے لئے ضروری ہوں۔ یعنی آکسیجن ہائیڈروجن نائٹروجن لوہا فاسفورس وغیرہ وغیرہ سب مناسب مقدار میں موجود ہوں۔

۶۔ اس سیارے کا مرکز پگھلے ہوئے لوہے پر مبنی ہو جو سیارے کے گرد ایک طاقتور مقناطیسی ڈھال قائم کرلے جسے میگنٹواسفیئر کہتے ہیں جو زندگی ختم کردینے والی خلائی تابکاری اور سورج سے نکلنے والے چارجڈ پارٹیکلز کے جھکڑ جنہیں سولر ہوائیں کہتے ہیں، کو روک لے۔

۷۔ اس سیارے کے گرد ایک اور دفاعی حصار، جسے آئنواسفیئر کہتے ہیں، بھی قائم ہو جائے جو سورج سے آنے والی شدید الٹراوائلٹ شعاعوں کو روک لے۔

۸۔ یہ سیارہ ٹائیڈلی لاکڈ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اس کا ایک رخ ہمیشہ سورج کے سامنے رہنے کی وجہ سے جہنم بنا رہے اور دوسرا رخ ہمیشہ سورج کی مخالف سمت رہنے کی وجہ سے منجمد برف خانہ۔

۹۔ اس سیارے کی محوری گردش اور ستارے کے گرد مداری گردش کے درمیان ایک مخصوص زاویہ ہو تاکہ مختلف موسم بن سکیں۔ زمین پر یہ زاویہ ایک تھیوری کے مطابق تب وجود میں آیا جب چار ارب سال قبل ایک سیارہ زمین سے ٹکرا گیا  ،نتیجتاً  ًزمین اپنے محور پر جھک گئی۔ غالبا اسی ٹکراؤ  کے سبب زمین سے مادے کا بہت بڑا حصہ خلا میں اچھل گیا ،جس نے چاند کی شکل اختیار کرلی۔ چاند آج زمین کے سمندروں میں مدوجزر پیدا کرنے کا ذمہ  دار ہے جو زمین پر زندگی کے چکر کے لیے ضروری ہے۔

۱۰۔ اس سیارے سے پرے یعنی سورج سے مزید فاصلے پر مشتری جیسا کوئی دیو نما سیارہ بھی تشکیل پا جائے جو اپنی شدید کشش ثقل سے ہمارے ننھے سیارے کی طرف آنے والے بے شمار شہابیوں کا راستہ بدل سکے۔ جن میں سے ایک بھی زندگی کا خاتمہ اسی طرح کرسکتا ہے جیسے ساڑھے چھ کروڑ سال قبل زمین پر ڈائنوسارز کا ہوا۔

اور ایسی بہت سی دوسری باتیں ہمیں فلکیات سے پتہ چلتی ہیں۔

اسی طرح بہت سی شرائط جغرافیاِئی ہلچل سے پیش کی جا سکتی ہیں جیسے آتش فشانی یا زمینی تہوں کی حرکت۔ بہت سے کیمیائی تعاملات پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ یوں یہ فہرست ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے لیکن ہم موجودہ استدلال کے لیے کہتے ہیں کہ ایسی سو شرائط بھی پوری ہو جائیں تو زندگی کی ابتداء  ہو سکتی ہے۔

مندرجہ بالا سیاق کے ساتھ ہم ایک تجربہ کرتے ہیں۔ یہ تجربہ حقیقی طور پر بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے مجازی طور پر کرتے ہیں۔ ذرا نیچے دی گئی تصویر کو دیکھیں:

_The_Experiment

۱۔ اس تصویر میں ایک میز پر ایک کتاب ایسے رکھی ہے کہ جلد کا درمیانی حصہ اوپر کو ہے۔

۲۔ ہمارے پاس سو کنچے یا ماربل یعنی شیشے کی گولیاں ہیں۔ جن میں سے ہر ایک نمائندگی کرتی ہے ایک ایسی شرط کی جو زندگی کے وجود میں آنے کے لیے ضروری ہے۔

۳۔ یہ سو ماربل ہم کتاب کے اوپر اس کی جلد کے عین درمیان میں گراتے ہیں۔

۴۔ اس بات کا امکان آدھا آدھا یعنی ½ ہے کہ ماربل گرنے کے بعد دائیں طرف جائے گا یا بائیں طرف۔

۵۔ اگر ماربل دائیں طرف جاتا ہے تو زندگی کے وجود میں آنے کی ایک شرط پوری ہو جائے گی۔ اگر بائیں طرف جاتا ہے تو یہ شرط پوری نہیں ہو سکے گی۔

۶- یہ پورا تجربہ ایک بار مکمل ہونے میں یعنی سو ماربل گرانے میں کل دس سیکنڈ لگتے ہیں۔

۷- زندگی کی ابتدا ہونے کے لیے تمام کے تمام سو ماربلز کا کسی تجربے میں دائیں طرف جانا ضروری ہے۔

شماریات یعنی اسٹیٹس کے مطابق ایک پورے تجربے کی کامیابی کا امکان انفرادی نتائج کی کامیابی کے امکانات کا حاصل ضرب ہوگا:

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ تجربہ 1,267,650,600,228,229,401,496,703,205,376 بار انجام دیا جائے تو ایک بار ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تمام ماربل دائیں طرف چلے جائیں۔

Probability_Calculation.png?ver=1.0

تھوڑا سا خوش گمان ہوتے ہوئے فرض کرتے ہیں کہ اس نمبر سے آدھی بار یہ تجربہ انجام دینے کے بعد ایک بار ایسا بھی ہوگیا جیسا کہ ہم سب چاہتے ہیں۔ چنانچہ کامیاب تجربہ 633,825,300,114,114,700,748,351,602,688 ناکام تجربات کے بعد انجام پا جاتا ہے۔

کیونکہ ایک بار تجربہ انجام دینے میں دس سیکنڈ لگتے ہیں اس لیے پچھلے پیراگراف میں دیے گئے ناکام تجربات کا کل وقت 6,338,253,001,141,147,007,483,516,026,880 سیکنڈ ہوگا۔

جو 105,637,550,019,019,116,791,391,933,781 منٹ بنتے ہیں۔

یا 1,760,625,833,650,318,613,189,865,563 گھنٹے بنتے ہیں۔

یا 73,359,409,735,429,942,216,244,398 دن بنتے ہیں۔

یا 200,984,684,206,657,375,934,916 سال بنتے ہیں۔

مجھے نہیں علم کہ اتنے بڑے نمبر کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ دو سو سیکسٹلین سال ہیں۔ جبکہ کائنات کی عمر ہمارے موجودہ اندازوں کے مطابق تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سال ہے۔ یہ اندازہ ایک فلکیاتی مستقل, ہبل کانسٹنٹ, کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایڈون ہبل پچھلی صدی کے ایک عظیم فلکیات دان تھے۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کا نام بھی انہی کے نام پر رکھا گیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے، کہکشائیں ایک دوسری سے دور ہٹ رہی ہیں اور دور ہٹتی ہوئی چیزوں سے آتی روشنی سرخ ہوتی ہے۔ اس مظہر کو ریڈ شفٹ کہتے ہیں۔ روشنی کی رفتار اور اس دریافت کی مدد سے کائنات کی عمر کا تخمینہ تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سال لگایا گیا۔

لیکن دو سو سیکسٹلین سال تو کائنات کی اس عمر سے بہت زیادہ ہیں۔ ساڑھے چودہ ٹریلین گنا زیادہ:

Age_Of_The_Universe

یہاں اصل مسئلہ ہے۔ ایک تضاد۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ کائنات دراصل ہمارے موجودہ اندازوں سے کہیں زیادہ قدیم ہے تو ہمیں ایڈون ہبل کے حساب کتاب کو رد کرنا پڑے گا جو اس نے ریڈ شفٹ کے مظہر کی بنیاد پر کیا۔ لیکن ہم یہ نہیں کر سکتے کیونکہ ریڈ شفٹ محض خیالی بات نہیں بلکہ قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ لیکن اگر ہم روشنی کی رفتار اور ریڈ شفٹ کی بنیاد پر کیے گئے حساب کتاب کو رد نہیں کرنا چاہتے تو پھر یہ مان لینا چاہیے کہ کائناتی تاریخ کے کسی موڑ پر کسی نے دخل اندازی کرکے تمام ماربلز کو دائیں طرف جانے پر مجبور کیا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پس نوشت۔ آغاز میں لکھا تھا کہ اگرچہ عنوان سے لگتا ہے کہ حسابی فارمولوں کی مدد سے خدا کا وجود ثابت کیا جائے گا تاہم حقیقت ذرا مختلف ہے۔ یعنی ہم نے حساب کتاب سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خالق کے بغیر زندگی کا وجود میں آنا کس قدر نا ممکن ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ پھر لا محالہ ایک خالق موجود ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply