فلسطین (18) ۔ چوتھی جنگ/وہاراامباکر

جمال عبدالناصر کی 1970 میں وفات کے بعد ان کے نائب انوار السادات مصر کے صدر بنے۔ مصری بادشاہت کا خاتمہ کرنے والی فری آفیسرز موومنٹ میں سادات نمایاں کردار تھے۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ ان کا آئیڈیا سمجھا جاتا ہے۔
سادات کا عرب دنیا میں ناصر جیسا اثر نہیں تھا۔ انہوں نے مصری داخلہ اور خارجہ پالیسی میں جمال عبدالناصر سے مختلف راہ لی۔ نظریاتی کم اور عملی زیادہ۔ ناصر کا پین عرب ازم ترک کر دیا۔ ان کی توجہ مصر پر تھی، نہ کہ عرب دنیا کی قیادت پر۔ مصر کی ریاستی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کھول دیا۔ وہ مصر کا دفاع پر ہونے والا بڑا خرچ کم کرنا چاہتے تھے، سویز نہر کو دوبارہ کھولنا چاہتے تھے اور سینا کا علاقہ واپس لینا چاہتے تھے، جہاں پر تیل کے کنویں تھے۔ سادات کو احساس ہوا کہ اس سب کا طریقہ اسرائیل کے ساتھ امن کا قیام ہے، خواہ انہیں پسند ہو یا نہیں۔ ان کے لئے چیلنج یہ تھا کہ اسرائیل کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ مصر کو سینا کا علاقہ واپس نہیں دینا چاہتا تھا۔ گولڈا مئیر نے مصر کی صلح کی پیشکش کو 1971 میں نظرانداز کر دیا تھا۔ اپنی عسکری فتوحات پر اسرائیلی پراعتماد تھے اور کسی مصالحت کے موڈ میں نہیں تھے۔
سادات نے فیصلہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ امن قائم کے لئے اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ امن کا عمل شروع ہو سکے اور اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔ جنگ کا مقصد اسرائیل پر کاری ضرب لگانا تھا اور عرب فخر کی بحالی تھا۔ اس کا مقصد اسرائیل کو تباہ کرنا نہیں تھا اور نہ ہی سینا کو واپس فتح کرنا۔ (سادات جانتے تھے کہ یہ ممکن نہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سادات کا پلان تھا کہ مصری افواج سویز نہر پار کریں گی جس کے مشرق میں اسرائیلی مورچہ بند تھے۔ سینا کے کچھ علاقے پر قبضہ کریں گی۔ اسرائیل کو ملٹری نقصان پہنچائیں گی۔ اس دوران سپرپاورز کود پڑیں گی اور یہ جنگ مختصر رہے گی، لیکن اس سے جمود ٹوٹ جائے گا۔ سادات نے سیریا کے لیڈر حافظ الاسد سے اتحاد کیا جو خود بھی گولان کی پہاڑیوں کا علاقہ لینا چاہتے تھے۔ دونوں محاذوں پر بیک وقت کئے جانے والے اور سرپرائز حملے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ اور اس کے لئے بہترین دن یوم کپور کا تھا جب زیادہ تر اسرائیلی یہودی روزہ رکھتے ہیں، عبادت اور آرام کرتے ہیں۔
چھ اکتوبر 1973 کی دوپہر مصر اور سیریا نے بیک وقت سینا اور گولان پر حملہ کیا۔ اسرائیل کو اس کی پہلے ہی خبر ہو چکی تھی۔ یہ خبر اسرائیل کو اردن کے شاہ حسین نے دی تھی، جنہوں نے پچیس ستمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کو تل ابیب جا کر خبردار کر دیا تھا (شاہ حسین خوفزدہ تھے کہ 1967 کی طرز کی جنگ دوبارہ ہوئی تو انہیں بڑے علاقے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ انہیں دوسرا بڑا مسئلہ فلسطینیوں کے ساتھ تھا جن کے ساتھ ان کی بڑی جنگ ہوئی تھی)۔ اسرائیل کو جمال عبدالناصر کے داماد اشرف مروان نے بھی خبردار کیا تھا۔ اشرف مروان سادات کے قریبی ساتھی بھی تھے اور اسرائیل کے لئے جاسوسی بھی کرتے تھے۔ لیکن اسرائیل نے ان خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ اسرائیلی قیادت کو اعتماد تھا کہ مصر اور سیریا حملہ کرنے کی جرات نہیں کریں گے کیونکہ عسکری طاقت کا توازن مکمل طور پر اس کے پاس تھا۔ دوسرا یہ کہ مروان نے مئی میں جنگ کا بھی بتایا تھا جس وجہ سے اس سورس پر اسرائیلی اعتبار کم تھا۔ تاہم مروان کے مہیا کردہ جنگی پلان نے اسرائیل کو اس جنگ کے دفاع میں مدد کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کو اس جنگ میں شروع میں بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ شروع کے دنوں میں مصری فوجی نہر سویز عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیریا کے ٹینک گولان کی پہاڑیوں میں آگے بڑھ رہے تھے۔
ابتدائی دنوں کے بعد جب جنگ آگے بڑھتی گئی تو اسرائیل نے واپس برتری لے لی۔ (اس میں امریکہ سے آنے والی مدد عسکری سپلائی کا بھی ہاتھ تھا جو نکسن نے منظور کی تھی)۔ سیریا پر کامیابی سے حملہ کیا اور اس کی فوج دمشق کے قریب پہنچ گئی۔ دوسری طرف سویز نہر پار کر کے اس کے مغرب کے حصے پر قدم جما لئے اور قاہرہ سے صرف سو کلومیٹر دور رہ گئے تھے۔
اس ڈرامائی تبدیلی کے بعد سوویت میدان میں کود گئے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس کے مقابلے میں گھری ہوئی مصری تھرڈ آرمی کے ساتھ سوویت آن کھڑے ہوئے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتی دیکھ کر امریکہ نے نیوکلئیر اسلحے کو ہائی الرٹ پر کر دیا اور اسرائیل پر دباوٗ ڈالا کہ جنگ بند کی جائے۔ تین ہفتے تک گھمسان کی جنگ رہنے کے بعد 26 اکتوبر کو جنگ بندی ہو گئی۔
اسرائیل نے میدانِ جنگ پر تو کامیابی حاصل کی تھی لیکن یہ مہنگی پڑی تھی۔ اس میں 2688 فوجی مارے گئے تھے۔ اس کی خوشی نہیں منائی گئی۔ ملک میں عسکری اور سیاسی قیادت کے خلاف غصہ تھا کہ انہوں نے باوجود وارننگ کے تیاری کیوں نہیں کی۔ وزیرِ اعظم مئیر اور وزیرِ دفاع موشے دایان کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیبر پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی۔ رائٹ ونگ لیکود پارٹی حکومت میں آ گئی۔ بیگن 1977 کا انتخاب جیت کر وزیرِ اعظم بن گئے۔
اس نے اسرائیلی عسکری پاور کی مکمل بالادستی کا تاثر توڑ دیا۔ جنگ سے پہلے ہر ایک کا خیال تھا کہ اسرائیل اس قدر طاقتور ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ اسے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مصر اور سیریا افواج نے یہ دکھایا تھا کہ وہ برتری سے خوفزدہ نہیں، اسرائیل کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ “ناقابلِ شکست” کا تاثر ٹوٹ گیا تھا۔ یہ یقین کہ اسرائیل عرب علاقوں پر قبضہ رکھ سکتا ہے اور اسے کچھ قیمت نہیں دینا پڑے گی، ختم ہو گیا تھا۔
اور اس نے اسرائیل کو امن کے قیام کے لئے مذاکرات کے میز تک آنے پر مجبور کیا۔ سادات یہ جنگ ہار کر بھی مقصد کامیابی سے حاصل کر چکے تھے۔ مصریوں کے لئے 1967 کی سبکی کے بعد یہ نفسیاتی فتح تھی۔ مصر نے اس جنگ کو عظیم فتح کے طور پر منایا۔ 6 اکتوبر وہ دن تھا جب مصری فوج نے نہر سویز پار کی تھی۔ اس روز آج مصر میں قومی تعطیل ہوتی ہے۔ اس قومی تفاخر نے یہ اعتماد بھی دیا کہ وہ اسرائیل سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کر سکتے ہیں۔
نفسیاتی فتح کے علاوہ یہ سادات کے لئے سیاسی اور سٹریٹیجک کامیابی بھی رہی۔ اگرچہ ان کا ملٹری پلان ناکام ہوا تھا لیکن ان کے اس جراتمندانہ اقدام نے کام کر دیا۔ بہت سے اسرائیلی اس کے بعد قائل ہو گئے کہ امن کے لئے سینا کی زمین دینا برا سودا نہیں۔ (تاہم اس کے لئے سادات کو ابھی ایک اور جراتمندانہ قدم لینا پڑا، جو یروشلم کا تین روزہ دورہ تھا)۔
دو سال جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کیمپ ڈیوڈ میں 1979 کے امن معاہدے میں سینا کا تمام علاقہ مصر نے واپس لے لیا۔
امن معاہدے کے کئی دوسری اثرات بھی تھے۔ سادات مصر کو سوویت کیمپ سے امریکی کیمپ لے گئے۔ اس نے مشرقِ وسطٰی میں سوویت اثر کو محدود کر دیا۔
اس کی سب سے بھاری قیمت انوار السادات کو ادا کرنی پڑی۔ 6 اکتوبر 1981 کو چوتھی عرب اسرائیل جنگ کی یاد میں قاہرہ میں منعقد ہونے پریڈ کے دوران الجہاد الاسلامی المصری کے خالد اسلامبولی نے انوار السادات کو امن معاہدے کی پاداش میں قتل کر دیا۔ اس حملے میں زخمی ہونے والے نائب صدر حسنی مبارک نے اقتدار سنبھالا اور اگلے تیس برس تک مصر کے صدر رہے۔
عرب ممالک نے 1973 میں امریکہ اور نیدرلینڈز پر تیل کی پابندی لگا دی جس کے عالمی اثرات ہوئے۔ اس نے عالمی کسادبازاری پیدا کر دی۔ اور خاص طور پر سعودی عرب کو خطے کا اہم ملک بنا دیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply