• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • پاکستانی قوم اور اسکے تعلیمی اداروں کے جنسی مسائل۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

پاکستانی قوم اور اسکے تعلیمی اداروں کے جنسی مسائل۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

جنس اور انسان کا تعلق اتنا ہی ازلی اور ابدی نوعیت کا حامل ہے جتنا ذی حیات موجودات میں حیات کا وجود پایا جاتا ہے،تمام ذی العقول موجودات،جن کو ہم زندہ تصور کرتے ہیں میں حیات ہی وہ قوت محرکہ ہے جو انھیں متحرک وجود کے طور پر زندہ اور شعوری قوت  بناتی ہے، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جنسی لذت و کام جنس مخالف میں قدرت نے انکی تخلیقی زوجیت کے تناظر میں ودیعت کردی ہے،انبیا کرام کی شریعتیں ہوں یا علم اخلاق کی خاندانی سماجیت کو اہم جاننے والی اہل فکر و نظر کی جماعت ہوں ان  دونوں نے ہی  سماج میں بقا،امن و امان،نظم و ضبط  کے قیام کے لئے کچھ قانونی و  اخلاقی اقدار کو قائم  کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے،چنانچہ پدر سری نظام کی مادر سری نظام پر فتح کا ایک سب سے بڑا مظہر و کارنامہ ریاست کا وجود ہے، جسے انصاف اور امن و امان کے قیام کے لئے تدریجی طور پر قائم  کیا گیا تھا۔

چنانچہ ہم دیکھتے  ہیں کہ اہل علم و حکمت نے فلسفہ جبر و قوت کو عملی طور پر ممکن بننے سے  روکنے کے لئے کچھ تادیبی سزائیں مقرر کی ہیں۔ جن کا مقصد و مدعا انسانی جانوں،عزت و وقار انکی حرمتوں کا تحفظ ہے،اور حقیقت میں  سماج کو انتشار سے بچانا اور انسانی منتقلہ و غیر منتقلہ جائیداد  کو طاقتور اور ناجائز  ضبط و جبر سے بچانا رہا ہے۔کیونکہ زن،زر اور زمیں سے متعلق تصرف،غلبہ،ملکیت اور تعلق کی سماجیات کا با معقول مطالبہ و مشاہدہ رہا ہے کہ انتشار زدہ رو منائی دنیا سے منضبط شدہ  فکر و فلسفہ کے برخلاف ،قانونی ،اخلاقی تادیبی دنیا زیادہ محفوط  و مامون تصور کی جاتی ہے اور انسانوں کا یہ اجتماعی تجربہ اس وقت تک فکری عتاب سے محفوظ رہا جب تک کہ  یورپی نشاۃ ثانیہ نے جدید روشن انسان کو پیدا نہیں کردیا،اور یہ جدید روشن فکر انسان یورپ کی عالمی تسخیری حکمت عملی کا ایسا عملی تربیت یافتہ نمونہ رہا ہے کہ سامراجی ،نو آبادیاتی نظام کی گرفت سے آزاد ہونے والی دنیا کی فکرمیں اسکی روح اس طرح  رچ بس گئی ہے  کہ کیا مولوی اور کیا مسٹر،کیا جدید اور کیا قدیم ہر ایک اس کے نشہ میں ڈوبا نظر آتا ہے۔

جنس کا موضوع  لذت و کام کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کا  بھی موضوع رہا ہے اگر جنسی تعلقات میں اعتدال ،قانونیت اور مذہبی قانونی شرعی اخلاقیات کو حد ِ فاضل قا ئم  کرنے کا حق نہیں دیا جائے تو ایسی انتشاریت پیدا ہوگی جس سے کوئی کمزور طاقتور کے عتاب سے بچ نہیں پائے گا،اور امید واثق یہ ہے کہ طاقتور اقلیت میں ہونگے اور کمزور اکثریت میں دیکھنے کو ملیں گے، مگر یہ کمزور خود اپنے مطالب،مقاصد،اور غلامانہ لذت کے لئے ان طاقتور ہاتھوں کی طرف نگاہ اٹھایا کرینگے،ان کی مثال شریفانہ تناظر میں ان سیاسی کارکنوں کی طرح لی جاسکتی ہے،جو کسی سیاسی جماعت کے رکن بن کر اپنے سیاسی رہنماؤں  کی جی حضوریاں کرکے انکے جوتے چمکا کر اپنے جیسے عام عوام کی عزت و وقار ،مال و جان سے جیسا چاہتے کھیلتے رہتے ہیں،یا اس طلبہ تنظیم کے کارکن کی طرح کہ جب وہ کسی جامعاتی اور کالجی طالب علم کو گالی دے دے،تھپڑ مار دے تو سامنے والا اس خوف سے نہ  لب کھول سکتا ہے اور نہ  اسکے سامنے ہاتھ بلند کرسکتا ہے کہ کہیں اسکے  تنظیمی ساتھی جو اسکے مقابل تعداد و قوت میں زیادہ ہیں ،اسکا تعلیمی سلسلہ ختم نہ  کروادیں ،اسکی جان نہ  لے لیں، کل ماحول میں اسکی جگ ہنسائی نہ  کروادیں،استاد بھی ان گروہوں سے اس سبب خوفزدہ رہتے ہیں کہ انکی مخالفت انکے لئے مسائل  پیدا کرسکتی ہے۔

جامعات میں نووارد افراد کے ساتھ جو کچھ  تازہ آمد کے ساتھ ہوتا ہے،وہ اگر چہ ڈراما ئی  زیادہ ہے،مگر اس میں درون خانہ ظالمانہ   مذاق بازی کا فسانہ  کچھ نا کچھ سنائی دے جاتا ہے۔میں نے عورت مارچ کے ضمن میں سال قبل کہیں  لکھا تھا کہ مرد عورت کے مقابل اپنا غم اپنے وقار کے تحفظ کی خاطر کبھی کھل کر بیان نہیں کرتا ہے،ورنہ  مرد کے ساتھ  اسکے ہم جنس مرد جو ظلم  بچپن سے ہی کرتے پھرتے  ہیں وہ عورت کی آبروریزی کرنے  والوں سے تعداد میں بھی زیادہ ہے اور اسکی بازگشت بھی معاملہ چھپانے کے سبب سنائی نہیں دیتی ہے۔اسکی غیرت اسکو اتنا حق بھی نہیں دیتی ہے کہ اپنے ماں باپ اور بڑے بھائی کو دل کا معاملہ بتاسکے،وہ درون خانہ گھٹ گھٹ کر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے،جسکا منفی نتیجہ اسکو اور معاشرے کو کہیں نا کہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ظلم سے قطع نظر مرغوبیت کے تناظر میں جنسی کج رویوں میں اغلام بازی،لونڈے بازی کی کئی ہیتیں و شکلیں ملتی  ہیں،ایک فعالی نوعیت کی حامل ہوتی  ہے  تو دوسری مفعولی نوعیت کی حامل  گردانی جاتی ہے،جس میں پھر بلرضا اور بالجبر کی تقسیم بندی نوعیت ،ارادے،خواہش و تعلق کی سماجیات کے سبب قائم  ہوجاتی ہے۔

ہم جانچتے ہیں کہ جب کسی ذہنی  بیماری  کی کیفیت و کمزور کے شکار مرد پر وحشت، بربریت ،لاقانونیت، عدم اخلاقیات  غالب ہوجاتی ہیں  تو ہ سماج کے لئے ایک  پاگل کتے سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو تا ہے،پاگل کتا بھی طبی صنعت میں  اپنے ریبیز زدہ لعاب و جراثیم کا ویکسینی تدارک رکھتا ہے،مگر اسکے بر مقابل  ہم جنس پرستی کی سماجیت کا علاج بس موت ہے۔یا درون خانہ توبہ کرکے مزید اس عادت سے چھٹکارا پانا ہوتا ہے۔

پاکستان جسے کچھ لوگ اسلامی ریاست کہتے ہیں ،مگر عملی حقیقت اسکے الٹ ہے،یہاں یہ مرض بہت حد تک سرائیت کرچکا ہے،ہم چھوٹے تھے تو سنتے تھے پٹھان اس چیز میں بہت  مشہور ہیں مگر جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے تو معلوم ہوا کہ اس معاملے میں ذاتی دبے دبے جنسی رجحانات،گھٹا ہوا خاندانی نظام،شادی کی کم عمری میں عدم موجودگی،والدین کی تربیت کرنے میں کوتاہی اسے   سب قوموں میں سرائیت کرواچکی ہے،مجھے سالوں قبل میرے اندرون سندھ کے شاگردوں نے دادو،نوشہرہ فیروز،جیکب  آباد کے ضمن میں سردار بچے کا ذکر کیا تھا،جسے مرد اوطاق میں رکھتے ہیں ،اور اپنی عورتوں کو گھر میں بند رکھتے ہیں اور پھر ان بچوں سے بد فعلی کرتے ہیں۔غریب والدین چار پانچ ہزار روپے کے لئے اپنے بچے خدمت کے لئے بالادست طبقے کے سپرد کردیتے ہیں اور پھر ان سے جنسی اور غیر جنسی جیسا چاہیں سلوک کرتے پھرتے ہیں۔مجھے خود کئی حضرات اور میرے شاگرد یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ سر جی! آپ کے گھر میں والدہ کے سوا کوئی نہیں ہے،آپ بولیں تو چار پانچ ہزار میں ایک بچہ ماہانہ بنیاد پر خدمت کے لئے دلوادیں، جو آپکے کام کردیا کرے،میں نے انھیں منع کردیا کیونکہ جس بچے  کو ہمیں پڑھانا لکھانا  چاہیے ،مستقبل کا معمار بنانا چاہیے اسے ہم آسانی کی خاطر اپنا خادم بنالیں،اسکے ماں باپ  اسے غربت کے سبب کمانے والا خادم بنا کر بھیجیں اور  ہم اسے ناجائز جنسی استحصال کا شکار کرتے پھریں، ایسی ہی ایک پیشکش میں دوبارہ  دو تین ماہ  قبل بھی  مسترد کرچکا ہوں،کیونکہ میں ایک تو کم عمر بچے ہوں یا  پھر  ،بچی یا  ماسی وغیرہ ہو  ، انھیں غیر شادی شدہ  مردوں کے گھر  میں کسی کولانے کے حق میں نہیں ہوں۔ جب تک اللہ نے ہمیں ہاتھ دیے ہیں دوسرے کے جگر گوشوں اور عزتوں کو ہمیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے،واضح رہے یہاں بحث خفیہ آشنائی یا رضامندی کے مرد و عورت کے تعلقات کی نہیں بلکہ کم عمر بچوں،بچیوں کے بالقوت استحصالِ بیجا ،لواطت اور اغلام بازی جسے لوگ لونڈے بازی بھی کہتے ہیں، کی ہورہی ہے۔

میر ا ماننا ہے کہ سرے سے وہ دروازہ ہی بند کردو جس سے ایسا معاملہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اگر چہ میرے اور میرے گھر میں دور دور تک ایسے میلانات و رجحانات موجود نہیں ہیں،مگر انسانی بدن اکثر درون خانہ  شیطانی ،غیر فطری خواہشات کا کب مخزن بن جائے کس کو کیا پتا؟ ، مگر جنسی استحصال سے قطع نظر اتنے کم عمر بچوں سے ذاتی خدمات لینا مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا ۔

معاشرے کی ایک ڈھکی چھپی ،خفیہ رکھی جانے  والی حقیقت من پسند ذاتی تعلقات کے قیام اور اس سے معاوضے میں فریقین کا جنسی لذت پر اتفاق کرنا کوئی حقیقت سے خارج معاملہ یا حادثہ نہیں ہے چنانچہ اس طرح کے معاملات جامعات میں اکثر و بیشتر  دیکھنے  اور سننے کو ملتے ہیں،کہ وہاں اچھے اعداد کے حصول کے چکر میں اساتذہ کیسے طالبات کا جنسی استحصال کرتے ہیں یا بعض واقعات میں  لڑکیاں درون خانہ  اچھے نمبروں کے لیے اساتذہ  سے تعلقات قائم کرنے کی پیشکش کرتی ہیں ،   یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،اس بات سے جامعات کے طلبا و طالبات واقف ہیں،اگر چہ اسکی بابت جب تک معاملہ خبر کی زینت نہ بنے، بس ٹامک ٹوئیاں اور کھسر پسر کرتے دکھتے ہیں،مگر جامعات میں اس طرح کے رونما ہونے والے اسکینڈلز اور ان کی تحقیقات کے لئے قائم  ہونے والی کمیٹیز کی روئیدادیں  اس امر کی صداقت کو کافی حد تک متعین کرد یتی ہیں،کہ سب کچھ اچھا نہیں ہے،بلکہ  بہت کچھ غلط ہورہا ہے۔اس میں بھی بہرحال کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے کیس  کو  بحیثیت مجموعی سارے اساتذہ  کے مجموعی رجحانات،اور اعمال قرار نہیں دیا جاسکتا ہے،یہ معاملات اور حادثات  اپنی کمیت و کیفیت میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں ، مگر اس قلیل رخ سے تباہ کن مستقبل کی تعمیر کا پیغام مل سکتا ہے ساتھ ساتھ  ان سے اتنا ضرور اندازہ کرنا ممکن ہے کہ سماجی رتبہ،شہرت،انفرادیت،بڑا بننے کی خواہش انسان سے اسکا اپنا آپ   چھین لیتی ہے اور وہ خود سے تنہائی میں بھی اس پر اظہارِ   خیال  نہیں کرتا  ، کہ کہیں   اسکا  ضمیر  اسے   ڈسنے نہ  لگے جب ہی  یہاں حل ضمیر کی پست تربیت کی صورت میں دکھتا ہے،ضمیر خود غیر اقداری نوعیت میں ڈھل کر لذت و مقام کی فعالیت میں تحلیل ہوکر با ضمیر نہیں رہتا ہے۔

ہم جنس پرستی کے مسائل  مردوں میں عورتوں کی نسبت بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں،چونکہ مرد اظہار میں جوشیلا،قوت کے قیام و اظہارمیں بالعزم،مخالفتوں  کو نیست و نابود کرنے میں جراتمند ہوتا ہے،جب   ہی  وہ مرد مخالف کو اکثر سزا میں مفعول بنا کر سزا دیتا ہے،جسکے لئے اس نے خاص قسم کی  گالیاں ڈھالی  ہوئی ہیں۔پاکستان میں ہیجڑے اس ضمن میں باقاعدہ مفعول کے طور پر وحشی فاعل گاہک کا سستا اور گھٹیا نشانہ بنتے  نظر آتے  ہیں،ان سے وا ہیات  قسم کا مذاق اور چھیڑ چھاڑ کھلی سڑکوں سے گلی محلوں کے بازاروں تک دیکھنے کو ملتے ہیں،پنجاب اور خبیر پختون خوا  کے کچھ خسروں کی بابت مجھے ویڈوز اور تصاویر کے ذریعے دکھایا گیا کہ وہ عورتوں سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں، اس لیے  انکو شادی کی تقریبات میں لاکر نا صرف نچوایا جاتا ہے بلکہ ان سے جنسی چھیڑ چھاڑ کرنا بھی عام بات ہے،بلکہ کئی جگہوں پر انکو کھلے پنڈال میں برہنا بھی نچوایا جاتا ہے،اسی قسم کا کام پاکستان میں اکثر ناچنے والیاں بھی ایسی تقریبات میں جہاں،بوڑھے جوان اور بچے تک ہوتے ہیں ہوتا دیکھا جاسکتا ہے۔

ہمارے یہاں عورت کی ہم جنسیت یا لیزبین ازم کبھی کھل کر بیان نہیں کیا گیا ہے،مگر ادیبوں نے ترقی پسند تحریک ،اور اسکے مقابل تحریروں میں اس پر روشنی ڈالی ہے،عصمت چغتائی کا لحاف اور ،منٹو کے افسانے،مسرور بہنوں کے افسانوں میں ایسی تصویر کشی نے ہماری قدیم سماجیات کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔مرد اور عورت کے مقابل ایک دوسرے کے سامنے مادر زاد عریانیت دکھانے میں نہایت کم حصہ لیتے ہیں جبکہ خواتین کا باہم ایک دوسرے کے ساتھ ایک بستر میں رہنا سونا،شادیوں میں کپڑے بدلنا،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اس پر بھی یہاں کافی نہیں تو کچھ نا کچھ کہا گیا ہے،مگر جنسی مسائل  کی تصویر کشی کرنے والی نینسی فرایڈے کی تحریروں سے انگریزی سیکھنے والی مڈل اور ہائی کلاس ان چیزوں سے خوب واقف ہے،خود کئی گرلز کالجز اور جامعات میں اس  طرح کے رجحان،دیکھنے کو ملتے ہیں،میں نے خود اس قسم کے کچھ نمونے ایسے مشاغل  جامعہ میں دیکھے ہیں ،جن میں سے چند ایک  کو  وہاں کے سکیوٹی  گارڈ پکڑ چکے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ افغانوں میں اوطاقی بچہ کا معاملہ ہو یا پھر  پاکستان و افغانستان کے پہاڑوں اور کانوں میں گھر سے دور  کام کرنے والے  مزدور ہوں،  ان  مرد مزدوروں میں  ذہبی کج روی اور مذہبی اخلاقی انحراف  کے عامل وہاں اکثر گھومنے پھرنے والے بچوں ،اور کام کرنے والوں کے ساتھ کچھ روپے دیکر اغلام بازی کرتے    ہیں،انکے مقابل  جن کے ذرا نسبتاً  سیدھے سادھے  فطری رجحان ہوتے ہیں،اور نفیساتی بیماری اور اخلاقی کج روی کچھ معیاری و اقداری ہوتی ہے  وہ کم خرچ بالانشین سستی طوائفوں اور خفیہ شادی  شدہ طوائفوں سے کام چلاتے ہیں۔اس قسم کے معاملات پر انگریزی کے موقر اخبارات ڈان وغیرہ کچھ تحقیقاتی فیچر لکھ چکے ہیں ۔معروف ناول اور فلم کائٹ  رنر میں اسکی غلط صحیح  کچھ نا کچھ حقیقت تسلیم کی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح اساتذہ کے باہم ایک دوسرے پر الزامات اور کورٹ کچہریوں کے معاملات بھی اس امر کو ثابت کردیتے  ہیں کہ معاملات میں کچھ نا کچھ صداقت ہے،جیسا کہ حال میں ہی جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات کے غالباً واحد مرد استاد کا ساتھی استاد کو ہراساں کرنے کا معاملہ میڈیا کی زینت بنا ،کورٹ نے موصوف کو آٹھ سال کی سزا سنائی ہے،کئی ایسی مثالیں بھی سنی گئی ہیں کہ،کچھ استاذہ کرام اپنے  شاگردوں   کو بنا کسی سبب کے امتحانات میں فیل کردیتے ہیں ،جس کے ڈر کے سبب کئی لڑکیاں انکا آسان نوالہ ثابت ہوتی ہیں،اگر چہ اس ضمن میں  قطعیت کے ساتھ کہنا خارج از امکان ہے، مگر یہ معاملات اتنے کثرت سے دیکھے سنے گئے ہیں کہ  معلوم  پڑتا ہے کہ اس میں کچھ نا کچھ  صداقت ضرور ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply