دے جاوُو-فطرت کا سربستہ راز(2،آخری حصہ)۔۔ادریس آزاد

یاداشت کا عمل خودکار ہے۔ اس کا تعلق بہت سی چیزوں کے ساتھ بیک ہوتاہے۔ تحت الشعور ( Sub-conscious) اور لاشعور (Unconscious) میں موجود یادوں کے ساتھ ، دماغ کے نیورانز کے ساتھ ، بیرونی مہیجات کے ساتھ، ہمارے منطقی فہم کے ساتھ، علت و معلول (کاز اینڈ ایفیکٹ) پر خود کاریقین کی عادت کے ساتھ، اور سب سے بڑھ کر دماغ اپنے اور اپنے جسم کے بچاؤ کے لیے خود کیا چاہتاہے یعنی سروائیول آف دی فٹّسٹ کے ساتھ۔ ہم جانتے ہیں کہ دماغ کے الگ الگ نظام ہیں۔ ہر معاملے کو برتنے کے الگ الگ شعبے ہیں۔ یاداشت اور اس کا آنا جانا اُن مختلف نظاموں میں سے ایک نظام ہے۔ اس نظام میں بھی جسم کے باقی نظاموں کی طرح کسی کسی وقت حادثے رونماہوسکتے ہیں۔ چنانچہ جب یاداشت کو واپس لانے والے نظام میں کسی جسمانی یا ذہنی وجہ سے وقتی بے قاعدگی پیدا ہوجائے تو دے جاو ُو وقوع پذیر ہوتاہے۔
اس وضاحت کے پیچھے یہ منطق پوشیدہ ہے کہ ہماری وہ حس جو خود کار طریقے سے مختلف مدلولات کو اکھٹا کرتی رہتی ہے وہ ضرورت سے زیادہ فعال ہوکر دے جاوُو کا سبب بنتی ہے۔ یعنی جب ہم کوئی سا بھی مشاہدہ کررہے ہوتے ہیں تو ہماری ایک حس مصروف ِ عمل ہوتی ہے جو ہمارے ذہن میں موجود مختلف چیزوں کو جمع کرکے دوبارہ ترتیب دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم روزانہ جب آفس پہنتے ہیں تو اپنے ٹیبل پر پہلی نظر ضرور ڈالتے ہیں۔ ٹیبل پر کچھ چیزیں رکھی ہیں۔ پہلی نظر پڑتے ہی ہمارا ذہن تیار ہوجاتاہے کہ آج سارا دن ان چیزوں کو ذہن کے ایسے خانوں میں رکھنا ہوگا جو بار بار استعمال کی چیزیں رکھنے کے خانے ہیں۔ اسے کہتے ہیں، “دوبارہ جمع کرنے کی حس”۔ چھٹی کے دن ہمارا ذہن آفس کے ٹیبل پر پہلی نظر نہیں ڈالتا تو اُس دن ہمارا ذہن ٹیبل پر رکھی چیزوں کو اُن خانوں میں نہیں رکھتا جو “آج” کے استعمال کی چیزیں رکھنے کے خانے ہیں۔چنانچہ یہ حس کبھی کبھار بلاضرورت اور اچانک چیزوں کو “دوبارہ جمع کرنا” اور “آج کے استعمال کی چیزوں کے خانے” میں رکھنا شروع کردیتی ہے۔اسی طرح ہمارے ذہن کی یاداشتوں کا نظام دو حصوں میں منقسم ہے۔ نمبرایک جو شارٹ ٹرم میموری کو سنبھالتاہے اور آفس کی ٹیبل کی چیزوں سمیت روز کے روز یاد رکھنے اور روز روز بھلا دینے کا پورا سسٹم کنٹرول کرتاہے اور دوسرا وہ جو لانگ ٹرم میموری کو سنبھالتاہے۔ جس میں ہماری بچپن کی یادوں سے لے کر آج تک کی تمام ایسی یادیں شامل ہوتی ہیں جو لمبے عرصہ کے لیے سنبھالی گئی ہیں اور کبھی کبھی استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ چنانچہ جب لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم میموریز کسی وجہ سے آپس میں اوورلیپ کرنے لگیں تو دماغ پیش آنے والے واقعہ کے وقت کچھ اس طرح سے کنفیوز ہوجاتاہے کہ دے جاو ُ و کا تجربہ سرزد ہونے لگتاہے۔
مذکورہ نظریات کے علاوہ بھی بہت سی تھیوریز ہیں۔ ہرکسی نے اپنے طور پر دے جاو ُو کے بارے میں رائے دی ہے اور جیسا انہیں لگا ہے کہہ ڈالا ہے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک تھیوری پوری طرح سے مشکوک ہے۔ہر ایک پر کئی کئی اعتراضات اُٹھائے جاسکتے ہیں۔ کسی بات کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ دے جا و ُو کا تجربہ آج بھی ایک راز ہے۔
دور َحاضر میں کوانٹم فزکس کے محیر العقول نظریات کی آمد کے بعد دے جا و ُو کو بھی فزکس کی مدد سے دیکھنے کی کوشش کی جانے کے خبریں ملتی رہتی ہیں۔مثلاً ملٹی ورس کے نظریہ کے مطابق کائناتیں بہت سی ہیں۔ ہرجگہ ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے اس کمرے میں بھی اور کائناتیں ہیں۔ ہم ہر کائنات میں موجود ہیں ۔ ہر کائنات کی اپنی فریکوئنسی ہے ، جیسے ریڈیو کی فری کوئینسیز ہوتی ہیں ہر سٹیشن اور ہر چینل کے لیے۔یہ کائناتیں مسلسل وائبریٹ ہوتی رہتی ہیں۔ اسی وائبریشن کے دوران ایک کائنات دوسری کائنات کے ساتھ ٹکرا بھی سکتی ہے۔اگر ہم کسی وجہ سے کبھی کسی اور کائنات کی فریکوئنسی سن لیں تو ہمیں اچانک لگتاہے کہ دے جا و ُو ہورہا ہے۔ تھیوریٹکل فزسسٹس ایسا مانتے نہیں ہیں، فقط احتمال کا اظہار کرتے ہیں۔
مجھے یہ بھی خیال آتاہے کہ اِس طرح سوچُوں۔۔۔۔۔۔۔کہ ہم جب کسی واقعہ سے دوچار ہونے لگتے ہیں تو کبھی کبھار یوں ہوتاہے کہ اس واقعہ کا ایک آدھ اگلا لمحہ ہم پہلے دیکھ لیتے ہیں اور پھر ساتھ ہی جب ہم اس واقعہ میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتاہے کہ یہ واقعہ ہمارے ساتھ پہلے بھی پیش آچکاہے۔
آپ کو یاد ہوتو نظریۂ اضافیت کی دریافت سے پہلے آئن سٹائن کے ذہن میں جو سوالات سر اُٹھایا کرتے تھے، اُن میں ایک یہ بھی تھاکہ،
“اگر روشنی کی رفتا کسی حرکت کرتے ہوئے آبجیکٹ کی رفتار میں جمع کی جاسکتی ہوتی تو واقعات اپنے ظہور پذیرہونے سے پہلے ہمیں نظرآجاتے”۔
کارل ساگان نے آئن سٹائن کے اس سوال کاذکر کرتے وقت اُسی کی ایک مثال بھی لکھی ہے،
“اگر ایک گدھاگاڑی ایک طرف سے آرہی ہو اور ایک سائیکل سوار دوسری طرف سے اور وہ دونوں چوک کے درمیان پہنچ کر آپس میں ٹکراجائیں تو کیا ہمارے لیے وہ حادثہ چند لمحے پہلے پیش آئے گا اور سائیکل سوار اور گدھا گاڑی والے کے لیے چند لمحے بعد میں پیش آئے گا؟ کیونکہ ہم تک روشنی کی جو شعاع اس واقعہ کے ہونے کی خبر لارہی ہے ، اس شعاع کی رفتار میں گدھا گاڑی اور سائیکل کی رفتار بھی جمع کی جائے تو حادثہ ہونے کی خبر ہمیں حادثہ ہونے سے پہلے مل جانا چاہیے”
یہ تو آئن سٹائن کا ایک بچگانہ سوال تھا۔ جس کا جواب بعد میں اُسے مل گیا کہ دراصل روشنی کی رفتار کو کسی اور شئے کی رفتار میں جمع ہی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن فرض کریں کہ کسی حرکت کرتے ہوئے آبجیکٹ کی رفتار میں روشنی کی رفتارکو جمع کرنے کی بات ہی نہ کی جائے بلکہ روشنی کی شعاع کے کسی آبجیکٹ سے ٹکرا کر ہم تک آنے کی رفتار کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی کی رفتار سے وقتی طور پر “تیز” فرض کرلیا جائے تب بھی تو ایسا ہی ہوگا کہ واقعات اپنی ہونے سے پہلے نظر آنے لگیں گے۔ ہم چونکہ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا چنانچہ یہ خیال مکمل طور پر غلط ہے۔
لیکن جب ہم کوانٹم کے ویو فنکشن Wave function اور پارٹیکلز کے طرز عمل کی بات کرتے ہیں تو یہ کہے بغیر ہماری بات نہیں بنتی کہ اس عمل میں بنیادی کردار شاہد یا ناظر کا ہے۔ یعنی وہ انسان، وہ جانور، وہ مشین، وہ کیمرہ، وہ پیمانہ، وہ آبجیکٹ ۔۔۔۔۔ جو ویوفنکشن کی سٹڈی کرنا چاہتاہے، وہ جونہی ویو فنکشن کا مشاہدہ شروع کرتاہے، ویو فنکشن کولیپس Collapse ہوکر پارٹیکلز کے طرز عمل کو اختیار کرلیتاہے۔ جو دوست میرا مضمون “معرکۂ جزوکُل”یا “امکانات حقیقی ہیں” پڑھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ویوفنکشن کس طرح کولیپس ہوکر بے شمار حقیقتوں سے ایک حقیقت میں بدل جاتاہے۔ بے شمار حقیقتیں ۔۔۔۔۔۔بے شمار امکانات ہیں جو ناظر کے دیکھنے کے عمل کی وجہ سے کولیپس Collapse ہوکر ایک امکان کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔
دے جاو ُو میں ہم جس واقعہ کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔میرے خیال میں وہ کوئی پرانی یاداشت نہیں ہوتا نہ ہی پچھلے جنم کی کوئی بازگشت ۔میری دانست میں وہ واقعہ اپنے پیش آنے سے صرف ایک لمحہ پہلے اپنے نزدیکی امکان کی ایک جھلک دکھاتا ہےتو اگلے لمحے اُس واقعہ میں داخل ہوتے ہی ہمیں یوں لگتاہے کہ یہ تو ہماری یاداشت میں پہلے موجود ہے۔ چونکہ ہم واقعہ کے ناظر ہوتے ہیں اِس لیے ہم آبجیکٹس کے ویوفنکشن (Wave Function)کو سپیس کے بغیر فقط ٹائم میں کولیپس کردیتے ہیں۔کوانٹم کا اُصول یہ ہے کہ ہم بطور ناظر آبجیکٹس کے ویو فنکشن کی وجہ سے رئیلٹی کے لامتناہی امکانات میں سے کسی ایک کو (سپیس ٹائم میں) کولیپس کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم کوئی آسان مثال لیتے ہیں۔
فرض کریں آج آپ سے ایک دوست نے ملنے آنا ہے جس کا نام ہے عمران۔ آپ کا وہ دوست (کوانٹم فزکس کی رُو سے) ہراُس راستے سے گزرے گا جو آپ کے گھر کو آتاہے۔ اگر آپ کے گھر کو تیس راستے آتے ہیں تووہ تیس کے تیس راستوں سے گزرے گا۔اب چونکہ آپ ناظر ہیں اس لیے آپ جب اُسے اپنے گھر کے دروازے پر دیکھیں گے تو آپ رئیلٹی کے لامتناہی امکانات میں سے ایک کو کولیپس کردینگے۔آپ بے شمار عمرانوں میں سے کسی ایک سے ملینگے اور جس سے آپ مل رہے ہیں اس کو تو ظاہر ہے ایک ہی راستے کا پتہ ہے جس سے وہ گزر کرآیا ہے۔ اب اگر آپ اس سے پوچھ بھی لیں کہ تم کتنے راستوں سے گزرے ہو تو وہ یہی بتائے گا کہ ایک سے۔
چنانچہ کوانٹم فزکس کی رُو سے یہ واقعات نہیں ہیں جو طے کرتے ہیں بلکہ یہ ناظر ہے جو طے کرتاہے کہ کون سا واقعہ پیش آیا ہے۔ اب اگر امکانات پر غور کیا جائے تو وہ لامتناہی ہیں۔ چنانچہ کچھ تو ایسے ہونگے جو اُسی ٹائم اور سپیس میں رونما ہونگے اور کچھ ایسے ہونگے جو ان سے تھوڑا سا آگے یا تھوڑا سا پیچھے نمودار ہونگے۔ یعنی عمران نے اگر نو بجے آپ کے گھر پہنچنا تھا تو مختلف امکانات کی روشنی میں وہ ساڑھے آٹھ بجے بھی آپ کے گھر پہنچ سکتا ہے، پونے نو بجے بھی اور ساڑھے نو بجے بھی۔دراصل ہر ہر نینو سیکنڈ میں کئی کئی عمران آپ کے گھر پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب بطور ناظر آپ کسی امکان کو ذرا پہلے مشہود کردیتے ہیں تو اگلے ہی لمحے اس کا وجود آپ کو دیکھا بھالا اور جانا پہچانا سا لگتاہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دو امکانات کو مشہود کردیتے ہیں۔ ایک پہلے والا اور ایک بعد والا۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کیونکہ پہلے والا صرف ٹائم میں پیش آیا اور دوسرا ٹائم اینڈ سپیس دونوں میں۔یعنی عمران کے آنے کے لامتناہی امکانات میں سے ایک امکان یہ بھی تھا کہ وہ آٹھ بج کر اُنسٹھ منٹ اور اُنسٹھ سیکنڈ پر آپ کے سامنے پہنچا ، اس کا ہم نام رکھ رکھ دیتے ہیں ، امکان A ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک امکان یہ بھی تھاکہ وہ پورے نوبجے آپ کے سامنے پہنچا، اس کا ہم نام رکھ دیتے ہیں امکان B ۔ امکانات کی لہر میں امکان A بھی حقیقی ہے۔ یہی ویو فنکشن کی رُوح ہے۔ ویو فنکشن کو امکان A پر کولیپس کرنے کا عمل بھی چونکہ آپ سے سرزد ہوا تواس کی بازگشت آپ کے لاشعور کا حصہ بن گئی۔ اسے ہم کہیں گے کہ ایک امکان مشہود ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اور حقیقت اس امکان پر سے پھسل (Slip) کر اس سے اگلے امکان B پر منتقل ہوگئی۔
میری دانست میں دے جاو ُو اور فزکس کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ کہ جس دن اِس راز سے پردہ ہٹا کائنات ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے ہوگی۔ ہم اگر بیک وقت ایک سے زیادہ امکانات کو مشہود کرنے کی اتفافیہ صلاحیت رکھتے ہیں تو لازمی طور پر ہم یہ صلاحیت ارادۃً اختیار کرنے کی بھی مہارت حاصل کرسکنے کے اہل ہونگے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply