پچھتاوے/قصّہ دوم۔۔اعظم معراج

اس نے وزارت کا حلف لیا، سیدھا اپنے والد کی قبر پر گیا، فاتح پڑھی ،پھر قائد کے ہاں حاضری دی ،جان کی امان لے کر عرض کیا۔ جناب میرے والد نے جان دی ہم نے یتیمی اور ماں نے بیوگی کاٹی، بڑے ہوئے اس ملک کے لوگوں کے نام پر آپ کے لئے سیاست کی، آپ جتنے تو نہیں لیکن تین پانچ مرلے سے نکل کر خاصے آسودہ ہوئے ،اب خدا کا کرم ہے اکثر پرائزبانڈ نکلتے ہیں۔ ساری عمر آپ کے لئے بہت کچھ کیا گالیاں کھائیں ، اور   کپڑے پھاڑے اور پھڑوائے ۔ اب ان20کروڑ میں اکثریت کی عزت دارانہ نقل و حمل کی ذمہ داری مجھ پر ڈال کر آپ نے ایک موقع دیا ہے ۔ روزانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو عزت دارانہ طریقہ سے سفری سہولتیں فراہم کرنا مہینے میں45لاکھ سال میں پانچ کروڑ40لاکھ لوگوں کے میں کام آ سکتا ہوں۔ اگر اللہ نے پانچ سال موقع دیا تو یہ تعداد 27کروڑ تک پہنچ جاتی ہے ۔اتنی خلق خدا کے کام آنے کا موقع میں کھونا نہیں چاہتا اور یہ موقع فراہم کرنے پر آپ کا ممنون اور مشکور بھی ہوں۔ موٹر سائیکل پر ماں بیٹی، ابا یا پورے خاندان کو ذلت کے ساتھ سفر کرتے دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے بسوں کی چھتوں پر انسانوں کو چڑھتے دیکھ کر دل ڈوب مرنے کو چاہتا ہے۔ ٹرین کے فرش پر لیٹ کر سفر کرتے ذلتوں کے مارے پاکستانی مجھے شرمسار کرتے ہیں۔

عید کے دنوں میں تپتی ٹرین پر گھروں کو جاتے اہل وطن مجھے دوزخ کی آگ کی نوید سناتے ہیں لہٰذا اب میں ان کے لئے کام کروں گا ،اپنے اور آپ کے خاندان کے لئے کرکے اپنے اور آپ کی بھی کئی پشتوں کا سامان کر لیا ہے، قائد نے اس کی آنکھوں میں بغاوت دیکھ کر اجازت دے دی۔ گھر گیا ،بیوی بچوں کو کہا اب جب تک حکومت رہی میرا زیادہ وقت 21کروڑ لوگوں کے لئے ہی ہو گا آپ لوگوں کو قربانی دینی پڑے گی ،اگر آپ لوگوں کو منظور ہے تو بتاؤ ،ورنہ میں وزارت سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ بیوی بچوں نے بھی قوم کے وسیع تر مفاد میں ہاں کر دی۔ دفتر پہنچا میٹنگ کال وہ ہی سب کچھ افسروں کو بتایا، بڑے افسروں اور اپنے اوپر ایمرجنسی کے علاوہ اندرون ملک، ہوائی اور بس کے سفر پر پابندی لگائی، ریلوے زمینوں پر بڑے قابضین اور غریب پاکستانیوں کا ہنگامی بنیادوں پر ڈیٹا جمع کرنے کی ہدایات کی، بڑی چوری چکاری سختی سے بند کروائی ،سپہ سالار سے وقت لیا ،انہیں ا پنے اسStrategic asset (تیزوپراتی اثاتے) کو بچانے کے لئے تعاون مانگا۔ صوبائی وزراء اعلیٰ کو اعتماد میں لیا ،انہیں   بھی ان کے صوبوں میں ریلوے کی بحالی کے فوائد پر قائل کیا اور مدد مانگی۔ بڑے قابضین سے زمینوں کو چھڑوا کر نیک نام سرمایہ کاروں سے جوائنٹ وینچر سائن کیے اور زمینوں پر شراکت میں اثاثے بنائے غریبوں کو سپہ سالار کی گارنٹی سے اور کرائے ادا کرکے دو سال کے لئے کرایوں پربھیجا اور جنگی بنیادوں پر ان مہنگی زمینوں پر نیک نام سرمایہ داروں کے ساتھ بڑے ہاؤسنگ پروجیکٹ بنا کر ان غریبوں کو بھی لاکھوں سے کروڑوں کا مالک بنایا اور ادارے کے لئے کھربوں کمائے ادارے میں جب سرمائے کا خون دوڑ نے  لگا، ملازمین کو سہولتیں ، چیک اور بیلنس کا نظام بہتر کیا ملک بھر میں متروک لائنیں دوبارہ شروع ہوئیں ،چھوٹے چھوٹے قصبوں کے پرانے اسٹیشنوں کو بحال کیا ،بڑے شہروں میں سرکلر ریلوے شروع ہوئی ،لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کی بجائے عزت دار انسانوں کی طرح سفر کرنے لگے، ہر ہم وطن اس کا شکر گزار ہونے لگا ٹرانسپورٹ مافیا کبھی کبھار مخالفت کرتی لیکن اس کا قائد بھی نہ چاہتے ہوئے اس کی حمایت کرتا سپہ سالار کی حمایت پہلے ہی ساتھ تھی۔

دو سالوں میں ہی ریلوے ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک جیسی ہو گئی ملک بھر میں ریلوے کی زمینوں پر بننے والے پروجیکٹ ملک کا وقار اور بڑھانے لگے ریلوے کی زمین پر آباد لاکھوں غریب پاکستانی بیٹھے بٹھائے امیر ہو گئے بے تحاشا رہاشی وکمرشل یونٹ پیدا ہوئے لاکھوں نوکریاں نکلی اورہر طرف لوگ وزیر ریلوے کے گن گانے لگے وہ ملک میں جدھر نکلتا لوگ چشم براہ ہو جاتے اسے اپنے پرائز بانڈ نکلنے والی خوشی سے لاکھوں گنوں زیادہ خوشی ہوتی وہ اس خوشی اور سرشاری میں وہ روز کسی نئے پروجیکٹ کا افتتاح کرتا لوگوں کے تشکر بھرے جذبات اسے نوید دیتے کہ اس نے اپنی آخرت سنوار لی ہے اپنی دنیا وہ قائد کے فلسفے پر پہلے ہی سنوار چکا تھا اس کا محکمہ سرمایا اگلنے لگا ایک دن وہ اپنے ریلوے ملازموں کی دعوت پر تقریر کرتے ہوئے خوشی سے دیوانہ وار زور زور سے ہاتھ ہلا ہلا کر تقریر کر رہا تھا اور بار باردوہرا رہا تھا بے شک میں مطمئن ہوں کہ میں نے آپ کی مدد سے خلق خدا کے کام آیا ان پانچ سالوں میں میں نے اور آپ نے اپنی اپنی آخرت سنوار لی اچانک اس کی آنکھ کھلی اس کی بیگم کہہ رہی تھی ’’خواجہ صاحب خدا کے لئے آج سب سے پہلے کسی ڈاکٹر یا خدا کے کسی نیک بندے سے مشورہ کریں۔ یہ اچھا نہیں آپ روز روز میں مطمئن ہوں کے نعرے لگاتے اٹھتے ہیں اور پھر روتے رہتے ہیں روتے ہوئے آپ کا گلہ پہلے سے بھی زیادہ روندھ جاتا ہے اور آپ کو ہوش نہیں رہتا اور آپ مسلسل کہتے رہتے ہیں میں نے اکیس کروڑ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا جو موقع ملا تھا وہ اپنے اور اپنے قائد کے خاندان کے لئے وسائل اکٹھے کرنے اور پھر اس کی صفایاں دینے میں گزار دیا‘‘ میرے اللہ مجھے ایک موقع دے دوں بیوی نے کہا’’ اٹھو خواجہ صاحب ایسے موقع روز روز نہیں ملتے ‘‘اس نے روتے ہوئے کہا ’’اچھا نہیں ملتے تو موجودہ وزیر ریلوے سے میری بات کروا دو‘‘۔ فون ملتے ہی اس نے دوسری طرف شیخ صاحب کی بات سنتے ہی روتے ہوئے کہنا شروع کر دیا’’ شیخ صاحب تم آخرت سنوار لو تم نے ساری عمر تو جو کچھ کیا سو کیا چاہے ہمارے ساتھ کیا یا مشرف کے ساتھ ،اس کی معافی مانگو اور جو موقع آج ملا ہے اس کو قابو کر لو۔21کروڑ کی دعائیں لے لو’’ شیخ صاحب روز اس طرح کے موقع نہیں ملتے اور نہ ہر کسی کو موقعے ملتے ہیں‘‘ اگر ایسا موقع ملے تو اسے گنوانا نہیں چاہیے’’ ورنہ ایک دو حویلیاں تو شاید بن جاتی ہیں لیکن حاصل جمع ساری عمر کے پچھتاوے ہی ہوتے ہیں‘‘۔ خدارا شیخ صاحب یہ موقع ضائع نہیں کرنا۔

13اکتوبر 2018

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply