صبر اور اعصابی تناؤ آپس میں بالعکس متناسب ہیں۔۔ادریس آزاد

مرد کا بچہ ہے وہ انسان جسے اپنے اعصاب پر قابُو ہے، تعریف و توصیف ہو یا تنقید و تنقیص۔
جس نے اپنے خون کی گردش اور دِل کی دھڑکن کو اپنے دماغ سے کنٹرول کرلیا وہ انسانوں میں بہترین انسان کہلانے کا مستحق ہے۔ یہ منزلت آسان نہیں۔
بطورِ ِ خاص، دور ِ حاضر کا انسان ایسی مشقوں کا اہل ہی نہیں رہا۔ کیونکہ مادہ پرستی کے نفوذ نے موجودہ دور کے انسانوں کو مادے کا شدید محتاج کردیا ہے۔ وہ معاملات جو کبھی محض ہمّت اور جذبے سے نمٹا لیے جاتے تھے اب ادویات کے بغیر نمٹائے جانے ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے موجودہ دور کا انسان قابل ِ رحم ہے۔
میں اکثر کہا کرتاہوں کہ صبر اور اعصابی تناؤ آپس میں بالعکس متناسب ہیں۔ تصوف اور ویدانت میں جس ’’شکتی‘‘ کے حصول کی کوششیں کی جاتی ہیں وہ بنیادی طور پر یہی اعصاب پر قابُو پانے کی آرزو ہی ہوتی ہے۔
زیادہ تر عبادتوں کے مقاصد بھی یہی ہوتے ہیں۔ یوگا کی مشقیں بھی ایسی ہی صلاحیتوں کے حصول کے لیے کی جاتی ہیں۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں کسی نے بے وقوف بنایا ہے‘‘ تو فی الاصل ہمیں کسی نے بے وقوف نہیں بنایا ہوتا بلکہ ہم خود جذبات کی رَو میں بہہ گئے ہوتے ہیں۔ وہ انسان جن کو اپنے اعصاب اور جذبات پر قابُو ہوتا ہے نہ صرف اپنے لیے کامیاب انسان ہوتے ہیں بلکہ انہیں دیکھ کر دوسرے انسان بھی یک گونہ طمانیت حاصل کرتے اور ان کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
حسن بن صباح کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ میرا مدعا سمجھانے میں معاون ثابت ہوگا۔
ایک مرتبہ حسن بن صباح سمندری سفر پر تھا کہ اچانک طوفان آگیا۔ جہاز میں بھگدڑ مچ گئی۔ ہر طرف چیخ و پکار اور بھاگتے ہوئے لوگوں نے بے صبری اور خوف و ہراس کا بھیانک ماحول پیدا کردیا۔ ایسے میں کسی شخص کی نظر حسن بن صباح پر پڑی۔
اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حسن نہایت اطمینان سے بیٹھا تھا۔ نہ ہی موت کا خوف، نہ ہی بے چینی اور اضطراب، نہ ہی بے صبری اور بھگدڑ میں شمولیت۔ وہ شخص حسن بن صباح کے اطمینان سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے نزدیک ہوکر بیٹھ گیا۔ اور ڈرتے ڈرتے سوال کیا،
’’کیا آپ کو جہاز کے غرق ہوجانے اور اپنے مرجانے کا کوئی ڈر نہیں؟‘‘
حسن بن صباح نے جواب دیا،
’’جہاز غرق نہیں ہوگا‘‘
یہ سنتے ہی وہ شخص بغیر کوئی جواز یا دلیل مانگے نہ صرف مطمئن اور بے خوف ہوگیا بلکہ اس نے اوروں کو بھی بتایا اور کچھ ہی دیر میں حسن بن صباح کے گرداگرد جہاز کا ہر مسافر بیٹھا تھا اور ہر چہرے سے خوف اب مفقود ہوچکا تھا۔
بہت عرصہ بعد حسن بن صباح نے بتایا کہ اُس نے جہاز نہ ڈوبنے کی پیش گوئی اس لیے کی تھی کہ اگر جہاز غرق ہوجاتا تو اسے جھوٹا کہنے والا کوئی شخص بھی زندہ نہ بچتا۔
اس واقعہ میں قابل ِ غور پہلو یہ ہے کہ حسن بن صباح نے خود کتنا بڑا کمال کردکھایا تھا اپنے اعصاب کو قابُو میں رکھ کر۔ بے شک وہ ایک اِیوَل جینیس کے طورپر تاریخ میں بدنام ہے اور اس لیے اسے ہم قابلِ تقلید نہیں مانتے لیکن وہ مشق، وہ پریکٹس جو ایک یوگی کو درکار ہے، وہ حسن بن صباح کرچکا تھا یا وہ اندرونی شکتیاں اس کے پاس فطری تھیں۔
بہرحال مضطرب یا پریشان ہوجانے سے پریشانی یا مسائل حل تو نہیں ہوجاتے۔ پھر کیوں نہ ہمّت کی جائے۔ لیکن ادویات اور کیمیکل پر انحصار کرنے والا آج کے دور کا انسان اس سطح کی ہمّت کہاں سے لائے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply