دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی۔۔روبینہ قریشی

میرے تایا زاد بھائی نے KE سے ڈاکٹری مکمل کی تو ایران چلے گئے۔جب وہاں سے واپس آئے تو باقی سامان کے ساتھ ساتھ فریج اور ٹی وی بھی لے آئے۔یہ غالباً 1976 کا سال تھا،ہمارے گاؤں (ٹبہ) پہ پہلی مرتبہ لوگوں نے فریج اور ٹی وی دیکھا۔جب انٹینا وغیرہ سیٹ ہو چکا اور ٹی وی آن ہوا تو اظہر لودھی خبر نامہ پڑھ رہے تھے۔ڈاکٹر خالد نے بڑی محبت سے اپنی امی کو کچن سے لا کے ٹی وی کے سامنے بٹھایا اور کہا ساری زندگی کاموں میں ہی لگی رہی ہیں ، اب بس کریں کاموں کو ۔یہ دیکھیں دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

اظہر لودھی نے خبریں پڑھتے ہوئے  جونہی نظریں اٹھائیس ہماری تائی جان نے جھٹ سے دوپٹہ کھینچ کے منہ پہ پھیلا لیا اور کہا
,”پرے کرو اس مشٹنڈے کو، کیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھ رہا ہے۔۔
اور ہم سب کا  ہنس ہنس کے برے حال ہوگیا ۔

تائی امی بہت سیدھی سادی  خاتون تھیں۔گاؤں میں ہی رہتی رہیں، زندگی بھر،جب ڈاکٹر خالد (اپنے بیٹے) کے پاس سرگودھا آتیں تو وہاں انہیں بڑا خصوصی پروٹوکول ملتا۔

ڈاکٹر صاحب صبح کی سیر سے واپسی پہ ڈھیر سارے موتیے  کے پھول لاتے اور لا کے اپنی والدہ کے سرہانے رکھ دیتے، جو اس وقت تک نماز ِ فجر کے بعد دوبارہ سو رہی ہوتیں۔۔جب اٹھتیں تو بیٹے کو ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیتیں۔

ایک دن شام کے وقت میں ادھر ہی موجود تھی جب ڈاکٹر صاحب کی بیگم جنہیں ہم بھابھی کہتے تھے، تائی کو کھانا وغیرہ دے کر  پانی، دوائی  دودھ  پاس رکھنے کے بعد پوچھنے لگیں   ۔۔”اماں بس یا کچھ اور چاہیے؟۔

تائی نے بہت پیاری بات کہی
‘شالا سکھاں نال پئی وس،
کتنا پیارا وقت تھا کتنے پیارے لوگ تھے۔کیسی خوبصورت دعائیں ان کے لبوں پہ رہتی تھیں

ڈاکٹر صاحب کی رہائش ہمارے ٹاؤن سے بہت قریب تھی تو اکثر گرمیوں میں  شام کے وقت ہم لوگ پیدل نکلتے اور تقریباً 5 منٹ میں ان کے ہاں پہنچ جاتے۔
میں پہنچی تو شام کی نماز کا وقت بہت تھوڑا تھا میں نے جلدی سے نماز پڑھی،سلام پھیرا تو دیکھا کہ تائی اور ان کے ساتھ بھابھی کی امی گوڑھے حال احوال بانٹ رہی تھیں۔

میں بھی باتوں میں شامل ہو گئی اور باتوں باتوں میں، میں نے کہا  کہ کیا کروں بچوں میں اتنی مصروف رہتی ہوں کہ نماز بھی بس گھسیٹ کے ہی پڑھتی ۔ ادھر ایک بچہ فیڈر مانگ رہا، دوسرا بہن کو دھکا دے کے گرا رہا ہے تو بھابھی کی امی نے ایسی بات کہی جو کہ دل کو شانت کر گئی انہوں نے کہا
دھیے۔۔یہ جو بچوں کی خدمت کررہی ہو ان کی تعلیم اور تربیت کیلئے ہلکان ہو رہی ہو یہ سب عبادت ہی ہیں۔اپنی ساس کی خدمت کررہی ہو تو جنت کمارہی ہو۔۔نماز خلوص سے پڑھ رہی ہو تو بے شک لمبی نمازیں نہ پڑھو۔اللہ کو تمہارا اخلاص چاہیے۔اس کی عبادت کیلئے تو فرشتے بھی بے شمار ہیں۔
واہ۔۔کتنے اچھے طریقے سے میرا حوصلہ بڑھایا!

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت تو ہمارے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ ہم لوگ بغیر کسی کام یا مطلب ، صرف ایک دوسرے سے ملنے کیلئے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تھے۔اب نہ وہ لوگ رہے نہ وہ باتیں رہیں اور  نہ ہی  وہ محبتیں ہی رہی۔۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن۔۔!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply