• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔۔سید مہدی بخاری

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔۔سید مہدی بخاری

انسان کی ذات بہت گورکھ دھندہ ہے۔ زمان و مکان کی زنجیر سے وابستہ زندگی کے بحرِ بیکراں میں غوطے کھاتا سفر طے کرتا جاتا ہے۔ وقت کی رفتار کبھی دھیمی تو کبھی ایک دم تیز گام ریل جیسی دوڑنے لگتی ہے۔ میں نے اتنا ہی سفر کیا ہے جتنا پیروں کی زنجیر نے کرنے دیا۔ سفر سے لوٹ کر باقی کے دن سفری یادوں میں گزرتے ہیں۔ اپنے ماحول میں واپس آ کر نئے مزاج کے قرض چکاتے اور پرانی گرہیں کھولتے شب و روز ایک رفتار سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر عہد کا فنکار وہی کچھ پیش کرتا ہے جسے وہ جھیل چکا ہوتا ہے یا جھیل رہا ہوتا ہے۔ یادوں سے جان چھڑوانا بس کی بات نہیں اور ناسٹیلجیا کے شکار لوگ آگے کے سفر میں بھی پیچھے کا دھیان رکھتے ہیں۔ اب تک کے بیتے شب و روز ایک خواب سا سفر لگتے ہیں۔ کچھ پل ہیں جو شاخ سبز کی چھاؤں  تلے بسرے اور کچھ دن ہیں جو کڑی دھوپ کی صعوبت میں بتائے۔

خواب در خواب سفر ہوتا رہا، آنکھ کھلی تو دنیا نے فنکاری کا طوق گلے میں ڈال دیا۔ یہ طوق اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ ایک طرف اس کو اٹھائے رکھنے میں اور دوسری طرف اپنی خامیاں چھپانے میں انسان ساری توانائیاں صَرف کر دیتا ہے۔ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ سیکھتے سیکھتے میں خود کہیں اور ہی کھو گیا۔ وہ جو بے ساختہ پن والا انسان تھا گم ہو گیا۔ اب بھی خوابوں کی تعبیر کا کوئی نام و نشان ہے نہ ہی اس راہ میں کوئی مِیل کا پتھر دکھائی پڑتا ہے۔

آپ نے اس راج ہنس کی کہانی تو سنی ہوگی جس کا رقص دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ لوگ کتنے جتن کرکے اس کے لمحے کو اپنے کیمروں میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ساری دنیا اس کے رقص کی تعریف کرتی ہے ۔ اس کی ہر ادا پر مرتی ہے اور وہ ان سب سے پرے ، ان سب سے بے نیاز یہ رقص صرف قدرت کے اشاروں پر اپنی دل لگی کے لئے کرتا ہے۔ یہی میری کہانی ہے۔
افتخار عارف کی نظم ہے جو کچھ یوں شروع ہوتی ہے
میری زندگی میں بس اک کتاب ہے، اک چراغ ہے
ایک خواب ہے اور تم ہو۔۔

یہ کتاب و خواب کے درمیان جو منزلیں ہیں یہ ایک مسلسل سفر ہے۔ زندگی سفر سے ہی عبارت ہے۔ گھڑی کا ایک ایک لمحہ ہمیں بسر کرتا ہے، گزارتا ہے۔ ایک وقت کا سفر ہے جو ازل سے جاری ہے۔ شعور پانے سے شعور ڈھلنے تک انسان کی ساری عمر ایک سفر ہی تو ہے۔ہر انسان اپنی قبر کی طرف رواں ہے اور دنیا جہاں کا علم اور بصیرت سمیٹ کر واپس اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاتا ہے کہ خدا نے ہر ایک کے سفر کی حد روز ازل سے مقرر کر رکھی ہے۔

جس طرح موٹر یا مشین پر لوڈ بڑھ جائے یا گندم پیسنے والی چکی میں دانے زیادہ پڑ جائیں تو اس کی رفتار دھیمی اور آواز بھاری ہو جاتی ہے ،اس طرح میرے اندر کی چکی پر بھی لوڈ بڑھ جاتا ہے ۔ دل و دماغ پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ نسیں کھچی جاتی ہیں پاؤں خود ہی اٹھنے لگ جاتے ہیں بس کہیں بھاگ جانے کو دل کرتا ہے۔ انسان گرہستی کی ڈور کے ساتھ بندھا ہوتا ہے، اس تارِ عنکبوت کو توڑنا ممکن نہیں۔ بس اک موج خوں سر سے گزرنا چاہتی ہے وہ جب گزر جاتی ہے تو گھر کی یاد ستانے لگتی ہے۔

میں خود سفر پر نکلتا ہوں تو شاید اس لیے کہ انسانوں کا ایک گروہ اور مخصوص معاشرہ (میرے ارد گرد کا) اپنے زورِ حرکت سے میرے قدم اکھاڑ کر مجھے ایک بے اختیار وجود میں بدل دیتا ہے لیکن میں تا دیر ان سے جدا بھی نہیں رہ سکتا۔ کچھ دن بعد پھر گھر کی جانب چلا آتا ہوں۔

واپسی ہوتی ہے تو ایک مختصر مدت پچھلے سفر کی یادوں میں غرق ہو کر گزرتی ہے مگر بلآخر مجھے سانس لینے کو واپس اپنے ماحول میں ، سطح آب پر آنا پڑتا ہے اور تب میری آنکھیں چندھیا  جاتی ہیں ، میں دیکھ نہیں سکتا اور ایک بار پھر ٹٹولتا ہوا نئی روشنیوں کی تلاش میں سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہوں۔ یوں نہ تو میں مچھلی کی طرح تا دیر پانی سے باہر جی سکتا ہوں نہ ہی سفر کا سمندر مجھے ہمیشہ کے لیے  قبولتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو اپنی زندگی اپنے ہی ماحول میں اپنے رشتوں کے درمیاں ہی بسر کر دیتے ہیں اور کبھی سفر نہیں کرتے وہ کبھی شعور کی اس منزل کو بھی نہیں پا سکتے کہ جہاں پہنچ کر انسان کائنات میں سب سے اعلیٰ  و ارفع ہو جاتا ہے ۔ پچھلے کئی سالوں میں میں نے ان گنت سفر کیے  ہیں۔ ان سفروں میں کہیں بھانت بھانت کے لوگ ملے تو کہیں مسلسل اپنے آپ سے ہی ملاقات رہی۔ بھولتے بسرے چہروں،گڈ مڈ ہوتی آوازوں اور دھندلے پڑتے منظروں کی ایک دنیا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ہاں، ایک سفر تو وہ بھی ہے جو باہر سے اندر کی طرف، یا اندر سے باہر کی طرف۔ معلوم سے نامعلوم کی طرف یا نامعلوم سے معلوم کی طرف ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کل صبح سے مجھے ایک اور لمبا سفر درپیش ہے۔ دعاؤں  کی درخواست رہے گی۔ روس ، ازبکستان و ترکی سے ہوتا ہوا ارادہ ہے یروشلم پہنچنے کا۔ نئے بنتے بکھرتے دن ہوں گے۔ نیا سماج، نئے لوگ، شاید دو قدم ساتھ چلنے والے نئے ہمسفر بھی۔ زمینیں جہاں کہیں کی بھی ہوں فطری طور پر مہمان نواز ہوتی ہیں۔ منظروں کو دیکھتے ، آنکھوں کے پردے پہ سموتے، ڈائری پر نوٹس لیتے سلسلہ کوہ قاف داغستان سے دنیا کی سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل بائیکال سائبیریا کے کناروں سے ہوتا ترکی میں بحیرہ روم سے اسرائیل کے بحیرہ مردار کے ساحل پر قدم پڑیں گے۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply