پیمپرز ۔۔سلیم مرزا

پیمپرز نئے نئے شروع ہوئے تھے۔بابر سپاری بیٹے کو بال کٹوانے نائی کی دکان پہ لے گیا ۔
بچے کا رات بھر کا پیمپر اتنا ہی بھرا ہوا تھا جتنا اس وقت ملک مہنگائی سے نکو نک  ہے ۔۔۔
بچے سے سیٹ کے اوپر رکھے پھٹے پہ حکومت کی طرح سیدھا ہوکر بیٹھا نہیں جارہا تھا ۔چنانچہ بابر سپاری نے احتیاط سے پیمپر کھولا ۔پیمپر ملکی خزانے کی طرح صرف پانی سے بھرا تھا ،بابر نے اس جی ڈی پی کو لپیٹ کر ایک سائیڈ پہ رکھ دیا ۔اتنے میں نائی کا ایک دوست خالد دکان میں آکر کنگھی سے بال بنانےلگا ۔ناگاہ اس کی نظر پیمپر پہ پڑی ۔
“پوچھنے لگا یہ کیا  ہے “؟
بابر سپاری نے اسے سابقہ حکومتوں کی کرپشن بتایا اور کہا ۔۔”اسے پیمپر کہتے ہیں اور یہ اس  وقت آئی ایم ایف کی شرائط سے بھرا پڑا ہے۔”
خالد کو شرارت سوجھی اس نے پیمپر کو گھماکر سامنےوالے کباڑ یے  کے منہ پہ دے مارا۔
اس نے جواب میں جیسا کہ پنجاب کا کلچر  ہے گالی دیکر کہا
“گیلی ٹاکیاں مارتا  ہے۔ ”
اور پیمپر پکڑ کر خالد کی طرف پوری طاقت سے پھینکا جو نائی کو جالگا ۔لڑائی مزید بڑھ گئی ۔
بابر اپنے بیٹے کو لیکر وہاں سے نکل بھاگا مگر پیمپر اسمبلی تک جاپہنچا
بجٹ کو اپوزیشن سرے سے مانتی ہی نہیں، چنانچہ تہہ کرکے ایک طرف رکھ دیا ۔ حکومت کے ارکان ِ اسمبلی نے خزانے کے مفتی کی اس تازہ پیش کردہ تخمینے کی کتابوں کا جو بہترین استعمال کیا ہے اس سے اس کی آئینی حیثیت بھی واضح ہو گئی۔گرم حمام کی طرح کتنا اچھا لگ رہا تھا جب اسمبلی میں بجٹ کو اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے کے سر پہ مارا جارہا تھا ۔حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس بجٹ کو اٹھا کر بنانے والے کے منہ پہ مار کے آتے ۔
پھر بھی کمینی سی خوشی ہوئی کہ ریاست کے منہ پہ یہ بجٹ سیاست نے مارا  ہے۔اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں کو پتہ  ہے، کہ بجٹ آیا کہاں سے ہے ؟
بالکل ایسے ہی جیسے سب مدرسوں کو پتہ  ہے، کہ صابر شاہ کہاں سے آیا  ہے ۔
اس مظاہرے سے امید  ہے، کہ عوام اس ہاتھاپائی سے سبق سیکھ کر اس کی ریہرسل سڑکوں پہ کریں گے ۔
سیاسی نوراکشتی سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ آٹھ سے دس والے اینکرز کو عوام کو دھیانے لگانے کا موقع مل گیا ۔اب گالی کس نے دی ،اور گاہل کنے کڈھی ۔ چلیں ایک دن کے اس اجلاس کے ایک کروڑ اسّی لاکھ تو حلال ہوئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پنجاب اور وفاق کے درمیان گالی کلچر فیسٹول ہورہا  ہے۔۔
پیمپر چینل چینل چل رہا ہے ۔لوگ اس رولے گولے میں فواد چو ہدری کے پچپن روپے لیٹر والے ریڈ کارپٹ کو بھول گئے ۔سوشل میڈیا والے ماڑا، چنگا رولا ڈال رہے تھے ان کو ان کا پسندیدہ موضوع مل گیا ،سارے صابر شاہ کے پچھواڑے کو انصاف دلانے نکل کھڑے ہوئے ۔مولوی ابھی محمد بن سلیمان والے حادثے سے نہیں سنبھلے تھے کہ ایک اور پیمپر آلگا ۔ اب جتنے منہ، اتنی مثالیں ،مگر ایک بات تو طے  ہے، کہ مہنگائی جلد ہی عوام کی وہ لال کرے گی کہ بندر بھی شرما کر پیمپر پہن لیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply