فلسطین (17) ۔ فلسطینی تحریکیں/وہاراامباکر

“عرب قوم پرست تحریک” کے بانی جارج حبش تھے۔ یہ بیروت سے پڑھے ہوئے ڈاکٹر تھے جنہیں لد سے بے دخل کیا گیا تھا۔ ضبشش نے نوجوانوں کے ساتھ ملکر یہ تنظیم بنائی تھی اور یہ مارکسسٹ خیالات کی تھی۔ اس کو مصر کی حمایت حاصل تھی۔ حباش اور ان کے کامریڈ عرب قوم پرست تھے لیکن 1967 میں ہونے والی عرب شکست کے بعد عرب ریاستوں سے توقع چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد یہ پارٹی ختم کر کے آزادی فلسطین کی پارٹی PFLP بنائی۔ اس جماعت نے ہوائی جہازوں کے اغوا کرنے سے شہرت پائی۔ بائیں بازو کی سیاست میں یہ تحریک مقبول رہی۔  دوسری جماعت فتح تھی۔

اس نے سیاست میں غیرنظریاتی اپروچ رکھی۔ عرب قوم پرست، کمیونسٹ، لیفٹسٹ، اسلامسٹ گروہوں سے الگ راستہ لیا۔ نظریاتی جماعتوں کا نعرہ تھا کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے معاشرتی تبدیلی لائی جائے اور پھر کچھ اور کیا جائے۔ فتح کا نعرہ سادہ تھا۔ یہ صرف فلسطین کاز کا تھا۔ سادہ اور فوری ایکشن۔ یہ کسی بھی نظریاتی وابستگی والے کے لئے پرکشش تھا اور اس گروپ نے جلد ہی بہت مقبولیت حاصل کر لی جس میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ یکم جنوری 1965 کو وسطی اسرائیل میں پانی کے پمپ کو سبوتاژ کیا جانے والا ایکشن اس تنظیم کا پہلا عملی قدم تھا۔ مصر نے 1964 میں تنظیم آزادی فلسطین (PLO) قائم کروائی تھی لیکن 1967 کی جنگ کے بعد مصر کی بنائی گئی قیادت کو جلد ہی ایک طرف کر دیا گیا اور فلسطینی گروپس نے اس کو ٹیک اوور کر لیا۔ سب سے بڑے گروپ فتح کے سربراہ یاسر عرفات اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین بن گئے۔

یہ عہدہ انہوں نے 2004 میں اپنی وفات تک اپنے پاس رکھا۔ اور اسرائیل کے لئے یہ ایک عجیب ستم ظریفی تھی۔ اس جنگ میں پڑوسیوں کو کچل دینا اس کی کامیابی تھی لیکن اس کے ساتھ فلسطینیوں کی واپسی اس کے لئے ناخوشگوار تھی۔ فلسطینیوں کا غائب ہو جانا صیہونی پراجیکٹ کی آخری فتح ہوتی۔ بین گوریان کا کہنا تھا کہ “بوڑھے مر جائیں گے، نوجوان بھول جائیں گے”۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ یہ اسرائیل کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے لیکن یہ ایک اور طرح کا چیلنج تھا۔ فلسطین کا نام ہی صیہونی انتہاپسندوں کے لئے چیلنج تھا۔ اور اس کو ختم کرنے کی کوشش سالہاسال کی گئی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی قرادادوں سے لے کر عالمی سیاست تک اس تنازعے کو عرب اسرائیل تنازعے کے طور پر دیکھا جاتا رہا تھا۔ عربوں کے پس منظر میں جانے کا مطلب فلسطینیوں کے نام کا واپس آ جانا تھا۔ اور یہ ایک دردسر تھا۔ ایڈورڈ سعید کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی فتح “اپنی کہانی بیان کرنے کی اجازت” تھی۔ عرب دنیا میں اس کو تقویت اس وقت ملی جب مارچ 1968 میں اسرائیل نے اردن کے دیہات کرامہ پر پندرہ ہزار کی فوج سے حملہ کیا۔ یہ فلسطینیوں کا تربیتی مرکز ختم کرنے کی کوشش تھی۔ حملہ آوروں کو غیرمتوقع طور پر اردن کی آرمی اور تنظیمِ آزادی فلسطین کے جنگجووٗں کی طرف سے سخت مزاحمت ملی۔ اس میں دو سو اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ کئی ٹینک تباہ اور بکتربند گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ ناقابلِ شکست سمجھی جانے والی اسرائیلی آرمی کے لئے یہ بڑا دھچکا تھا جس میں اسرائیلی فوج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اگرچہ اس میں زیادہ کردار اردن کی آرٹلری اور آرمرکا تھا لیکن کرامہ میں لڑنےے والے فلسطینیوں نے توجہ حاصل کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

عربوں کے وقار کی بحالی کے لئے یہ اہم تھا۔ اس نے فلسطینی مزاحمتی تحریک کو عرب دنیا کا ہیرو بنا دیا۔ البتہ، پی ایل او کسی قسم کا عسکری چیلنج پیش نہیں کر سکتی تھی۔ اس کا دوبدو یا روایتی لڑائی میں کھڑے ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اور ان کے پاس گوریلا جنگ کے لئے کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ اس کی کامیابی ڈپلومیسی میں رہی۔ اس نے فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت اختیار کر لی۔ عرب لیگ نے یہ حیثیت باقاعدہ طور پر 1974 میں تسلیم کر لی۔ یاسر عرفات کو اقوامِ متحدہ میں بولنے کے لئے بلایا گیا۔ یہ فلسطینی تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی تھی۔ دہائیوں تک ان کی شناخت کا انکار کئے جانے کے بعد یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply