• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رینے گینوں کا قبولِ اسلام اور جلیل عالی صاحب کا نہایت اہم سوال۔۔ادریس آزاد

رینے گینوں کا قبولِ اسلام اور جلیل عالی صاحب کا نہایت اہم سوال۔۔ادریس آزاد

یہ غالباً 2006 کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے، عبدالقادر ناظر۔ فوج سے خطیبِ اعلیٰ ریٹائرڈ تھے۔ غضب کے منطقی تھی۔شطرنج کھیلنا اور علمی موضوعات پر بحث کرنا اُن کا خاص مشغلہ تھا۔شطرنج اور بحث دونوں میں اپنے منفرد منطقی و عقلی طرزِ فکر کی وجہ سے اکثر جیتتے بھی وہی تھے۔ ہاں تو میں عرض کررہاتھا کہ یہ غالباً 2006 کی بات ہے جب ایک بار میں انہیں ملنے ملتان گیا۔ میں چونکہ 1997 کے بعد اُنہیں اب مل رہا تھا یعنی 2006 میں، سو مجھے معلوم نہ تھا کہ اس عرصہ میں کیا کیا تبدیلیاں اُن کی تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی میں واقع ہوئیں۔خیر! تبدیلیاں تو حسبِ توقع بے شمار واقع ہوچکی تھیں لیکن آج جس کا ذکر مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک تنظیم بنالی تھی۔ تنظیم کا نام رکھاتھا، ’’ملتِ ابراہیم‘‘۔ تنظیم کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ تم سب ایک ہو۔ ایک ہی ملت ہو۔ تم سب ملتِ ابراہیم ہو۔ ظاہر ہے تنظیم کا منشور جانتے ہی میرا اُن کے ساتھ بحث میں پھنس جانا لازمی امر تھا سو میں پھنسا اور واپسی تک مسلسل پھنسا رہا۔

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری بحث کی نوعیت اور موضوع ہی ایسا تھا کہ فقط اور فقط ایک ہی نکتہ مرکزی حیثیت کا حامل رہاہوگا اور وہ نکتہ تھا، ’’رسالتمآب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم‘‘ کی رسالت پر ایمان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سچی عقیدت کاسوال‘‘۔میراسوال یہ تھا کہ اگر عیسائی، یہودی اور مسلمان تینوں دراصل ایک ہی ہیں تو محمد(صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) پر ایمان کے سوال کا کیا ہوگا؟ وہ نہایت ذہین فطین انسان ہونے کے باوجود اِس سوال کا جواب دینے سے مسلسل اجتناب کرتے رہے اور قرانِ پاک کی ایک ہی آیت بار بار پیش کرتے رہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ،
’’یہودی، نصرانی، صائبین اور مسلمان، یہ چاروں ہی اللہ سے اَجرپانے والوں میں سے ہیں اور ان چاروں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن‘‘۔(مفہوم آیت)

کچھ اِسی قسم کی صورتحال پاکستان میں ان ادوار میں نظر آتی ہے جب ضیاالحق کی حکومت تھی۔ اور حسن عسکری کے مکتبِ فکر کے ذریعے رینے گینوں کو متعارف کروایا جارہاتھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حسن عسکری کے مکتبِ فکر کے نمایاں ترجمان بعض معروف علمی ادبی نام ہیں۔ جن میں معروف ناول نگار انتظار حسین، معروف شاعر ناصرکاظمی، معروف شاعر اور نقاد سلیم احمد جن کی رہائش گاہ کراچی میں شہر کا سب سے بڑا ادبی مرکز بن کر رہ گئی تھی۔ اسی طرح رؤف پاریکھ ہیں جنہوں نے لکھا کہ’’حسن عسکری نے اُردو تنقید کو نیا ادبی نظریہ فراہم کیااور ایک نئے مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی‘‘۔

حسن عسکری کا ذاتی تعارف کچھ یوں ہے کہ، 1919 سے 1978 تک ایک عالم، ادبی نقّاد، لکھاری، اورجدید اُردو کے ماہرِ لسانیات کی حیثیت سےجیے۔ شروع شروع میں مغربی ادب اور تنقید سے بے پناہ متاثر رہے لیکن بعد میں عالمی سیاسی حالات، ذاتی تجربات اور معروف مصنف رینے گینوں کے خیالات سے متاثر ہوکر مغرب کے شدید ناقداور اسلامی تہذیب و تمدن اورآئیڈیالوجی کے حامی بن گئے۔آخری دنوں میں عسکری صاحب مفتی محمد شفیع کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے تھے جن میں سے ایک جلد ہی مکمل ہو سکی۔

فی زمانہ پاکستان میں موجود معروف علمی ناموں میں جناب احمد جاوید اور جناب سہیل عمر اسی مکتبِ فکر سے کسی نہ کسی مد اور حد میں منسلک ہیں۔ جناب احمد جاوید فرماتے ہیں، ’’ اگر میری شخصیت میں کچھ ادبی عناصر موجود ہیں تو وہ سلیم احمد، قمر جمیل، ضمیر علی بدایونی اور رئیس فروغ کی صحبتوں کی وجہ سے ہیں، اور محمد حسن عسکری کو جم کر شوق سے پڑھنے کے نتیجے میں‘‘۔
جہاں تک سہیل عمر صاحب کا تعلق ہے، تو بقول جناب شاہد اعوان ایڈیٹر ’’دانش‘‘حسن عسکری کے بنیادی مقدمہ ٔ وحدتِ ادیان کے ساتھ تو وہ متفق ہیں لیکن ان کے افکار کی بعض جہات سے البتہ اختلاف بھی رکھتے ہیں جبکہ جاوید احمد صاحب حسن عسکری کے مقدمۂ وحدتِ ادیان کے ساتھ مکمل طورپر متفق نہیں ہیں، لیکن اس نظریہ سے متاثر ضرورہیں۔

میرے استادِ محترم اور فکری رہنما جناب جلیل عالی اس ضمن میں اپنے مؤقف کا نہایت واضح الفاظ میں اظہارفرماتے اور حسن عسکری کے نظریہ وحدتِ ادیان میں بنیادی نقص کو نہایت منطقی انداز میں سامنے لاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں، زندہ لوگ کے اجلاس میں یہی ذکر چھڑگیا تو عالی صاحب نے رینے گینوں کے ’’تصورِ التوحیدُ واحدٌ‘‘ پر بات کرتے ہوئے ایک سوال اُٹھایا جو میری دانست میں واحد ایسا سوال ہے جس کی موجودگی میں وحدتِ ادیان کا سارا مقدمہ ہی مشکوک ہوجاتاہے۔ ’’زندہ لوگ‘‘ کے اجلاس کی کارروائی لکھتے ہوئے اگرچہ میں نے عالی صاحب کا مؤقف لکھا تو تھا لیکن میرے الفاظ میں وہ بات کہاں جو خود استادِ محترم کے قلم میں ہے۔ غالباً کل عالی صاحب نے دوبارہ اپنے اُس سوال کو ایک فیس بک پوسٹ کے ذریعے اُٹھایا تو میں نے سوچا قدرے تفصیل سے پوری بات کا پس منظر بھی بیان کردوں۔ عالی صاحب کی پوسٹ یہ تھی،
۔۔۔۔
رینے گینوں کا تصورِ ’التوحیدُ واحدُُ‘
’’مغرب میں اس سوال (کہ روایت کیا ہے؟)کا جواب صرف ایک شخص نے دیا ہے اور مغرب اس شخص کی بات سننے سے انکاری ہے۔میرا مطلب رُنیے گینوں سے ہے۔وہ (رینے گینوں) کہتے ہیں کہ روایتی ادب اور روایتی فنون صرف روایتی معاشرے میں پیدا ہو سکتے ہیں ۔اور روایتی معاشرہ وہ ہے جو ما بعد الطبیعیات پرقائم ہو۔مابعد الطبیعیات چند نظریوں کا نام نہیں۔التوحیدُ واحدُُ۔مابعدالطبیعیات صرف ایک ہی ہو سکتی ہے، یہی اصل اور بنیادی روایت ہے ۔اس کا تعلق کسی نسل یا ملک سے نہیں ۔البتہ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔اور ہندو روایت یا چینی روایت یا اسلامی روایت میں فرق انہی طریقوں کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے۔ہمارے یہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب میں خشکی ہے اور ہندو تہذیب میں حسیات کی رنگا رنگی ہے۔لیکن اپنشد میں لکھا ہے کہ انسانی وجود کے مرکز میں نہ تو سورج کی روشنی ہے نہ چاند کی نہ ستاروں کی،بلکہ ہر چیز پُرش کے نور سے منور ہے۔چنانچہ بنیادی روایت ہر جگہ وہی ہے،صرف شکلوں کا فرق ہے‘‘
(مضمون ’روایت کیا ہے؟‘ ’’وقت کی راگنی ص ۱۰۸)
سوال
اگر رینے گینوں کو صرف توحیدُ واحدُُ تک ہی رہنا تھا تو وہ مسیحی سے مسلمان کیوں ہوئے ؟
اور اگر طریقِ کار کا فرق اسلامی روایت میں بھی اتنا اہم تھا کہ انہیں مسیحیت چھوڑ کرمسلمان ہونا پڑا تو گویا آخری اسلامی دینی سچائی توحید کے ساتھ رسالتِ محمدی کے اقرار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔
یوں صرف توحیدی مابعد الطبیعیاتی اشتراک پر ہندُو ، چینی اور اسلامی روایت کو روایتی معاشروں کے نمائندہ قرار دے کر اس فرقِ عظیم سے صرفِ نظر کرنے کا کیا جواز یا مقصد ہے جو رسالتِ محمدیؐ کی اساس پر زندگی کے تمام در و بست کو ایک منفرد و یکتا صورت عطا کرتا ہے۔ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔
۔۔۔۔
عالی صاحب کی پوسٹ پر جناب افتخار صاحب نے ایک کمنٹ کیا،
’’آپ کا سوال بنیادی اور اساسی نوعیت کی اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے ۔ کہ یہ فرق مذہب یا دین کی مکمل تبدیلی Conversion کے ساتھ منسلک ہے ۔ صوفیانہ سطح پر ہر مذہب کا صوفی وحدانیت کو لے کر چلتا ہے اور رسالت کو اتنی اہمیت نہیں دیتا ۔ جس کا اسلام متقاضی ہے‘‘
اس پر عالی صاحب نے کہا،
’’افتخار صاحب ! در اصل رسالت کو اساسیات میں شامل کرنے سے زندگی کے جملہ سلسلہ ہائے عمل یعنی معاشی ، معاشرتی ، تہذیبی اور فکری و سائنسی سب کو اہمیت حاصل ہو جاتی ہے‘‘
میں نے بھی البتہ اپنی تشفی کے لیے عالی صاحب کے ایک خاص سیاق کے جملے میں لفظ ’’بھی‘‘ کے استعمال کی وجہ سے ایک سوال کیا،
میں نے کہا،
سر! آپ نے لکھا، ’’اور اگر طریقِ کار کا فرق اسلامی روایت میں بھی اتنا اہم تھا کہ انہیں مسیحیت چھوڑ کرمسلمان ہونا پڑا تو گویا آخری اسلامی دینی سچائی توحید کے ساتھ رسالتِ محمدی کے اقرار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی‘‘ سر! ’’اسلامی روایت میں بھی‘‘سے مجھے یہ لگا کہ کسی اور روایت میں بھی اتنا اہم ہوسکتاہے۔ کیا میں ٹھیک سمجھاہوں؟
اس پرعالی صاحب نے مجھے یوں سمجھایا،
’’ادریس صاحب اسلامی روایت کے ساتھ ’’خود ‘‘ کا لفظ لگا لیں تو میری بات واضح ہو جائے گی۔ یعنی اگرطریقِ کار کا فرق خود اسلامی روایت میں بھی اتنا اہم تھا کہ انہیں مسیحیت چھوڑ کرمسلمان ہونا پڑا تو گویا آخری اسلامی دینی سچائی توحید کے ساتھ رسالتِ محمدی کے اقرار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی‘ قومِ رسولِ ہاشمی کے تہذیبی و معاشرتی خصوص میں کسی دوسری جماعت کا صرف توحیدی اشتراک ایک جزوی و تصوراتی اشتراک ہی ہو گا اور سیرتِ رسول کے نمونے کے بغیر قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان کی ہستی میں موجود جوہرِ خیر کی اجتماعی کارفرمائی سے مطلوبہ معاشرتی و تہذیبی خد وخال کی صورت پذیری بھی ممکن نہیں ہو گی‘‘

اب ساری صورتحال کچھ یوں ہے کہ وحدتِ ادیان کی بات اگر فقط تصورِ التّوحیدُ واحدسے اخذکی جائے تو اِس میں اور عہدِ حاضرکےلبرل تصورِ خدا میں کچھ فرق نہیں رہ جاتا۔عہدِ حاضر کا لبرل تصورِ خدا بنیادی طورپر سپائنوزا سے مستعار لیا ہوا تصورہے۔ سپائنوزا کے ہاں ’’توحیدِ وجود‘‘ کا نظریہ سب سے پہلےوارد ہوتاہوا محسوس ہوتاہے۔آئن سٹائن نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ ’’میرا خدا وہی ہے جو سپائنوزا کا خداہے‘‘۔ یاد رہے کہ سپائنوزا ’’توحیدِ وجود‘‘ کی بات کرتاہے نہ کہ وحدتِ ادیان کی، جس سے ایک جدید قسم کا وحدت الوجود سامنے آتا ہے جو معروف وحدت الوجود سے بہت مختلف ہے۔ چنانچہ سپائنوزا کا خدا دراصل وہی ہے جوعہدِ حاضر کالبرل تصورِ خداہے۔

زیادہ آسان الفاظ میں کہوں تو انڈین فلم، ’’پی کے‘‘ میں جس قسم کا تصورِمذہب پیش کیا گیاہے، فقط التوحیدُ واحدٌ سے ویسا ہی مذہب برآمد ہوسکتاہے نہ کہ کسی خاص ترکیب کی کوئی خاص تہذیبی وراثت جو اسلام کی منفرد ترین خصوصیت ہے۔سپائنوزا کا خدا بھی ہرمذہب میں اپنی توحید کے ساتھ ہی وارد ہوتاہے اور سپائنوزا کے ہاں تو وہ بنیادی اور واحد سبسٹینس (Substance) ہونے کی وجہ سے مطلقاً ایک ہی ہے یعنی مذہب چاہے دس لاکھ خداؤں کو ماننے والا ہوگا، اس کا بنیادی تصورِ خدا ایک ہی خدا کے تصور پر مشتمل ہوگا۔ اوریوں عالی صاحب کا یہ سوال کہ، ’’اگر رینے گینوں کو صرف توحیدُ واحدٌ تک ہی رہنا تھا تو وہ مسیحی سے مسلمان کیوں ہوئے ؟‘‘ کتنے ہی سوالات کو جنم دیتاہے۔ یقیناً وہی پرانا اسلامی عقیدہ کہ ’’توحیدورسالت‘‘ لازم و ملزوم ہیں، اِس مقام پرپوری قوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا اظہار کرتاہے۔کیونکہ اگر التوحیدواحدٌ کا تصوروحدتِ ادیان کو جنم دے سکتاہے تو پھر فقط دوچارمذاہب پر ہی کیوں اکتفا کیاجائے بلکہ سپائنوزاکااتباع کرلیاجائےاورآرام سے پوری کائنات کےہرمذہب کو التوحیدُ واحدٌ میں لپیٹ کر اپنا لیاجائے۔

غرض، اگر میں عالی صاحب کے نہایت عالمانہ سوال کا جواب اپنی بچگانہ عقل سے دینا چاہوں تو ظاہر ہے کہ وہ ایک ہی جواب ہے،
’’رینے گینوں مسیحیت سے مسلمان اس لیے ہوگیا تھا کہ انہیں التوحیدُ واحدٌ تو دیگر مذاہب کے تصورِ خدا میں محسوس ہوئی لیکن اِن میں اسلامی تصورِ توحید جو تصورِ رسالت کے ساتھ مضبوطی کےساتھ جُڑاہواہے، بالکل جداگانہ تھا۔ اور چونکہ رینے گینوں کا یہ خیال تھا کہ ’’اسلام ہی وہ واحد روایتی مذہبی دنیا ہے جو اہلِ مغرب کی پہنچ میں آسانی کے ساتھ آسکتی ہے‘‘۔اس لیے کہا جاسکتاہے کہ وہ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی‘‘ کے نظریہ سے اچھی طرح واقف ہوجانے کے بعد ہی قبولِ اسلام کی طرف آئے‘‘
لیکن میرا یہ جواب بھی درست نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ عالی صاحب کا اس جواب سے متعلق یہ خیال ہے،
’’ادریس صاحب میرے بارے آپ کی محبت کا بہت شکریہ!
مگر زیرِ بحث مسئلے میں میرا سوال اب بھی تشنہِ جواب ہے۔آپ نے جو بات رینے گینوں کے قبولِ اسلام میں کہی میں نے رسالت کی اساسی اہمیت کے حوالے سے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہی تو اعتراضی سوال اُٹھایا ہے کہ اگر قبولِ اسلام کے بعد بھی رینے گینوں کے علم و فکر کا مرکزی نکتہ اشتراکِ تصورِ توحید ہی رہنا تھا اور حیات و کائنات میں خیر و شر کی درست تفہیم کے ساتھ غلبہِ خیر کی سعی میں قرآنی و محمدی منہاج اور حکمتِ عملی کی ناگزیریت کو مرکزِ فکر و عمل نہیں بنانا تھا تو پھر ترکِ مسیحیت اور قبولِ اسلام کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔
دراصل اقبال سے اس مکتبِ فکر کی برہمی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اقبال قومِ رسولِ ہاشمی کے خصوص میں قرآنی نکتہِ نگاہ سے کشمکشِ خیر و شر کی درست تفہیم کے ساتھ غلبہِ خیر کی خاطر فکری و تہذیبی اور معاشرتی و معاشی معروض کو تبدیل کرنے کی تحریکِ مسلسل پر زور دیتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ فکر و عمل کی باہم دگر ہم آہنگی ہی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ تصورِ صداقت نفسی و معاشرتی عمل سے بے نیاز اور ماورا شے نہیں ہے۔ انسانی ہستی میں خیر و شر کے القائی شعور کو زندہ و متحرک رکھنے کے لئے خارجی عوامل کا منفی دبائو دور کرنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا یہ کوئی محض علمیاتی مسئلہ نہیں ہے۔انسانی سیرت وکردار کے منقلب ہونے کا عملی معاملہ ہے!‘‘

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتاہے کہ حسن عسکری کے مکتبِ فکر نے وحدتِ ادیان کا اپنا مخصوص تصور بھی رینے گینوں سے لیا، نہ کہ خود اختیارکیا۔ خاص طورپر عالی صاحب کے یہ الفاظ،
’’ اگر قبولِ اسلام کے بعد بھی رینے گینوں کے علم و فکر کا مرکزی نکتہ اشتراکِ تصورِ توحید ہی رہنا تھا اور حیات و کائنات میں خیر و شر کی درست تفہیم کے ساتھ غلبہِ خیر کی سعی میں قرآنی و محمدی منہاج اور حکمتِ عملی کی ناگزیریت کو مرکزِ فکر و عمل نہیں بنانا تھا تو پھر ترکِ مسیحیت اور قبولِ اسلام کا کیا جواز رہ جاتا ہے‘‘
اور یوں عالی صاحب کی کاوش سے آسانی کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ حسن عسکری کے مکتبِ فکر سے جُڑے ہوئے لوگ اقبال سے برگشتہ کیوں ہوئے؟ اگرچہ احمد جاوید صاحب اور سہیل عمر صاحب اقبال اکیڈمی سے وابستہ رہے اور انہوں نے اقبالیات پر بے پناہ کام کیا لیکن فی الحقیقت وہ اقبال کے تصورِ قومِ رسولِ ہاشمی سے منحرف ہی رہے۔
خیر! اختتام میں یہ کہونگا کہ رینے گینوں نے کہا تھا کہ اسلام مغربی ذہن کے زیادہ قریب ہے۔ اقبال نے عین یہی بات بغیر رینے گینوں کے حوالہ کے اپنے خطبات میں یوں لکھی ہے،
’’اگر عہدِ حاضر کا مسلمان، نوجوان ذہن تیزی سے مغرب کی طرف جارہاہے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ مغربی تہذیب اپنے بعض پہلوؤں کے اعتبار سے اسلامی تہذیب کا ہی عکس ہے‘‘ (تشکیل جدید)

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہ اسلامی تہذیب کیا چیز ہے؟ کیا عیسوی تہذیب نہیں ہوسکتی؟ یا ہندو تہذیب؟ یا تاؤ تہذیب وغیرہ وغیرہ؟ جواب یہ ہے کہ یہ اسلامی تہذیب وجود میں آتی ہے تو ’’توحید ورسالت‘‘ کے خالص خمیر سے۔ کیونکہ رسولِ ہاشمی کی قوم، مذاہب کی دنیا میں ایک نئی ترکیب کے ساتھ وارد ہوئی تھی۔ ایک ایسی ترکیب جس میں رسول کی زندگی، عمل، قول و فعل اوربالخصوص استقرائی طرزِ فکروہ بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیراسلام کا تصور ہی محال ہے۔ غالباً یہی وجہ رہی ہوگی کہ سیموئل پی ہنٹنگٹن نے باقی تمام تہذیبوں کو تو کسی اور ترکیب سے دیکھا لیکن اسلامی تہذیب کو فقط اسی نظریے سے دیکھا اور اس کے غلبے سے خوفزدہ ہوکرمغربی دنیا کو اسلامی دنیا کے ممکنہ روشن مستقبل سے ڈرایا۔ تہذیبوں کے تصادم کا آخری باب اسی موضوع پر ہے۔اور یقیناً یہ ہنٹنگٹن کی کتاب کے بعد ہی شروع ہواسلسلہ، کہ اسلام دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہنٹگٹن کو پڑھتے ہوئے اقبال کا ایک مصرع مسلسل ذہن میں گونجتا رہتاہے، جو ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کا غالباً آخری شعر ہے۔
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply