یہ غالباً دو ہزار پانچ یا چھ کی بات ہوگی۔ جب آتش جوان نہیں تھا ابھی تک ایک کم سن بچہ تھا۔ خزاں سے ذرا پہلے کا موسم تھا۔ مکئی کی فصل تقریباً تیار ہوچکی تھی۔ جب مکئی کے پودے اتنے لمبے ہوجاتے کہ کوئی انسان یا گیدڑ، سور وغیرہ باآسانی چھپ سکتا ،تب اکثر و بیشتر گاؤں میں کوئی نہ کوئی افواہ گردش میں آتی ۔ اس بار بھی اچانک یہ خبر مشہور ہوئی کہ گاؤں میں ایک خوانخوار درندہ “گور پٹّو” در آیا ہے جو آس پاس منڈلاتا پھررہا ہے۔ پہلے پہل تو اس افواہ پہ کان نہ دھرے گئے۔ مگر پھر آئے دن خبریں آنے لگیں کہ پاس کے گاؤں میں فلاں فلاں کے عزیز پہ “گور پٹّو” نے حملہ کردیا ہے اور وکٹم کی حالت تشویشناک بتائی جاتی تھی۔ فون وغیرہ تو تھا نہیں کہ خبر کی تصدیق کی جاتی۔ ہوتے ہوتے مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کر گیا۔ ہم سبھی کو یقین ہوچلا کہ “گور پٹّو” واقعی وجود رکھتا ہے، گردونواح میں منڈ لا رہا ہے اور انسانوں پہ حملہ آور ہوتا ہے۔
سو اس خطرہ سے نمٹنے کے لیے گاؤں کے عمائدین نے فیصلہ کیا کہ ہر گھر کا رکھوالا پوری رات، مسلح ہوکر اپنے گھر کی چوکیداری کر ے گا اور کچھ تنومند و منچلے نوجوانوں کو گاؤں کی سرحدوں پہ مامور کیا گیا اور یہ نگرانی اس سمے تک چلے گی جب تک فصل پوری طرح پک نہیں جاتی کٹائی کیلئے۔
خیر دن گزرا “گور پٹّو”کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ شاید کہ نامراد چھپن چھپائی کھیل رہا تھا اور کسی صورت اپنا دیدار کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ یا شاید وہ خطرہ ٹلنے کے انتظار میں تھا کہ کب خطرہ ٹلے اور وہ اپنی درندگی شروع کردے۔
ایک رات قریباً دو بجے اچانک ایک شور بپا ہوا۔ “گورپٹّو۔۔۔۔۔ گورپٹّو۔۔۔۔ پکڑو ۔۔۔۔ مارو ۔۔۔۔”
ہم چھوٹے، بڑے گھروں سے نکلے ۔ نوجوان ہاتھوں میں بندوق تھامے “گور پٹّو” کا پیچھا کرتے رہے پر کمبخت ہاتھ نہیں آیا اور پھر سے کہیں چھپ گیا۔
لو جی اب بجلی کی سی رفتار سے آس پاس کے گاؤں میں یہ خبر پہنچی کہ فلاں گاؤں میں ایک خوفناک درندہ گورپٹّو دیکھا گیا ہے۔ نتیجتاً انہیں بھی اپنی حفاظت کیلئے چاق وچوبند انتظام کرتے بنی۔کہ سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اُس رات والے واقعے کے بعد سے پورے گاؤں میں تشویش کی ایک شدید لہر دوڑ گئی تھی۔ اگرچہ حقیقت اسکے الٹ تھی۔ اس رات، جسکی وجہ سے پورے گاؤں میں ہنگامہ مچا ہوا تھا کوئی جانور نہیں تھا بلکہ فلاں کاکا کی بیٹی کا بدذات عاشق مجنوں خان تھا۔ جو رات کی تاریکی میں اپنی “چنغلہ” یعنی معشوقہ سے دیدار کی خواہش لئے انکے گھر کی دیوار پھلانگ گیا تھا ،پر بدنصیبی د یکھیے کہ معشوقہ اسے پہچان نہ سکی اور اپنے مجنو ن پہ کسی چور یا شاید “گور پٹّو” کا گمان کرکے ڈر کے مارنے چیخنے چلانے لگی۔ مجنون خان بھی بدحواس ہوکر ” گور پٹّو۔۔۔ گورپٹّو” چلانے لگا۔ اور گاؤں کے دیگر مکینوں کے ساتھ گورپٹّو کے تعاقب میں بھاگنے لگا۔ یہ حقیقت گاؤں کی دایا نے گھر گھر جاکے سب خواتین کو بتائی، پر اس التجا کے ساتھ کہ مرد حضرات کو اس حقیقت سے آگاہ نہیں کرنا ،ورنہ مجنون خان بیچارے کی خیر نہیں اور یوں یہ خبر ہم بچوں کو بھی گاؤں کی خواتین کے وسیلہ سے پہنچی مگر اس تنبیہ کے ساتھ کہ ابا چاچا کو نہیں بتانا ورنہ تمہاری خیر نہیں۔
مختصراً یہ عقدہ تو ہم بچوں و ماؤں پہ کھلا کہ اس رات یہ ساری مجنون خان کمبخت کی کارستانی تھی مگر “گور پٹّو” کا خطرہ ابھی تک ٹلا نہیں تھا کیونکہ روز وہی خوفناک خبریں آتیں کہ فلاں فلاں “گور پٹّو” کے حملہ کا نشانہ بنا۔
اب جبکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ “گور پٹّو” ایک گاؤں سے ہوکر آس پاس کے سات، آٹھ گاؤں کیلئے بھی دردِ سر بننے لگا تو سارے گاؤں کے عمائدین نے ملکر ایک گرینڈ جرگہ بلایا۔ نمبر نمبر سے ہر معزز بزرگ اپنی اپنی تجویز سامنے لاتا رہا۔ بالآخر حاجی نعمت اللہ خان کے بولنے کا نمبر آیا۔ حاجی بختی گل پورے گاؤں میں اپنی دانائی و ہوشیاری کیلئے مشہور تھا۔ شاطر اتنا کہ اگر کوئی راہ چلتا شخص غلطی سے بھی انکے مالٹوں کے باغ سے فقط ایک مالٹا توڑتا تو یہ ایک کھوجی کی طرح اُس کی چپلوں کے نشان کا پیچھا کرتے کرتے متعلقہ گھر جا پہنچتا اور ملزم سے مالٹے کے دام وصول کرتا۔ حاجی صاحب ایک لمحہ کیلئے بالکل خاموش، سارا مجمع انکا منہ تک رہا۔ بالآخر کچھ اس طرح سے بولنا شروع کیا ” بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اما بعد۔۔۔ ہاں۔۔۔ تو میرے عزیزو۔۔۔۔ میں آپ سب کو ایک نہایت اہم بات بتانا چاہتا ہوں۔” وقفہ لیا اور پھر جگ سے گلاس میں آرام سے پانی انڈیل کر پانچ سانسوں میں پی لیا۔ اور پھر گویا ہوئے ” ہاں ۔۔ تو میں یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ گور پٹّو، وور پٹو کچھ بھی نہیں تھا۔”
ہیں؟؟ یہ کیا بکواس ہے؟
” دراصل میں نے اپنے گھر کی عقب والی کھیت میں کھیروں کا بیج بویا تھا۔۔۔ تو انہیں ان ذلیل بچوں سے بچانے کیلئے میں نے گورپٹّو کی افواہ اڑائی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ آپ سب کو پہلے بتاؤں گا مگر پھر سوچا تھوڑا اور صبر کرلیتا ہوں۔۔ اپنی محنت کے تازہ تازہ کھیروں سے لطف اندوز تو ہو لوں پہلے۔۔”
اسکے بعد حجرہ میں حاجی صاحب کے ساتھ جو کاروائی ہوئی وہ تاریخ کا دوسرا باب ہے ۔ بس اتنا سمجھ لیجے کہ وہ کاروائی بعد میں پورے گاؤں میں ضرب المثل بن گئی۔ اور ہم بچوں کے لیے سبق بھی کہ سب کچھ کریں گے مگر نہ کسی طرح کی افواہ اڑائیں گے اور نی کسی غیر مصدقہ خبر پہ یقین کریں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں