بیٹیاں کیوں قتل ہوتی ہیں؟۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

نبی رحمتؐ مدینہ میں تشریف فرما ہیں، محفل میں بیٹیوں کا ذکر چل رہا ہے، آپؐ فرما رہے ہیں کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں، جس نے 3 لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی اچھی تربیت کی، ان سے حسن سلوک کیا پھر ان کا نکاح کر دیا تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ ایسے میں ایک شخص کھڑا ہوتا ہے، کہتا یارسول اللہ ﷺ اللہ نے زمانہ جاہلیت میں مجھے بیٹی عطا کی تھی، میں پیدائش کے وقت اسے قتل نہ کرسکا، مگر جب وہ تھوڑی بڑی ہوئی تو میں اسے صحراء میں لے گیا، ایک گڑھا کھودا اور جب میں گڑھا کھود رہا تھا تو وہ میرے ساتھ کھیل رہی تھی،  میں نے اسے گڑھے میں ڈال دیا، وہ مسکرا رہی تھی، اپنے ہاتھوں سے ریت میری طرف اچھا رہی تھی، وہ سمجھ رہی تھی کہ میرا باپ میرے ساتھ کھیل رہا ہے، مگر میں نے اسے ریت کے گڑھے میں دفن کر دیا۔ راوی کہتا ہے کہ رحمت دو عالم جو صبر و استقامت کا پہاڑ تھے، ان کی آنکھیں ساون کے بادل کی طرح برس رہی تھیں۔ حبیب خدا کا دل مضطرب ہوا تو رحمت  خداوندی جوش میں آئی اور قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی: وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ”اور جب زندہ درگور کی ہوئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی؟

جاہلیت کا زمانہ ہے، غیرت کا خود ساختہ تصور اہل مکہ کو اپنی لپٹ میں لئے ہوئے ہے، ایسا تصور جو معصوم زندگیوں کو نگل رہا ہے۔ گھر میں بیٹی کی پیدائش کا سن کر ان کا چہرہ ایسے سیاہ ہو جاتا تھا جیسے انہیں کوئی بہت بری خبر دے دی گئی ہو۔ اس وقت کے عرب معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر کئی قسم کے ردعمل کا اظہار کیا جاتا تھا، باپ کئی دنوں تک گھر سے باہر نہ آتا، لمبے سفر پر نکل جاتا یا اس بیٹی کو ہی زندہ درگور کر دیا جاتا۔ اس زمانے میں بھی بہت سے لوگ تھے، جو بیٹیوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ اس وقت کے لوگ بیٹی کو پاؤں کی زنجیر سمجھتے تھے، ان کے لئے قابل قبول نہ تھا کہ ان کے گھر بیٹی پیدا ہو، وہ اس کی پرورش کریں اور جوان ہو کر وہ کسی اور نوجوان کے ساتھ چلی جائے۔ ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے، آخر وہ خود بھی تو کسی باپ کی بیٹی کی ہی اولاد تھے، جس نے ان کی ماں کی پرورش کی، اسے جوان کیا اور اس کا نکاح ان کے باپ سے کر دیا، جس کے نتیجے میں وہ خود پیدا ہوئے۔ اسی طرح خود ان کے گھر والیاں بھی تو کسی کی بیٹیاں تھی، جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ان کے حوالے کر دیا تھا۔ کیا کیا جائے اس خود ساختہ تصور نے کتنی بیٹیوں کو نگل لیا۔

جب آقائے نامدار اس معاشرے میں تشریف لائے اور اسلام کے نور سے یہ علاقہ منور ہونے لگا، آپ نے بیٹی کے وہ فضائل بیان کئے کہ لوگ بیٹی کی دعائیں مانگنے لگے۔ اپنی بیٹی کو وہ احترام دیا کہ جب بھی حضرت فاطمہؑ تشریف لاتیں، آپؐ کھڑے ہو جاتے، اپنی جگہ پر بٹھاتے، وہ جو بیٹی کو زندگی کا حق دینے کے لئے آمادہ نہ تھے، انہیں اس بات پر تیار کیا کہ جائیداد میں بیٹی کا حصہ قرار دیا۔ آپؐ نے ایسے تربیت کی کہ جب حضرت جعفرؑ نے نجاشی کے دربار میں  اسلام کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ عورتیں اور مرد ایک سے ہیں، اللہ نے ان دونوں کے جسموں کی ماہیت کو الگ بنایا ہے تو قریش کے نمائندے نے دربار میں کہا تھا، وہ عورت جو ہماری خدمت کرتی ہے، جو ہمارے لئے ایک نوکر کی حیثیت رکھتی ہے، وہ اور ہم برابر کیسے ہوگئے، تعجب کی بات ہے۔؟ پورے دربار میں زور دار قہقہہ لگا تھا، مگر حضرت جعفرؑ نے کہا تھا کہ تمہاری اپنی والدہ کے بارے میں کیا رائے ہے، جس نے مشکل سے اپنے پیٹ میں تمہیں لئے رکھا، تم پیدا ہوئے تو تمہیں پالا اور آج ایسی باتیں کر رہے ہو؟ اس بات پر پورا دربار خاموش ہوگیا تھا۔

آج عورتوں کے حقوق کے نام پر فحاشی و عریانی پھیلانے کے ایجنڈے پر کارفرما لوگ تو بات کرتے ہیں، مگر مذہبی رہنما جن کی یہ ذمہ داری تھی، انہوں نے اس ذمہ داری کو ترک کر دیا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی زمانہ جاہلیت کی مثال پیش کر رہا ہے، یہاں بھی بیٹیاں قتل ہو رہی ہیں اور کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں ہے۔ باپ نے بیٹی کو اس لئے قتل کر دیا کہ جہاں وہ چاہتا تھا، وہاں بیٹی نے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ قاتل بھی مسلمان تھا، مگر مسلم سماج نے اسے بطور قاتل ایک ظالم کی نظر سے نہیں دیکھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قتل عام کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ شوہر نے بیوی کو کھانا نہ پکانے، اپنے بھائیوں کی وکالت کرنے، جائیداد میں حصہ نہ لینے، موبائل پر کسی سے بات کرنے کے جرم میں مار دیا۔ اس سے بڑا اور ظلم کیا ہوگا کہ ان معمولی معمولی وجوہات پر قتل حوا کی بیٹی ہوتی ہے اور مجھے یہ معاشرہ گھٹن زدہ معاشرہ لگتا ہے، ایک مریض معاشرہ لگتا ہے، جہاں آپس کی لڑائی میں لوگ گالی گھر میں بیٹھی ماں، بہن یا بیٹی کو دیتے ہیں۔ اللہ کے نبی نے جس معاشرے کے قیام کے لئے جدوجہد کی، جسے مدینہ میں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، وہ بیٹی کے لئے ہر حوالے سے عزت والا معاشرہ تھا، جس میں پیدا ہوتے ہی بیٹی باپ کے لئے رحمت خدا تھی، بیٹی شادی کے بعد بیوی کے روپ میں اپنے شوہر کے ایمان کی مالکہ تھی اور جب یہی بیٹی ماں بنی تو اللہ نے   اس کی اولاد کی جنت اس کے قدموں کے  نیچے رکھ دی۔

ہاں کچھ قصور بیٹیوں کا بھی ہے، بیٹیوں کو اسلام نے عزت و عظمت عطا کی، باپ کی اجازت سے شادی کرنے کا اختیار ان کے ہاتھ میں دیا، جہاں یہ راضی ہوں گی، ان کی شادی وہیں ہوگی۔ رابطہ کے ذرائع جیسے جیسے عام ہو رہے ہیں، عزت دار والدین کی زندگی بھر کی عزت کو پامال کرکے، اسلامی ضابطوں کو پاؤں تلے روند کر اور معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑا کر قائم کئے گئے رشتے تھوڑے عرصے بعد ٹوٹی امیدوں اور ناکام خوابوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، جو تھوڑے ہی عرصے میں پچھتاوے کی آگ میں جلا کر ان بیٹیوں کو خودکشی جیسے اقدام پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اسلام نے ولی کا تصور دے کر بچی کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ اسلامی دائرے میں رہ کر وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتی ہے۔ بے شمار بیٹیاں خدا ان کو مزید ترقیاں دے، زندگی کے ہر شعبے میں اس کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یاد رکھیں، جذبات میں کئے گئے فیصلے صرف پچھتاوا دے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی دس سال پہلے ایک پروگرام میں دیکھا تھا، ایک بیس بائیس سال کی جوان بچی جس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی، تھوڑے عرصے بعد دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تو عاشق نے منہ پر تیزاب پھیک کر طلاق دے دی۔ اس سے میزبان نے پوچھا تھا کہ اگر کوئی بچی آپ سے مشورہ مانگے تو کیا کہیں گی، اس نے کہا تھا کہ اگر میرا اپنا قاتل جو مجھے قتل کرنے کے لئے پستول تانے کھڑا ہے، اگر اس کی بیٹی بھی مجھ سے  پوچھے گئی تو کہوں گی بہن گھر سے نہ بھاگنا، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ باپ جو بیٹی کے  اچھے مستقبل کے لئے اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے، وہ بھائی جو بہن کو کالج سے لینے کے لئے ایک گھنٹہ تپتی گرمی میں کھڑا رہتا ہے، وہ ماں جو بیٹی کے تحفظ کے لئے رات بھر جاگ کر گزار دیتی ہے، ان سب کے ارمان توڑ کر، ان سے اچھا رشتہ نہیں مل سکتا۔ والدین بچی کے حق کو تسلیم کریں اور بچی والدین کی محبتوں کا خیال رکھے تو معاملات بہتر انداز میں حل ہوسکتے ہیں۔ ہر روز اخبار میں بچیوں کے قتل کی کوئی نہ کوئی خبر ضرور ہوتی ہے، جسے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کہ کتنی آسانی سے لوگ جگر کے ٹکڑوں کو قتل کر دیتے ہیں اور کتنی آسانی سے بچیاں گھر والوں کو سوتے چھوڑ کر انجان لوگوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ اللہ ہر ایک کی عزت کو محفوظ رکھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply