حالاتِ حاضرہ پہ ایک نظر۔۔حسان عالمگیر عباسی

جب میں کہتا ہوں کہ تم غلط ہو،اس کا مطلب یہی بنتا ہے، اس میں پائے جانے والی غلطی سے میں پاک ہوں ۔حالانکہ انسان پاکی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ہماری تنقید بھی لولی لنگڑی ہے جس میں دوسرا ہی گھٹیا اور غلیظ ہے۔ لہذا آئی (I) اور یو( you) نکال باہر پھینکنے اور ہم (we) کا استعمال ضروری ہے، کیونکہ ہم سب ایک ہی معاشرے میں بستے اور ایک ہی تھالی میں کھاتے ہیں۔ ہم بنیادی طور پہ “ہم” ہیں۔ غلطی ہماری غلطی اور نیک نامی ہماری نیک نامی ہے۔ خاندان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک سب کا نام بناتا ہے۔ ہماری تنقید ‘الدین نصیحة’ کے گرد گھومنی چاہیے۔ اگر دوسرا غلط ہے تو درستی کی طرف مائل کرنا اصل کامیابی ہے۔

یہ کہاں سے صادق آ رہا کہ اگر پارلیمان میں شور ہو رہا ہے تو تنقید کرنے والا اس کو سوشل میڈیا پہ کتا بنا دے اور ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ پارلیمان میں دراصل نمائندگی نہیں کتا پن چل رہا ہے؟ حالانکہ ایک انسان کو کتا بنا کر تنقید کرنا کیا کم کتا پن ہے؟ پھر ناقد اور جس پہ تنقید کی جارہی ہے میں کیا فرق بچا ہے؟

جو کچھ فردوس عاشق اعوان یا شیریں مزاری صاحبہ نے کیا وہ کسی بھی طرح نمائندگی نہیں ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے کی خواتین کی نمائندگی یہ ہو ہی نہیں سکتی۔ سڑکوں سے پارلیمان تک سب کو موقع چاہیے کہ وہ درگت بنا سکیں۔ ہر ایک گرانے کا گُر سیکھ رہا ہے اور یہی فنکار، ہوشیار اور سمجھدار سمجھا جاتا ہے۔

مدارس میں جو ہو رہا ہے, اس پہ تنقید بالکل جائز ہے کیونکہ مدارس اب اڈے بن چکے ہیں۔ جب قرآن و حدیث سیکھنے کے لیے کسی استاذ کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے اور حتی الامکان اور بقدر ضرورت خود سیکھنے کی طرف بڑھیں گے تو خیر ہی خیر ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاذ اور مربی کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن ہر فرد کی یہ ضرورت نہیں ہے اور بالخصوص حالات حاضرہ کو سامنے رکھ کر مستقبل میں بچوں کی دینی تربیت کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کی جائے۔ کچھ لوگ یونیورسٹیز اور سکولز میں ہونے والی برائیوں کو مدارس کے دفاع کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

مدرسہ اور سکول کا موازنہ بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ بدقسمتی سے یہ دو الگ ادارے ہیں۔ مسٹر اور مولوی بھی بدقسمتی سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ افسوس کے ساتھ دینی مدارس کو دین سیکھنے اور سکولز اور کالجز کو دنیا بنانے کے لیے بنایا جا چکا ہے۔ ایسے میں ان کا موازنہ کر کے الٹا مدارس کا نقصان ہے۔ کبھی بھی گائے کی کھال کالج کو نہیں جاتی۔ کبھی بھی چندہ سکولز کے لیے نہیں اکھٹا ہوتا۔ کبھی بھی عام لوگ صدقات و خیرات یونیورسٹی کو نہیں بھیجتے۔ اس فرق کو ملحوظ رکھنا اور ساکھ بچانا ضروری ہے۔ ساکھ بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اہل مدارس کھل کر وحشیانہ اقدام کی مذمت کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملالہ کا کہا ان کے نزدیک غلط نہیں ہے لیکن آپ کا کیا آپ اور آپ کی کتابوں کی رو سے غلط ہے۔ وہ آپ کو اس لیے غلط نہیں کہتے کہ ان کے نزدیک غلط ہے بلکہ صرف آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرق ملحوظ رکھیں اور موازنہ بند کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply