بسط۔۔مختار پارس

اگر نظر افلاک پر ہے تو مٹھی میں خاک بھر کر مستقبل کی طرف اچھال دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ خاک کو خاک نہیں پتہ کہ اس نے کہاں پر جا کر بکھرنا ہے۔ دست و پا کے قابو میں کچھ نہیں۔ انسان کا اختیار بس اتنا ہے کہ وہ مرغ باد نما کی طرح یہ جانچ لے کہ ہواؤں کا رُخ کدھر کو ہے اور پھر بکھر جائے۔ رُخ کا تعین کرنا بہت ضروری ہے، کہ رُخِ یار کے بغیر نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ محبت۔بکھر جانے کے مقامات اور مدارج ہیں، چٹانیں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوتی ہیں،پتھر ٹھوکروں کے بعد کنکر بن پاتے ہیں اور کنکر پس جانے کے بعد ریگزاروں میں بدل جاتے ہیں۔ شاخِ  گُل دامن کو چیر کر چہرے بے نقاب کرتی ہے، پھول گریبان کو چیر کر بے نقاب ہوتے ہیں اور خوشبو خس و خار سے فرار ہو کرہی پھیل سکتی ہے۔ جسم وجود میں ٓا کر بکھرتا ہے، روح وجود سے نکل کر بکھرتی ہے اور زیست اس وقت پھیلتی ہے جب انسان اپنی مٹھی میں بند خاک کو تیز ہوا میں کھول دیتا ہے۔

فکر و فقر کا عقل و خرد سے تقابل جچتا ہی نہیں۔ جسم کے خلیے بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں اور ہر مادہ فنا کی طرف جا رہا ہے۔ اب تک انسان نے جو سیکھا ہے وہ اپنے اس علم کو منطق کا نام دے کر اِترانے پر تُلا ہوا ہے مگر یہ راز ابھی راز ہے کہ حقائق اس سے ابھی بھی چھپے ہوئے ہیں۔ مشاہدات کو سائنس کا نام دے کر ترغیب دی جاتی ہے کہ یقین لاعلمی کی بیساکھیوں پر کھڑا ایک مسافر ہے جسے ابھی بہت دور جانا ہے۔ کم عرصے پر محیط یادداشتوں نے انسان سے اس کی دور بینی چھین لی ہے۔ وہ فراموش کر بیٹھا ہے کہ لفظوں کے کتابوں میں بکھرنے سے پہلے کے زمانوں میں گردش ِ دوراں کی رفتار اور سچ کی تلاش میں الجھے ہوئے مسافروں کی گفتار کو ایک درویش ہی پناہ دے سکتا تھا۔ سچ کا پہلا پردہ کسی صوفی نے ہی چاک کیا ہوگا۔ خوابوں میں لکھی گئی کہانیاں اور خاموشی سے کی گئی گفتگو کسی عہدِ  پارینہ میں لکھی گئی کتابوں میں نظر ٓا ئے تو انہیں لگتا ہے کہ شاید وہی حقیقت ہے ۔ علم حقیقت کو جان لینے کا نام ہے، اسے کتابوں میں پڑھنے کا نام نہیں۔ گدڑی میں  لپٹےمیلے چیکٹ شخص کے حلیے کو حقیر نہ جانو ،کہ اس کے چراغ کی گاد کسی کی نگاہ چمک اٹھنے کا سبب بھی بن چکی ہو گی۔ خلاؤں میں بھٹک جانے والے منطق کے اماموں کو  آ گے بڑھنے کےلیے اسی یقین کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی خلیے کے گرد دیوانہ وار گھومنے والے پروٹون کی جینیات میں لکھ دیا گیا ہوتا ہے۔ ایک چٹان، ایک پھول اور ایک جسم کے ڈی این اے میں ایک ہی تحریر ثبت ہے۔ اس تحریر کو پڑھنے والے اسے سائنس کا نام دے دیتے ہیں اور اس لکھے کو سمجھنے والے درویش بن کر سر جھکا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

محبت سدا حسن کی محتاج رہتی ہے، اسے زندہ رہنے کےلیے حسن کو تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ حسن ماند پڑ جائے تو سوچوں کے چراغوں کو مزید جِلا عطا کرنا پڑتی ہے۔ روپ کے بغیر مشاہدہ اور تجلی کے بغیر ظہور ہو نہیں سکتا۔ جہاں محبت ہو گی، وہاں حسن کا ہونا لازم ہے،وہ کہیں نہ کہیں تو ضرور ہو گا، بس بکھرا ہوا ہو گا۔ حسن روپ میں ہو گا یا رنگ میں، ٓانکھ میں ہو گا یا دل میں، خد میں ہو گا یا خال میں۔ جب کبھی وہ یکجا ہو جاتا ہے، کبھی ڈھونڈنے سے مل جاتا ہے یا کبھی خود سامنے  آکر مبہوت کر دیتا ہے۔ جمال وہ  آتش کمال ہے جسے زوال ممکن ہی نہیں۔ اگر دیدہ و دہن کو رہن رکھ دیا جائے تو پھر کسے احتمال کہ واں سوال و جواب ہونگے۔ جلال خفا ذات کا لبادہ اوڑھ کر جمال کو برانگیختہ ہی کر سکے گا کچھ اور نہیں۔ روح کو یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ بال جھڑ جائیں گے اور جھریاں لپیٹ میں لے لیں گی تو سامان حقیقت کو کس کے ٓانگن میں رکھا جا سکے گا۔ عمر بڑھ جائے تو مسکراہٹ اور حسیں ہو جاتی ہے۔ بوڑھے برگد کی گندھی ہوئی بالوں کی لڑیاں دیکھ کر ہزار پرندے اس کی چھاؤں  میں ٓا کر چھپ جاتے ہیں۔ جمال با کمال مثل گلاب جستجو ہے جو نگاہ یار کی  فرقت میں بیتاب بھی اور شرمسار بھی۔ حسن زائی مدِ نظر ہو تو حسن خفائی کبھی ضائع نہیں ہو سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خواب پھول تو نہیں ہوتے مگر مرجھا سکتے ہیں ،آس ٓاسمان تو نہیں ہوتی مگر گِر سکتی ہے،فیصلے پتھر تو نہیں ہوتے مگر زخم لگا سکتے ہیں۔ فیصلہ اگر خوابوں کو  آسمانوں سے منسلک کرنے کا ہو تو زمین پر رہنے والوں کا حق نہیں کہ وہ کسی اور سے یہ تقاضا کریں کہ اس کی زندگی ان کے طرز سخن کے مطابق کیوں دوزانو نہیں ہے۔ گل و لالہ جہاں کھلتا ہے، ہنگامے وہیں کیوں ہوتے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ سورج اپنے وقت پر سر ضرور اٹھائے گا۔ اور پھر دن کا اجالا ہوتے ہی لوگ شمشیر اٹھا لیتے ہیں۔ شمس کو افلاک پر سجا کر ہر اس شخص کو ڈھونڈتے ہیں جس نے سچ کی گدڑی میں سر چھپا رکھا ہوتا ہے۔ یہاں محبت کی توقیر ہے مگر اس کے وجود کی نہیں۔ کون ہے جو حسن خوابیدہ کا خواہاں نہیں ہے؟ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ وہ جوئے راحت ِجاں کے عین مرکز میں واقع جمالستان میں گر کر امر ہو جائے؟ تو پھر یہ کون ہے جو خنجر اٹھائےمیری جانب بڑھ رہا ہے؟

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply