• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سرخ قالین ،ائیر چیف کا دورہ اور سوشل میڈیا پہ تبصرے۔۔عامر عثمان عادل

سرخ قالین ،ائیر چیف کا دورہ اور سوشل میڈیا پہ تبصرے۔۔عامر عثمان عادل

کچھ روز قبل سپوت گجرات پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل ظہیر بابر سدھو اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی مرتبہ آبائی  گاوں سدھ تشریف لائے جہاں انہوں نے اپنے بزرگوں کی مرقد پہ حاضری دی اور کچھ دیر اپنے گاؤں میں قیام پذیر رہے۔

گاؤں میں بنے ہیلی پیڈ پہ لینڈ کرتا ہیلی کاپٹر ، کچے راستوں پہ بچھائے گئے سرخ قالین ،استقبال کے لئے کھڑی شاندار لینڈ کروز، جب یہ سارے مناظر تصاویر یا ویڈیوز کی صورت وائرل ہوئے تو سوشل میڈیا پہ تنقید شروع ہو گئی۔۔
اور آج بی بی سی نے بھی اس پہ ایک رپورٹ دے ماری۔۔

زور اس بات پہ دیا جا رہا ہے کہ سیاستدانوں پر تبرے کسنے والے سرکاری ملازموں کی شاہ خرچیاں۔
اس طرح فوج کے خلاف پہلے سے بغض سے بھرے بیٹھے دانشوروں کو بھی خوب موقع مل گیا کہ وہ بھی اپنے دل کا غبار نکالیں۔

اسی شام مجھے بھی ایک کال موصول ہوئی  جو پاک فضائیہ کے سرکاری ترجمان کی تھی، کہنے لگے آپ نے اپنے   پہ ائیر مارشل کے وزٹ کی ویڈیوز اپ لوڈ کر رکھی ہیں جو کہ سکیورٹی نقطہ نظر سے غلط ہے آپ انہیں ڈیلیٹ کر دیں۔

بصد ادب میں نے گزارش کی کہ جناب پہلی تو بات یہ ہے کہ میرے کسی پیج پہ ایسی کوئی  ویڈیو وائرل نہیں ہوئی  ،دوسرا یہ کہ مجھے  صحافتی اقدار کا بخوبی علم ہے کہ کونسا content پبلک فورم پہ شیئر کرنا ہے یا نہیں ،آپ کو غلط فہمی ہوئی  ہے، پھر وہ کہنے لگے کوٹلہ سے جن صحافیوں نے شیئر کی تھیں ان سے کہہ دیا ہے کہ وہ ان ویڈیوز کو ہٹا دیں۔

بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ جب ائیر مارشل ہیلی کاپٹر سے باہر آئے تو انہوں نے ویڈیوز بنانے سے منع کیا اور BBC کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بارے ائیر فورس سے موقف مانگا گیا مگر نہ ملا۔۔۔۔

تنقید کس بات پہ ؟
سوشل میڈیا پہ جاری تنقید کے مرکزی پہلو یہ ہیں
1۔ اپنے گاؤں آنے کے لئے ایسا پروٹوکول ضروری نہ تھا
2۔ نجی دورہ تھا تو سرکاری وسائل کا استعمال کیوں
3۔ دو قدم بھی پیدل نہ چل پائے

ممکنہ جواب اور دفاع
ابھی تک اس تنقید یا اٹھنے والے سوالوں کے جواب کا باضابطہ جواب سامنے نہیں آیا لیکن گمان کیا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی کو مدنظر رکھ کر ان کی آمد کا ایسا انتظام کیا گیا اور ائیر مارشل کی گوناں گوں مصروفیات دیکھتے ہوئے وقت بچانے کی خاطر ہیلی  کاپٹر پہ آنے کا فیصلہ ہوا ،مزید یہ کہ اگر وہ اسلام آباد سے سڑک کے راستے آتے تو مسافروں اور شہریوں کو اس وجہ سے لگائے جانے والے روٹس کے باعث دقت کا سامنا ہوتا ،اس سے بچنے کی خاطر فضائی سفر کا آپشن اختیار کیا گیا۔

پروٹوکول مجبوری تھی یا فرمائش ؟ 
ہمارے دیہاتی کلچر کا خاصہ ہے کہ ہمارا کوئی  عزیز اونچے منصب پہ فائز ہو جائے تو ہم اس کا ششکا اور رعب شریکوں کو دکھانا چاہتے ہیں اور بسا اوقات اپنے قریبی رفقاء کی “معصومانہ فرمائش ” کے سامنے بھی ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے چیف صاحب تو سادگی سے اپنے باپ دادا کی قبروں پہ فاتحہ کے لئے آنا چاہتے ہوں مگر ” لگدیاں ” نے خاص طور پر اس پروٹوکول کی فرمائش کی ہو۔

سرکاری محکموں کی پھرتیاں
یہ بھی ممکن ہے کہ ائیر مارشل ایسا پروٹوکول سرے سے چاہتے ہی نہ ہوں مگر گجرات کی سول انتظامیہ نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری دکھانے کی خواہش میں یہ سب کر ڈالا ہو لیکن اب تنقید کے پتھروں کی زد پہ تو ائیر مارشل ہیں۔

میڈیا ٹیم اور سکیورٹی انچارج کی کوتاہی
اب جو منظر نامہ ابھرا ہے کہ اپنے آبائی  گاؤں آنے پر ہی اتنی تنقید کی جا رہی ہے، تو میرے نزدیک اس میں چیف صاحب کی میڈیا ٹیم اور ہیلی پیڈ کی سکیورٹی کے نگران کے بیچ عدم تعاون کا فقدان زیادہ تھا۔

جب طے تھا کہ چیف کا یہ وزٹ خالصتاً  ذاتی نوعیت کا ہے اور اس کی کوریج کی اجازت نہیں تو پھر پہلے سے یہ ہدایات جاری کیوں نہ کی گئیں کہ ہیلی  پیڈ سے مزار تک استقبال کے لئے آنے والے افراد کو تصاویر یا ویڈیوز بنانے کی اجازت نہ ہو گی۔؟

خبر ہے کہ  ہیلی  کاپٹر لینڈ کرنے سے قبل سکیورٹی اہلکار وہاں موجود میڈیا والوں کو کوریج سے منع کرتے رہے لیکن سوال موجود ہے کہ لینڈ کرتے ہوئے طیارے کی ویڈیوز کس نے بنائیں اور اگر بناتے ہوئے اسے دیکھ لیا گیا تو اسی وقت ڈیلیٹ کیوں نہ کرا دی گئیں؟

بعد میں کیوں یہ نوبت آئی کہ ایک ایک صحافی کو کہہ کر مواد ڈیلیٹ کروانا پڑا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔

ائیر مارشل کی سکیورٹی ٹیم کو اس سراسر غفلت اور کوتاہی کا نوٹس لینا ہو گا ان کی ذرا سی بد انتظامی کے باعث اب جو سبکی ہو رہی ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں۔
جس کسی نے بھی یہ ویڈیوز بنا کے سوشل میڈیا پر وائرل کیں اس نے ائیر مارشل کے حق میں کچھ بھی اچھا نہیں کیا۔

ایک تجویز
کیا ہی اچھا ہوتا جناب ائیر مارشل کھاریاں کینٹ میں لینڈ کرتے وہاں سے پاک فوج کے دفاعی حصار میں عزت و آبرو کے ساتھ محض سات آٹھ کلومیٹر کا سفر سڑک کے راستے طے کرتے اور آبائی  گاؤں پہنچ جاتے۔

اس طرح نہ لینڈ کروز گاڑیوں اور سرخ قالین پہ سوال اٹھتے، نہ ہی ایک باوقار ادارے کی ناموس پہ انگلیاں اور یقین جانیں اس سے ظہیر احمد بابر کا وقار بھی بڑھتا۔۔
اب جتنے منہ ہیں اتنی باتیں۔۔

فرصت ملے تو ائیر چیف ٹھنڈے دل سے اپنے اس وزٹ کے مجموعی انتظامات بارے ایک غیر جانبدارانہ انکوائری ضرور کرائیں، اور جائزہ لیں کہ کہاں کہاں غلطی ہوئی ، تاکہ آئندہ یہ نوبت نہ آئے
کسی کو خوش کرتے کرتے اپنی نیک نامی اور عمر بھر کی ریاضت کو یوں داؤ پہ لگا دینا کوئی  دانشمندی نہیں۔

اور جناب آپ کی ذات کی بات ہوتی تو ہم چپ رہتے ۔۔یہ تو سوال ہے آپ کے ادارے کی آبرو کا، ایک ایسا ادارہ جو شاندار روایات کا امین ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply