محبت نامہ ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

دوسرے انسان کو سمجھنے کیلئے فرد کا شعوری طور پر بالغ ہونا ضروری ہے اور شعوری بلوغت کا حصول دو حادثات کے بعد ہی ممکن ہے، ایک ہے مایوسی اور دوسرا توکّل۔
مایوسی اپنی استثنائیت اور تمام لوگوں کو پسند آنے کی خواہش میں، توکّل اس پر جو آپ کو میسر ہے اور دوسروں کے کسی بھی شعبے میں بہتر کارکردگی دکھانے پر ، یہ دونوں حادثات فرد کی زندگی میں جس قدر جلد ہو گزریں، بشری سعادت کے حصول کے امکانات اسی قدر بڑھ جاتے ہیں۔
انسانوں کے تعلقات میں محبت کا بندھن سب سے زیادہ مطلوب اور دلکش تعلق ہے، لوگوں کی بھاری اکثریت اس کی متلاشی اور متقاضی ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
محبوب کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش میں عموما امید یہی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے دو افراد یک جان دو قالب ہو کر رہیں گے، یہ تصور یا یہ خواہش دل لگی کے ابتدائی دور میں پرکشش ضرور ہو سکتی ہے لیکن زندگی کے تلخ حقائق اس فریب کو چکنا چور کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔
یہ بھیانک واقعہ اس لیے وقوع پذیر ہوتا ہے کہ لوگ قرب اور انضمام (ضم ہوجانا ) میں فرق نہیں سمجھتے ۔
قرب کا حصول صرف اسی صورت ممکن ہے جب دو مختلف شخصیات کے درمیان، انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتی، ایک واضح شخصی حد یا لکیر موجود ہو، اس حد کا مقصد ہی یہی ہے کہ قریبی شخص کو یہ جاننے میں آسانی رہے کہ مقابل کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں، ہمارے ہاں یہ تصور بالکل غلط ہے کہ محبوب کی ہر ادا اور ہر فعل عاشق کو پسند ہوتا ہے یا ہونا چاہئے۔
محبوب کے کسی فعل کی ناپسندیدگی کی صورت میں خاموشی یا صبر کا اظہار درحقیقت عاشق کے انضممام کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے، یہ “مقدس اور نیک نیت” راستہ انگریزی محاورے کے مطابق سیدھا جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اپنی انفرادیت پہ قائم رہتے ہوئے محبوب کی انفرادیت کا احترام اور اس کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا ہی حقیقی قرب کا راستہ ہے، اپنی خواہش، اپنی خوشی یا غم، ناراضگی یا اطمینان وغیرہ جیسے جذبات کا اظہار تعلقات میں قرب کا ضامن ہے۔ دوسرے کو دوسرا سمجھنا ہی قرب کا راستہ ہے جو پائیدار اور دیرپا ہے۔ اکثر لوگ اس خوف میں رہتے ہیں کہ کسی منفی (مگر منصفانہ ) جذبے کا اظہار ،محبوب یا دوست کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے جو قرب میں دوری کا باعث بنے گا، یہ خوف سراسر بے جا ہے، بلکہ ایسا کرنے سے انضممام کے ایلوژنز کا خاتمہ ہوگا اور قرب کے امکانات بڑھیں گے، کسی صورت اگر قرب حاصل نہ بھی ہو سکے اور آخری نتیجہ جدائی کی صورت سامنے آئے تو بھی ٹھوس شخصی حدود کے ساتھ آپ کیلئے گوشۂ تنہائی بھی راحت کا سامان ہو گا۔
تنہائی سے گھبرانے والے افراد عموما کسی دوسرے میں ضم ہونے کی نفسیات کے مالک ہوتے ہیں، اسی لئے ان کی اپنی شخصیت، شناخت یا انفرادیت کے لکیریں واضح نہیں ہوتیں، اگر یہ حدود واضح اور مضبوط ہوں تو فرد کی شخصیت پر جلوت یا خلوت کسی بڑی تبدیلی کا موجب نہیں بنتیں۔
جان رکھئے کہ دوسرا شخص ہمیشہ دوسرا شخص ہی رہے گا، آپ جتنی بھی کوشش کر لیجئے، مقابل شخص آپ کی کیفیت یا احساسات کو اس طرح خود پر طاری نہیں کر سکتا جیسا آپ چاہتے ہیں، یقینا آپ کے ساتھ سچی محبت رکھنے والا شخص اپنے تئیں کوشش ضرور کر سکتا ہے، ایسے میں آپ پر لازم ہے کہ اسی کم کو زیادہ سمجھا جائے۔
ہمارے ہاں محبت یا دوستی کے تعلقات میں دوسرے کی شخصیت میں ضم ہونے کو ہی وفا کا نام دیا جاتا ہے، یہ رویہ فطرت کے بالکل خلاف ہے، ایسا ہوتا تو آپ اپنے محبوب یا دوست کے ساتھ ایک ہی دھڑ میں پیدا ہوتے، آپ دو مختلف شخصیات ہیں اور اچھے تعلق کیلئے ضروری ہے کہ مختلف ہی رہیں، یہی رویہ آپ کے اور آپ کے محبوب کے درمیان قرب لائے گا۔
انضمام کی نفسیات کے دو بھیانک پہلو ہیں،
پہلا یہ کہ آپ محبوب کے سامنے اس کی محبت میں اور دوست کے سامنے اس کی دوستی کے بھرم میں اپنی خواہشات بلکہ اپنی زندگی کا گلا گھونٹتے ہوئے خود کی ہستی کو مٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں سب سے پہلی چیز جو ہاتھ سے چھوٹتی ہے وہ عزتِ نفس ہے، عزتِ نفس کا کھو دینا شخصی کشش کا کھو دینا ہے، آپ کسی بھی فرد کیلئے صرف تب تک ہی ہرکشش ہیں جب تک آپ اپنی شخصیت کے گرد مضبوط انفرادی حدود رکھتے ہیں، جونہی یہ حدود تحلیل ہونگی آپ کی اہمیت جاتی رہے گی۔
اس کا دوسرا تاریک پہلو یہ ہے کہ تمام تر قربانی دینے کے بعد آپ اپنے محبوب سے یہی توجہ، یہی قربانی مانگتے ہیں، مسلسل خاموش رہنے، صبر کرنے اور اپنی پسند و ناپسند کی پرواہ کیے بغیر ہمہ وقت ہمہ جہت سر تسلیم خم کرتے رہنے سے جو لاوا آپ کے اندر پکتا رہتا ہے وہ ان تمام قربانیوں کا ازالہ چاہتا ہے جو کہ عموما ممکن نہیں ہوتا، نتیجہ وہی آتا ہے جس کا آپ کو خوف رہتا تھا۔
ہمارے روایتی لٹریچر میں عشق و محبت کی داستانیں محبوب کے ساتھ ضم ہونے کی داستانیں ہیں اسی لئے کوئی ایک بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پائی۔
تعلقات میں اصل اہمیت قرب کی ہے کہ جہاں دونوں افراد اپنی محبت اور دوستی میں اپنا اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھیں، شخصی پسند یا نا پسند اور دوسرے اختلافات کشش کا باعث ہیں اور ان سے سمجھوتہ کرنا ہی دانشمندی ہے۔
قرب کا فلسفہ ہی وصل اور لطف ہے، ضم ہونے کی خواہش ہجر و الم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply