• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مدرسہ یا سکول: اعتماد کا ووٹ کس کا؟۔۔حسان عالمگیر عباسی

مدرسہ یا سکول: اعتماد کا ووٹ کس کا؟۔۔حسان عالمگیر عباسی

مدارس اور سکولز دو الگ ادارے ہیں اور مد مقابل ہیں۔ سکول کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ مدرسہ پارٹ ٹائم جاب ہے۔ سکول کو پراپرلی اور ریگولرلی کنسیڈر کیا جاتا ہے جبکہ مدرسے میں کشش کے حساب سے اتنا دم خم نہیں ہے کیونکہ دم درود سے زیادہ وہاں کچھ نہیں رکھا۔ ہمارے ہاں دو طبقات ہیں:مذہبی و لبرل طبقات۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ مدارس ان کے نزدیک ایک سے ہیں۔ گو مذہبی سوچ کے مالک بچوں کو مدرسے میں بھیج دیتے ہیں یا چار میں سے ایک کو قربان کر دیتے ہیں لیکن وہ اس پہ مکمل انحصار نہیں کر پاتے کیونکہ ان کو پتہ ہے بچہ بابو تب ہی بنے گا جب بابوں کا سایہ بھی نہ پڑے۔

ایسے میں اگر مدارس کھڑے ہیں تو ان کی ہمت ہے اور شاید بہت دیر یہ ادارہ قائم نہیں رہ سکے گا۔ کچھ عرصہ بیساکھی پہ چلے گا اور عنقریب اپنے ہی خنجر سے آپ خودکشی کر لے گا۔ ان حالات میں باقی جو ادارے بچوں کے لیے بچتے ہیں وہ یہی سکولز اور جامعات ہیں۔ ان میں موجود ہر برائی برائی مان لی گئی اور احتجاج شروع ہونے لگا تو معاشرے کے از سرِ  نو تعمیر کے لیے انقلاب ناگزیر ہو سکتا ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن اس معاشرے کے ماتھے پہ دھبہ ہے اور اسے دھونے کا شاید ایک ہی طریقہ ہے؛ غیر منافقانہ طرز عمل اور حقیقت پسندی۔

سب جانتے ہیں کہ مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم عام ہے۔ چند ایسے مدارس شاید ہوں جہاں سکولز کا سلیبس کسی حد تک رائج ہو لیکن اسے خانہ پُری سمجھنا چاہیے۔ سب مانتے ہیں کہ مدرسہ کا فارغ التحصیل حافظ، عالم یا مفتی کہلایا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں اب رمضان کی تراویح ہو، دینی مسائل پہ بات کرنا ہو، رائے دہی ہو، فتویٰ جاری کرنا ہو یا اصلاح و تربیت کا فریضہ نبھانے کی ذمہ داری انہی  فاضلین کی ہے۔ قرآن کی رو سے بھی علما  ہی علم کی فضیلت کی بنا پہ اہم لوگ ہیں جن کی ذمہ داریاں عوام الناس سے بڑھ کر ہیں۔

اصولاً ان کا موازنہ اول تو کالج اور جامعات کے لونڈوں لونڈیوں سے بنتا ہی نہیں ہے اور اگر جائزہ لینے کے بعد موازنہ کیا جائے تو یقیناً مدارس سے بہتر تو سکولز اور کالجز ہیں جہاں دنیا کے ساتھ ساتھ دینی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہے۔ سکولز اور کالجز پہ والدین اور معاشرے کا اعتماد مدارس کی نسبت زیادہ ہے جسے دلیل سمجھنا چاہیے۔ مدارس میں اگر طالب علم کی عرف عام میں کہلائی جانے والی دنیاوی تعلیم کی ضرورت نہیں پوری ہو رہی تو ایسا جامعات اور سکولز میں تو نہیں ہے۔ یہاں طالب علم جس بھی میدان میں کودنا چاہے کود سکتا ہے۔ دینی ضرورت پوری کرنے کے لیے مدارس میں داخلہ لینا از حد ضروری نہیں ہے جبکہ دینی موضوعات کے حوالے سے سکولز اور جامعات کے سلیبس میں بھرمار ہے۔ اگر مدارس میں جانا ضروری ہی ہے تو یہ سوال حق بجانب ہے کہ کیا ضرورت پوری ہو رہی ہے؟ کیا والدین اور معاشرے کی توقعات کے عین مطابق بڑھوتری ہو رہی ہے یا ان کی سوچ کے برعکس معاملات چل رہے ہیں؟

جامعہ یعنی یونیورسٹی میں طالب علم کسی بھی دینی موضوع پہ تحقیق کرنے میں بھی آزاد ہے۔ اتنی سہولیات کے ہوتے ہوئے کنویں کے  مینڈک بننے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ ایسا لوگ کیوں کہتے ہیں کہ ملا کی دوڑ مسجد تک؟ اقبال کیوں مذاق بنا رہا ہے کہ ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملا نے کاروبار سجا لیا ہے اور دلیل گھڑ لائی ہے کہ گندہ ہے پر دھندہ ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ مدرسہ اور سکول میں سے کسی نے تو زندہ رہنا ہے۔ مدرسہ پاؤں پہ کلہاڑی چلا چکا ہے۔ اس نے خود فیصلہ کر لیا ہے اور کہہ دیا کہ آ بیل مجھے مار۔ ہاں جامعہ اسلامیہ نے بھی دہرانے کی کوشش کی ہے لیکن بیل مارنے نہیں آیا۔ اب بیل بھی آزاد خیال ہے؛ جسے مارنا چاہے مارے اور جسے بخش دے بخشش ہو جائے۔ یہ بیل دراصل ہمارا معاشرہ ہے۔ ہمارا معاشرہ مدارس کا بوجھ مزید برداشت نہیں کر پا رہا۔ اعتماد کا ووٹ مدارس کی بجائے سکولوں کالجوں کو جا رہا ہے۔ اس معاشرے کو کون سمجھائے کہ اپنے بچوں کو دین سیکھنے مدارس میں بھیجو؟ بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟ والدین مر گئے ہیں؟ ٹیچرز اتنے بے دین ہو گئے ہیں کہ مدارس کو جگہ لینا پڑے؟

ہاں، البتہ یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دینی حضرات سکولز میں اور جامعات میں ٹیچرز بھرتی ہو جائیں اور بھرتی ہونے کے لیے وہی طریقہ ہو جس پہ چل کے باقیوں نے جگہ بنائی ہے۔ یہ روایتی مدارس الٹا بوجھ ہیں جہاں پہ جانے والا بچہ محروم و مظلوم کہلانے کے لائق ہے کیونکہ یہ بیل یعنی معاشرہ اسے صرف نکاح پڑھانے کے لیے بلاتا ہے، نماز کی قیادت سونپتا ہے یا صرف جنازے کی امامت کے قابل سمجھتا ہے حالانکہ یہ دنیا کے امام ہونے چاہیے تھے۔

اب یہی سوال کھڑا ہوسکتا ہے کہ نماز کی امامت سے بہتر اور کیا ہے تو جواب یہی ہے کہ نماز کی امامت کے لیے مدرسہ جانا اتنا ضروری ہے کہ جنسی بھوکوں کی ضرورت کے واسطے عزت کی ستیاناسی پہ بھی سمجھوتہ کر لیا جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

سکولز اور کالجز اول تو اس بیماری سے بہت حد تک پاک ہیں اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ بیل یعنی معاشرہ مارنے کو ابھی آگے نہیں بڑھا اور معاشرے کو کیا گھول کے پلایا جائے کہ وہ مدارس کی ضرورت پہ رضامندی ظاہر کرنے لگے؟ اگر معاشرہ مان بھی جائے تو کیا بچے کی محرومیوں کا ازالہ کوئی اور معاشرہ کرے گا؟ اگر وہی مدرسے کا بچہ سکولز اور کالجز میں دین سیکھنے پہ راضی ہو جائے تو کم از کم دنیا کی ناؤ ہاؤ تو اسے ہونے لگے گی۔ مدارس میں جنسی بھوکوں کی بھوک سے ہٹ کر بھی زیادہ ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہ آزاد خیال معاشرہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس کے بچے نے بابو بننا ہے اور نام کمانا ہے۔ کسی نے لبرلزم کا کلمہ پڑھ لیا ہے اور کچھ ایسے ہیں جو صرف کلمہ ہی نہیں پڑھ رہے۔ اس سے ہم سب کا اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہے! حقیقت یہ ہے کہ سکول میں کسی حد تک برائیوں کے ہوتے ہوئے بیل کا اعتماد ہے جبکہ مدرسے کو معاشرہ قبول نہیں کر رہا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی وجوہات ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply