جوڑوں کادرد جوڑے ہی جانتے ہیں۔۔احمد رضوان

ہمارے ہاں جتنے بھی عاقل و بالغ نفوس ہیں، ان سب کو حکمت کا ہڑکا ہوتا ہے۔جب تک وہ اپنے صدری و پشتینی نسخہ جات آپ کے ساتھ شیئر نہ کرلیں ان پر ایک بے کلی سی چھائی رہتی ہے ۔ ہم کسی دوسرے کی نجی زندگی میں دخیل نہ ہوں یہ بھلا کیسے ممکن ہے ؟ کوئی رجل الرشید مانند خورشید کیسے خورسند، خوش وخرم رہ رہا ہے یہ بھلا کب برداشت ہوتا ہے؟ایسےایسے نادر و نایاب نسخہ جات کی بارش ہوتی ہے کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ شاید پیدا کیا انسان کو نسخہ جات کے واسطے۔خیر آمدم برسرِ مطلب،جوڑوں کا درد جوڑوں سے زیادہ کون جانے۔جوڑوں کا ذکر چھڑ گیا ہے تو بتاتے چلیں کہ مشہور جوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں۔

پہلے نمبر پر ذکر ان جوڑوں کا ہے جو رشتہ ازدواج میں بندھے ہونے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ یہ جوڑے لائق کوڑے اور ہتھوڑے تو نہیں ہوتے مگر اتنا بتا دینا ہی کافی ہوگا کہ یہ بنتے تو آسمانوں میں ہیں مگر جوتم پیزار اور خجل خوار زمین پر ہوتے ہیں۔دوسرے نمبر پر وہ جوڑ ہوتے ہیں جن کی جملہ روا و ناروا شکایات کا شکار ہر وہ مرد و زن رہتا ہے جو کثرت ِ استعمال سے گھس گھسا کر زنا شوئی تعلقات میں دراڑ ڈالنے کا سبب بن جایا کرتے ہیں اور جن کی وجہ سے حکیمانہ نسخہ جات کی ضرورت پڑ جایا کرتی ہے ۔تیسرے وہ جوڑے ہوتے ہیں جو تمباکو کے ساتھ چرس کی آمیزش سے تیار کیے  جاتے ہیں اور لگا دم مٹا غم کا نعرہ مستانہ لگا کر نوجوانانِ  ملت اپنے آپ کو سرشار کرتے ہیں ۔

آج کا موضوع مگر ان جوڑوں کا ذکر مذکور ہے جن پر انسانی حرکات و سکنات کا دارومدار اور انحصار ہوتا ہے۔گھٹنوں اور جوڑوں کے درد کی کافی ساری اقسام ہیں جن میں سے مشہور وجع المفاصل( Gout  Rheumatism)، نقرس ،گنٹھیا(Scatia)،عرق النساء غیرہ شامل ہیں۔ میں تو بیماریوں سے زیادہ ان کے ناموں کی وجہ سے حیران و پریشان ہوں کہ عرق النساء میں کیا عورتوں کا عرق نکالا جاتا ہے اور اگر ہاں تو کیسے اور کیوں کر؟لغوی اعتبار سے عرق کا معنی ”رگ“ ہے اور نساءکا معنی عورت۔۔ یعنی ”عورتوں کی رگ“ یا عورتوں کی رگ والا مرض۔۔لیکن کسی حکیم صاحب سے اب تک اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں مل سکا کہ اس ظالم درد کو ”عورتوں کا درد“ کیوں کہا جاتا ہے۔ دردِ نسواں اگر کسی کو ہو بھی تو وہ دل میں یا جگر میں ہوتا ہوگا،ٹانگوں، ٹخنوں وغیرہ میں اس کا کیا کام؟۔

اس ساری تمہید دلپزیر کا مقصد اس دن کی روداد سنانا ہے جب قبلہ شاہ صاحب کے آستانے پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ چند مریدین ہاف ماسٹ مرغا* بنے بازوؤں کو ٹانگوں کے نیچے سے گزار کر   گھٹنوں پر یوں اکڑوں بلکہ ککڑوں دبائے بیٹھے ہیں کہ جیسے انڈا دینے کی   پریکٹس جاری ہو۔وجہ تسمیہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جوڑوں کے درد میں یہ ورزشی آسن اکسیر ہے۔ اس ورزش کے ساتھ اگر ادرک کی سونٹھ اور مرغیوں کے پنجوں کا شوربہ استعمال کیا جائے،تو جوڑوں کا درد جاتا رہتا ہے۔تعویذ گنڈے اور دھاگے کے ساتھ ساتھ پیری مریدی میں اب حکمت کا تڑکا بھی لگنا شروع ہوچکا تھا۔ بڑے شاہ جی کا مرید خاص، اشرف جو اپنے پستہ  قد کے باوجود اشرف المخلوقات کو اپنے پورے قد سے کھڑا رکھنے اور جوڑوں (ہر دو) کے جملہ عوارض کا ھوالشافی علاج میں قبلہ شاہ صاحب کا ممد و معاون تھا، پورے زورو شور سے کشتگانِ خنجرِ تسلیم را کے لئے کشتہ کی تیاری میں مصروف تھا۔

حیران ہوکر پوچھا ، قبلہ یہ کیا کھکھیڑ وہ بھی صبح صبح نہار منہ؟ولے: “ہاں یہ اجزاء رات کو کھلے آسمان تلے رکھ چھوڑے تھے تاکہ شبنم ان میں اتر جائے۔ اشرف اب ان کو کھرل کرکے کشتہ کی تیاری میں استعمال کرے گا اور مریدین باصفا و بال صفاچٹ اسے کھا کر کشتیاں کریں گے اور کشتوں کے پشتے لگائیں گے۔ قبلہ نے محاورہ اور کشتہ کا ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے ہمیں چاروں شانے بلکہ خانے چت کردیا۔”اگر اعتدال پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو کیا آپ کی رائے میں انسان زندگی کی سب خوشیوں سے زیادہ عرصے تک لطف اندوز نہیں ہو سکتا؟ہم نے سوال داغا۔

“بات تو درست ہے مگر جوانی کی ناتجربہ کاری میں کی گئی غلط کاریاں اور “دست کاریاں” اپنا اثر تو چھوڑ کر جاتی ہیں۔ جب خون پسینہ ایک ہوتا ہے تو اس کی حدت میں جدت کے مارے ہر الٹے سیدھے آسن اور ٹائمنگ کے چکروں میں اپنی جوانی کا ستیاناس مار لیتے ہیں اور اس کےمابعد اثرات سے زیر بلکہ ڈھیر ہوکر قبل از وقت سنیاس لے لیتے ہیں ۔قبلہ یہ تو بتائیے کہ سنیاس اور سن یاس(مینوپاز)  کا کیا تعلق ہوتا ہے؟اور اگر آپ برا نہ مانیں تو اس وقت آپ بھی لگ بھگ ایک سنیاسی ہی دِکھ رہے ہیں ۔ہم نے درفنطنی چھوڑی۔

ات یہ ہے میاں کہ جب مرد ,عورت کی آس پر پانی پھیر کرسنیاس لے لے توعورت کا سن یاس بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ اسی عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے لئے ساری دنیا کے حکیموں کا کاروبار گلشن جاری و ساری ہے ۔

جس تن لاگے ،سو تن جانے ۔آپ ٹھہرے سدا کے کنجوس کہ برادری آپ کے خون میں ناقابلِ  اصلاح کی حد تک رچ بس چکی ہے ۔پیار میں بھی کنجوسی کرکے اس دولت ِ زریں جسے جوانی کی محبت کہتے ہیں اس سے فائدہ نہ اٹھا کر رند کے رند ہی رہے ۔قبلہ اب کٹ حجتہ کے ساتھ ساتھ خاندانی تعلقات کی بِنا پر ہمارے تعاملات و معاملات میں پوری طرح دخیل ہوگئے گویا یہ کشتہ ہمارے کہنے پر بن رہا ہو۔

گویا ہوئے, خیر اس کشتہ میں سے کچھ حصہ آپ کو بھی عنایت کیا جائے گا شرط صرف اتنی ہے کہ آپ صدق دل سے ہماری حکمت پر ایمان لے آئیں ۔دوا کی اثر پذیری تب ہی ممکن ہے جب تک حکیم کے حاذق ہونے پر یقین کامل نہ پیدا ہو۔

جی قبلہ، آپ کی بات سے متفق ہوں کہ Placebo effect انسان کو بغیر کسی دوائی کے بھی ٹھیک کرسکتا ہے،پڑیا میں چاہے ایک چٹکی خاک ہی بھر کر دے دی جائے۔ دوا سے شفا کا انحصار اس کی مقدار پر نہیں بلکہ بیمار کی صحتیاب ہونے کی تڑپ پر ہوتا ہے۔
مگر ہم نے سنا ہے کہ یہ کشتہ جات انسانی صحت کے لئے مضر ہوتے ہیں خاص طور پر گردوں پر بہت برا اثر ڈالتے ہیں؟
جی ہاں، اگر ایک آنچ کی کسر رہ جائے تو فائدے کی بجائے نقصان کےزیادہ امکانات ہیں؟
تو آپ کو کیسے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک آنچ کی کسر باقی نہیں رہی اور کشتہ تیار ہے؟
یہیں تو ہمارے مرید خاص اشرف کی کاریگری اور مہارت تامہ کام آتی ہے، یہ اتنے کشتے تیار کرکے لوگوں کی مدد کر چکا ہے کہ لوگ شبینہ فتوحات کا احوال ہمیں بتانے کی بجائے سیدھے اس کے کان میں بتا دیتے ہیں کہ  دوا کی اور کتنی مقدار انہیں درکار ہے۔

تو کیا مردانہ کمزوری اور جوڑوں کا درد صرف مردوں کو ہی پریشان کرتا ہے اور کیا دوا کی صرف انہیں ہی ضرورت ہوتی ہے؟ ہم نے پوچھا
جی نہیں ! عورتوں میں جوڑوں کا درد کافی عام ہے ۔ان بیچاروں کے ساتھ ہوتی تھوڑی ہے ۔ برسبیل تذکرہ علاج کے نام پر فائدہ فریق ثانی کو ہی ہوتا ہے کہ مردانہ کمزوری کی ادویات مرد استعمال کرتے ہیں اورازدواجی مسرت خواتین کو ملتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکمت/حکیمیت میں کمیت کا علم فقط مت پر رہتا تو اس سے مراد یوں لی جاسکتی ہے کہ” مت کی مت لو”۔زور مت پر ہی ہونا چاہیے ،یہی بات حکومت کرنے والوں پر لاگو ہونی چاہیے کہ حکومت
کرنے کے لئے حکمت سے  زیادہ حکمت عملی    کا  کردار زیادہ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply