کیا سوال کرنا گناہ ہے؟

کیا سوال گناہ ہے؟
تنویر عالمگیر
ساہیوال کے ایک نامور عالم دین کو میں نے سوال بهجوائے.. انهوں نے کال کی.. ہنسی خوشی بات کی.. کچھ روز میں جوابات بهی بهجوا دیئے..(جیسے بهی).. اصل میں میری خواہش تهی کہ تمام مسالک کے کم ازکم ایک ایک عالم دین کے جوابات بهی کتاب میں شامل ہوں.. 25 کے قریب علماء کو سوال بهجوائے تهے… ان کے سوا کسی نے مجهے گهاس نہ ڈالا جیسا کہ ہمارے ہاں کلچر ہے.
خیر مجبوراً کتاب چهاپ دی.
کتاب شائع ہونے کے بعد میں نے وہ کتاب ساہیوال کے ان محترم عالم دین کو بهجوائی. انهوں نے جوابا ًمجهے اپنی 11 عدد ذاتی تصانیف بهجوائیں… بہت خوشی ہوئی..
میری کتاب ان کو ملنے سے پہلے ان کے اسٹوڈنٹس کو ملی.. اس پر میرا کنٹیکٹ نمبر بهی تها.. مجھ سے ان کے مختلف اسٹوڈنٹس نے رابطہ کیا.. شاید سبهی نے تعریف کی.. ایک لڑکا جس نے اپنا نام کاشف بتایا، اس نے تعریفوں کے پل بانده دیے.. مجهے کهٹکا محسوس ہوا… خیر میں نے جوابا ًشکریہ ادا کیا… اس نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا… میں نے معذرت کی.. اس نے تقاضا کیا.. میں نے مستقبل میں ملنے کا وعدہ کیا…. پهر اس کے بعد وہ مسلسل مجھ سے رابطے میں رہا.. عید وغیرہ پر بهی اسپیشل وش کرتا…
اکتوبر کے آخر میں، میں لاہور گیا.. سوچا واپسی پہ ان کے مدرسے سے ہوتا جاوں گا.. گپ شپ ہوجائے گی.. عین اسی روز اس کا میسج آیا اور حال احوال پوچها.. میں نے کال کی.. کال پہ اس نے کہا کہ میرے دوست سے بات کریں.. اس کے دوست نے فون پکڑتے ہی مجھ سے مولویانہ بحث شروع کردی.. خیر مختصر یہ کہ انهوں نے میرے کفر کا اعلان کردیا.. کہا کہ “علمائے حق کی توہین کفر ہے، آپ نے لفظ مولوی استعمال کرکے علمائے حق کی توہین کی ہے. اور وغیرہ وغیرہ.. کاشف نے اس سے فون پکڑ کر ہنستے ہوئے طنزیہ کہا کہ “تنویر صاحب کی ہویا”
میں اس روز بڑا ڈس ہرٹ ہوا.. بہت تکلیف ہوئی مجهے.. لوگ کس حد تک گر جاتے ہیں.. مکاریت کی بهی حد ہوتی ہے… جانے ان لوگوں کے کیا عزائم تهے اور وہ کیوں اتنے وقت سے خوشامد میں لگے تهے اور ملنا چاہتے تهے. اچها ہوا کہ میں نے انهیں اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا تها ملنے کا… ورنہ…
اسی طرح فیس بک پر مختلف لوگ کبهی زنانہ آئیڈیز سے.. کبهی مردانہ آئیڈیز سے.. کبهی مولوی بن کر.. کبهی لبرل بن کر.. کبهی ملحد بن کر… بات کرتے ہیں.. خوشامد کرتے ہیں ( موقف کی تائید و حوصلہ افزائی اور خوشامد میں فرق ہر ذی شعور کر سکتا ہے.. ہم خیال و حامی دوستوں کا شکرگزار ہوں). کچھ لوگ اصلاح کرنے کا ایجنڈہ لیے ہوتے ہیں..کچھ سبق سکهانا چاہتے ہیں.. کوئی دهمکیوں سے کام چلاتا ہے.. کسی کو محبت ہوچکی ہوتی ہے ہم سے.. خیر یہی ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ ہے: مکاریت.. دهوکہ دہی… فریب… جهوٹ.. خود کو عقل کل سمجهنا… دوسروں کی اصلاح کا ایجنڈہ لیے گهومنا… کفر کے فتوے لگانا.. سوال کرنے والوں کو دین دشمن سمجھ کر مار ڈالنا…..

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply