علاج کا لفظ اتنا عام ہے کہ اب یہ لفظ علاج کم اور لا علاج زیادہ لگنے لگا ہے۔علاج خواہ کسی بھی بیماری کا ہو مگر ہماری روز مرہ کی میڈیکل پریکٹس سے لیے جانے والے تاثر نے اس لفظ کے معنی اور پراسس کو بدل کے رکھ دیاہے۔ پہلے وقتوں میں جب بھی کوئی معالج کسی شخص کو یہ بتاتا تھا کہ وہ بیمار ہے اور اس کو علاج کی ضرورت ہے تو وہ شخص اور اسکے اہل خانہ اس بات کو بغیر سوچے سمجھ جاتے تھےکہ اب کچھ دن ، ہفتے اور ماہ درکار ہیں اس شخص کے مرض کے علاج اور تندرست ہونے میں۔
مگر خوش قسمتی سے اب ہم پہلے وقتوں سے کوچ کر کے ڈیجیٹل گلوبالائزیشن کے شاندار دور میں سانس لے رہے ہیں ۔ تو اب ہم اس بات کے بھی خواہاں ہیں کہ علاج میں جدت ہو ، تیز رفتاری ہو اور ساتھ میں پہلے وقتوں کی طویل مدتی بھی علاج کی راہ میں حائل نہ ہو۔
بات تو درست ہے کہ اتنی ترقی کے با وجود بھی ہمیں ہر علاج چٹکی بجانے میں نہ دستیاب ہو تو پھر کس کام کی یہ ترقی۔ علاج کے حوالے سے یہ رویہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب کوئی شخص کسی ڈاکٹر یا معالج کے کلینک پر داخل ہوتا ہے اپنی علامات بتا تا ہے اور توقع کی سولی پر لٹک جاتا ہے کہ ابھی ڈاکٹر صاحب فوری اپنے کاسہء سر میں موجود تمام علم کوسامری جادوگر کی طرح گھمائیں گے اور اس شخص کے ممکنہ علاج کا پراسس مکمل کر دیں گے اورجونہی وہ شخص کلینک کی دہلیز سے باہر نکلے گا تو تندرست و توانا ہو جائے گا ۔ علاج کے معاملے میں ایسی جادوئی توقعات کا سہرا کس نے سجا یا ؟ ہماری ترقی کی منازل نے ؟جدت کے خمار میں ڈوبی ذہنیت نے؟ یا یہ ہماری اپنی سطحی سوچ یا پسماندہ شعور کی کارستانی ہے ۔؟
وجہ چاہے جو بھی ہو مگر بہر حال یہ حقیقت سے نظر چرانے اور اپنی احمقانہ سوچ کو نہ بدلنے کا نتیجہ ہے کہ اتنے بہترین نظام کے باوجود بھی ہم اس بات سے انکاری ہیں کہ علاج کے لیے کچھ وقت تو لگتا ہے۔
دنیا کا ہر صاحبِ شعور کسی نہ کسی بیماری کا علاج کرنے میں مصروف ہے خواہ وہ علاج نا خواندگی کا ہو، معاشی عدم استحکام کا ہو، سماجی جبر کا ہو، اخلاقی گراوٹ کا ہو، مگر ان سب معالجین سےزیادہ جس معالج سے ہمارا واسطہ اکثر پڑتا ہےوہ ہیں میڈیکل پروفیشنل، جو ہماری جسمانی صحت کی دیکھ بھال کے ماہر ہوتے ہیں اور جدید قسم کے ٹیکنالوجیکل ٹولز، لیبارٹریز اور دوسری سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئےبہت کم عرصے میں بیماری کی تشخیص، وجوہات اور علاج کا دورانیہ بتا دیتے ہیں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ناکارہ عضو بذریعہ آپریشن نکال باہر کرتے ہیں اور کچھ دنوں میں بندہ صحت مندہو جاتا ہے۔جبکہ انسانی صحت کے حوالے سے جسمانی صحت اک پہلو ہےاور اس کا دوسرا پہلو ہماری ذہنی صحت سے متعلق ہے جس کے بغیر صحت کا تصوربھی ادھوراہے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے چکر میں افراد جسمانی طور پر تواتنا متاثر نہیں ہو رہے جتنا وہ جذباتی، نفسیاتی طور پر ہوتے ہیں ۔ آئے روز کی ٹینشن اور سٹریس کی وجہ سے نفسیاتی الجھنوں کا گراف بھی بڑھ گیا ہے اور جس کے علاج کے بارے میں ہمارے رویے اسی میڈیکل ماڈل کے خواہاں ہیں کہ ڈاکٹر کو چند علامات بتائیں ،دوائیاں کھائیں اور تندرست ہو جائیں ۔
مگر حقیقت اس سے برعکس ہے کہ جب کوئی شخص کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کر کسی ماہر نفسیات کے پاس تشریف لے جاتا ہے تو ماہر نفسیات اس کا علاج اور بیماری کی تشخیص سے پہلے بہت بنیادی معلومات حاصل کرتا ہے جو کہ اس شخص کے ماں پیٹ میں ہونے سے شروع ہوتی ہے اور اس کی پیدائش سے لیکر موجودہ وقت تک گزاری ہوئی زندگی کے ہر پہلو پر مفصل بات چیت ہوتی ہے۔جس سے ماہر نفسیات اس شخص کے ماحول ، والدین کے رویہ جات، شخصیت اور مزاج کے پہلوؤں پر غور کرتا ہے اور ان اسباب کی تلاش اور نشاندہی کر تا ہے جو اس کے نفسیاتی عارضے کا موجب بنے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا بھی جائزہ لیا جاتاہے جو اس کی بیماری کو قائم کیے ہوئے ہیں اور علا ج میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں وہ عوامل جو اس شخص کی ذات سے متعلقہ ہوتے ہیں جیسا کہ سوچ غیر لچکدار ہونا، تعلیم کی کمی، غربت یا اہل خانہ کے ایسے رویے جو اس کی بیماری کی شدت کا سبب بن رہے ہوتے ہیں ۔
گو کہ ماہر نفسیات کے پاس ڈاکٹرز کی طرح سے ایسے میڈیکل ٹولز نہیں ہوتے جو جسم میں موجود کیمیکل کے عدم توازن کو رپورٹ کی شکل میں پیش کر دیں اور ان کو دیکھ کر بیماری کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکے البتہ ماہرنفسیات اپنی جانچ پڑتال کے لیے مختلف قسم کے پیپر پینسل ٹیسٹ آزماتے ہیں جو فرد کی موجودہ ذہنی نفسیاتی فنکشنگ اور تشخیص میں مدد کرتے ہیں۔
اتنے جائزے کے بعد ہی ماہر نفسیات کسی فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ اس شخص کا علاج کس طرح کیا جائے ،کون سی تھراپی استعمال میں لائی جائے اور ان عوامل کے تدراک کے لیے کون سا لائحہ عمل اختیار کیا جائےجو اس شخص کی بیماری کے علاج میں حائل ہیں ۔
یہ تمام کام لکھنے پڑھنے میں تو آسان اور کم وقت طلب لگتے ہیں مگر در حقیقت یہ طویل عمل ہیں اور وقت طلب ہوتے ہیں ۔ چونکہ شعوری اور لا شعوری طور پر مسلسل بچپن سے لیکر اب تک ہم صرف میڈیکل ماڈل کے طریقہ علا ج کے عادی ہیں اور اس بات پر گمان سے زیادہ یقین رکھتے ہیں کہ نفسیاتی علاج بھی اتنی تیزی سے عمل میں آئے اور ہم کو در پیش دیرینہ مسائل پلک جھپکنے میں دور ہو جائیں جبکہ نفسیاتی علاج کے حوالے سے رویہ نہ صرف غیر حقیقی اور پسماندہ شعور کا عکاس ہے بلکہ یہ نفسیاتی مرض کو مزید بگاڑ سکتا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اکثریت چند ایک سیشن لینے کے بعد کسی اور ماہر نفسیات یا مینٹل ہیلتھ پروفیشنل کی خد مات حاصل کرتے ہیں اور وہ معالج پھر سے نئے سرے سے ساری معلومات حاصل کرتا ہے ترتیب دیتا ہے اور علاج شروع کر دیتا ہے مریض یا اہل خانہ کے ایسے رویے کی بدولت وقت اور پیسے دونوں کا نقصان ہوتاہے اور مریض کو بھی بہت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ۔
نفسیاتی علاج میں سب سے اہم پہلو سائیکو ایجوکیشن ہے جو کہ ماہر نفسیات کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مریض اور اہل خانہ کو نفسیاتی مرض کے حوالے سے آگاہ کرے کہ یہ کس قسم کا مرض ہے اسکی وجوہات کیا ہیں ، یہ کس طرح مریض کی معاشرتی ، سماجی ، خانگی اور ذاتی زندگی کو متاثر کر رہا ہے اور اس مرض کا علاج کیسے اور کتنے دورانیے میں ممکن ہے یہ سب بنیادی معلومات سائیکو ایجوکیشن کے زمرے میں آتی ہیں اور جب یہ معلومات مریض یا اہل خانہ کو مہیا کردی جائیں تو ا سے ان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ علاج کی نوعیت اور اس کے پراسس کس طرح سے مکمل ہو ں گے ۔
سائیکولوجیکل اور میڈیکل ٹریٹمنٹ روز مرہ کی ضرورت ہیں کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سےبیمار پڑ سکتا ہے اور بیماری کا تعین کر لینے کے بعد اسکے علاج میں در پیش مراحل سے واقفیت اور علم اس کے علاج کو آسان اور موثر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جب بھی آپ کا واسطہ کسی بھی طریقہ علاج سے پڑے اسکے بارے تھوڑی ایجوکیشن لے لیں تا کہ آپ کا وقت ، اور پیسے کا ضیاع نہ ہو، اور مریض کی تکلیف میں خاطر خواہ کمی ہو سکے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں