وفاق المدارس چوراہے پر۔۔ڈاکٹر سیّد طفیل ہاشمی

پچھلے چند دنوں میں وفاق المدارس کو پے بہ پے بھرپور جھٹکے لگے
پہلے تمام مکاتب فکر میں عسکری ادارے نے مزید وفاق قائم کر کے انہیں وہی حیثیت دے دی جو پہلے سے موجود وفاقوں نے طویل جدوجہد سے حاصل کی تھی۔ اگرچہ اتحاد المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری محمد حنیف جالندھری کے بارے میں بوٹا بوٹا، پتہ پتہ جانے ہے کہ وہ ہمیشہ عسکری پالیسی کے نقیب رہے ہیں جسے انہوں نے مدارس کی حفاظت کا عنوان دے رکھا ہے لیکن دیوبندی مدارس میں اساتذہ اور طلبہ میں مولانا فضل الرحمن کے متبعین کی اکثریت ہے اور نہ معلوم موجودہ عسکری قیادت اور مولانا میں کیوں، کس وجہ سے اور کن امور پر اس قدر شدید اختلاف ہو گیا کہ مولانا کو پورے اہتمام سے سیاست بدر کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ مولانا کے جنرل پرویز مشرف ایسے محب وطن پاکستانی سپہ سالار(؟) سے بھی اچھے مراسم رہے۔ مولانا کے عسکری قیادت سے برسر پیکار ہونے کے باعث یہ مناسب سمجھا گیا کہ اپنے وفاق بنا لئے جائیں تاہم پرانے دیوبندی وفاق کو مولانا کی قیادت میں اسی طرح نہیں جانے دیا گیا جیسے جماعت اسلامی منور حسن سے چھڑا کر اپنے بندے کو دے دی گئی تھی۔

اس اتھل پتھل میں درس نظامی بھی تفصیل سے زیر بحث آیا اور اس ضرورت پر گفتگو ہوئی کہ درس نظامی میں کچھ سائنسی اور سماجی علوم کا اضافہ کر کے اسے مزید بہتر بنایا جائے۔
دوسری طرف لاہور کے ایک مدرسے کے ایک ناشائستہ واقعہ کے وائرل ہونے کی وجہ سے مدارس کے داخلی اخلاقی اقدار پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مدارس میں اس نوعیت کے واقعات کے سطح آب پر آجانے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تاہم مقامی طور پر ہی ان کے بارے میں ہلکی پھلکی کارروائی کر کے “مٹی پاؤ” پالیسی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بڑے مدارس میں اس نوعیت کے بڑے واقعات نے بہت ہل چل پیدا کی اور ان پر مٹی ڈالنے کے لئے اساطین امت کی خدمات حاصل کی گئیں۔

ان واقعات کے نتیجے میں اپنے بچوں کے تحفظ کے لئے کئی ایک واقفان راز ہائے درون مے خانہ نے متعدد احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔
میری چھٹی حس یہ کہہ رہی ہے کہ ارباب مدارس کے لئے قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ وہ اپنے سارے سسٹم کو Revisit کریں اور اپنے نصاب اور طریق تدریس کو سماج کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کریں۔

داخلی اخلاقی معیار بہتر بنانے کے لیے بچیوں کے رہائشی مدارس بالکلیہ ختم کردیں اور صرف غیر رہائشی مدارس کو باقی رکھیں۔

بچوں کے مدارس کے لئے سخت ضابطہ اخلاق مقرر کریں اور خلاف ورزی کرنے والے کو تدریس کے لیے بلیک لسٹ کر دیں۔

مدارس عوامی چندے سے وجود میں آتے ہیں، اس لیے ان کی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی وراثتی حیثیت ختم کر کے ہر مدرسے کی شوری بنائی جائے اور اس کے ممبران اور مہتمم اور ناظم وقتا فوقتا تبدیل ہوتے رہیں۔

ان تجاویز کے جواب میں کالجز اور یونیورسٹیز کے ماحول کا ذکر قطعا بے محل اور بوجہلی سوچ ہے کیونکہ ماڈرن ادارے مغربی کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں اور مدارس مدرسہ صفہ کی جانشینی کے دعوے دار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات مدارس کے لئے تنبیہ یا عذاب خداوندی کے وہ ابتدائی جھٹکے ہیں جن کے بعد وہ دیکھتا ہے کہ یہ اپنی اصلاح کرتے ہیں کہ عذاب ٹال دیا جائے یا اسی راستے پر چلتے رہتے ہیں تاکہ قطعی عذاب کے نتیجے میں ملیامیٹ کر دئیے جائیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply