• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زندہ ہیں ایسے شہر میں اور کمال کیا کریں۔۔سید مہدی بخاری

زندہ ہیں ایسے شہر میں اور کمال کیا کریں۔۔سید مہدی بخاری

دہشت گردی کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ سیاسی دہشت گردی جو سیاسی جماعتوں کی غلط پالیسیوں اور دھمکیوں سے جنم لیتی ہے۔ معاشی دہشت گردی جو بجٹ کی صورت عوام کا خون چوستی ہے ( آج ایک اور وفاقی بجٹ پیش ہو رہا ہے)۔ سماجی و معاشرتی دہشت گردی جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت چور ڈاکو کرتے پھرتے ہیں اور مذہبی  و لسانی دہشت گردی جس نے اس ملک کو چار صوبوں اور دو آزاد ریاستوں میں جکڑ رکھا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا مطلب و مفہوم بھی بدلتا جاتا ہے۔ ایک بچے کے لئے دہشت گردی کا مرکز ڈاکٹر کا کلینک یا حفاظتی ٹیکوں کا مرکز ہو سکتا ہے جس سے بچہ دہل جاتا ہے۔ ایک نو عمر لڑکے کے لئے دہشت کا سبب سکول ٹیچر یا قاری صاحب ہو سکتے ہیں جن کی مارکے خوف سے دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ نوجوان کے لئے محبوبہ کے ابا یا بھائی کی دھمکی سے بڑی کوئی دہشت گردی نہیں ہوتی اور پھر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان پر آشکار ہوتا ہے کہ وه سب تو کچھ نہیں تھا ۔اصل دہشت گردی تو وه ہے جو اس ملک میں قدم قدم پر ننگا ناچ رہی ہے ۔ سیاسی ، معاشی ، سماجی ، مذہبی  و لسانی۔۔

خلیل جبران کی نظم ” Pity The Nation” میں وه کہتا ہے کہ “قابلِ رحم ہے وه قوم جو ہر آنے والے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے بجا کر کرے اور اسے رخصت گالم گلوچ پر کرے”۔ قصور کسی ایک حکمران کا نہیں آج تک کے آنے والے سبھی سیاستدانوں نے ملک و عوام کو نوچنے میں اپنا بھرپور حصه ڈالا ہے۔سیاسی دہشت گردوں نے اپنے جماعتوں کے اندر مافیا پیدا کیا ہے۔عسکری جتھے بنائے ہیں تا کہ خوف و دھونس سے جہاں کام نکل سکے نکالا جائے۔ کسی ایک جماعت کی کیا بات کرنی ؟ کون ایسی ہے جو پاک ہے؟ انہی کی بنائی ہوئی معاشی پالیسیاں دہشت گردی کی الگ مثال ہیں۔۔۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول پولیس کی دہشت گردی تیسری دنیا کے ملکوں کا بہت سنجیدہ مسئلہ ہے ۔ چور اور محافظ کے مل کر لوٹنے کا کھیل تقریباً  ہر ترقی پذیر ملک میں جاری ہے مگر پاکستان میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جعلی پولیس مقابلوں ، رینجرز کے ہاتھوں قتلِ عام اور فوجی آپریشنوں میں ہر کس و ناکس کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی وجہ سے اس قسم کی دہشت گردی نے عوام کی نفسیات کو شدید متاثر کیا ہے۔دن بہ دن ترقی پذیر اس معاشرے میں اس طرح کی دہشت گردی ترقی یافتہ ہو رہی ہے۔

مذہب کے نام پر مُلا نے نفرتوں کے بیج بو کر خونی کھیل رچا رکھا ہے۔ مسجد و منبر کا تقدس پامال کیا گیا ہے۔ جبہ و دستار والوں نے دین کے لباس کو الٹا پہن لیا ہے۔ مدرسوں میں ذھنوں کی آبیاری کی بجائے برین واشنگ کی جا رہی ہے ۔ بزور بازو و بندوق کی نوک پر اپنی بات منوانے کے لئے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ دوسروں پر کافر کے فتوے صادر کئے جا رہے ہیں۔ گویا خدا کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا گیا ہے ۔مسلمانی کی سند مدرسے جاری کر رہے ہیں۔ جنتیوں اور جہنمیوں کی نشاندهی مُلا کر رہا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ کوئی محفوظ نہیں۔کسی کو امان نہیں ۔مسلک کی وجہ سے لوگ مار رہے ہیں اور مر رہے ہیں ۔

صوبائیت و لسانیت کا بیج یوں تو سیاستدان اور مقامی وڈیرے ہی بوتے ہیں مگر مقامی بیوروکریسی اس بیج کی پوری آبیاری کرتی ہے۔ زبان کے فرق کی وجہ سے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ رنگ ، نسل ، شکل کی وجہ سے خاندان اجاڑے جاتے ہیں۔ الگ صوبوں کے مطالبے کی آڑ میں لسانیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔

ایسے معاشرے میں ہر بنده ہی کسی نہ کسی طرح آج کے ماحول کا ذمہ دار ہے۔ہم خود ووٹ کی طاقت سے لوگوں کو اپنے پر مسلط کرتے ہیں۔ ہم ہی مدرسوں کو بنا چھان پھٹک کے چنده دیتے ہیں۔ ہم ہی اپنی زبان پر فخر کرتے ہوئے دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ہم ہی ناانصافی پر مبنی معاشی پالیسیوں اور ناجائز ٹیکسسوں پر چپ رہتے ہیں احتجاج نہیں کرتے۔ ہم ہی اندر سے اپنے اپنے مسالک کو پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں۔ ہم ہی مُلا کو دین کا حرفِ آخر سمجھتے ہوئے اس کےہر برے بھلے کی اندھی حمایت کرتے ہیں۔
جہاں بیس کروڑ کی آبادی میں سے نابالغ نکال کر چوده کروڑ لوگ خود ہی دہشت گردی میں بلاواسطہ یا انجانے میں ملوث ہوں اس ملک کو کوئی قمر باجوہ، کوئی پھنے خان ، کوئی اداره ، کوئی زمینی طاقت نہیں بچا سکتی۔

صحت، تعلیم، انصاف، چھت، خوراک۔ ان پانچ بنیادی انسانی ضروریات کو معیار بنا لیں تو معلوم ہوگا کہ نوے فیصد سے زائد شہریوں کو اس نام نہاد منصوبہ بندی سے کوئی فائدہ نہیں۔ نتیجتاً جس پر آج بجٹ کے نام پر تجزیاتی مغز ماری کی جارہی ہے۔ نا عزت محفوظ ہے نہ جان کی امان ہے اور نہ مستقبل کی ضمانت۔ اخبارات کے صفحات کو کھنگال لیں تو ہر دوسری خبر میں سے عام شہریوں کے خون کے قطرے گر رہے ہوں گے۔ بازاروں میں، آبادیوں میں، اسپتالوں میں، تھانوں اور کچہریوں میں کچلی ہوئی رعایا عرضیاں اور فریادیں پکڑے ماری ماری پھرتی نظر آئے گی۔ کہنے کو آج کا کل بجٹ پینتالیس بلین ڈالرز کا بجٹ ہے لیکن شہری کی فلاح پر یہ ریاست گن کر پندرہ روپے مہینہ خرچ کرتی ہے۔ ہاں ! حکمرانوں کی حفاظت اور عیش کے لیے وسائل اندھا دھند ہیں۔

کوئی حد نہیں، کوئی قدغن نہیں، ان پر نہ بجلی کا بحران اثر کرتا ہے اور نہ سبزیوں اور دالوں کے بھاو، ان کی غذا مرغن ہے۔ صحت ایسی بھرپور کہ جیسے اکھاڑے سے نکلا ہوا پہلوان۔ بجٹ تو ایک کھیل ہے۔ اصل میں یہ فیصلہ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد کیا جاچکا تھا کہ یہاں کے عوام کو ہمیشہ اس اذیت میں مبتلا رکھنا ہے کہ ان کو ایک نوالے کی فراہمی بھی من و سلویٰ لگے۔ اتنے زخمی ہوں کہ طبیعت پوچھنے پر بھی ساری زندگی شکرگزاری میں غلامی کرتے ہوئے تعریف کی تسبیح پڑھتے رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم سب اس بدحالی کا شکار ہوتے جس نے ہماری کمزور ترین امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے؟

بجٹ اس مفصل واردات کا حصہ ہے جو اس ملک پر قابض طبقے ہر سال ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ اور ہم دھوکے میں آکر تین سو ساٹھ دن پھر سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو خاموشی سے برداشت کرلینے میں ہی جمہوری قسم کا فخر محسوس کرتے ہیں۔اگر سیاسی اشرافیہ میں کسی کو کاروبار ، ریاست اور حالات قوم کو بدلنے میں کوئی حقیقی دلچسپی ہوتی تو وہ یقیناً اسی استطاعت اور کامیاب منصوبہ بندی کا سہارا لیتے جس کے ذریعے انہوں نے ذاتی معاشی معاملات کو ایسے سنبھالا ہے کہ ہر طرف سے فائدہ کے سوا کچھ نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ نہ کوئی سہارا ہے نہ کوئی تنگی، جن تمام سالوں میں (بجٹ کے باوجود یا شاید بجٹ کی وجہ سے) پاکستانی عوام کی ہڈیوں سے ماس غائب ہو گیا اسی دوران بجٹ بنانے والے فربہ اندام ہو گئے۔ ملک کی معیشت ڈوب گئی، ان کی دولت کے انبار آسمان کو چھونے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومتی آفس میں وزیر بے تدبیر اور بے بس نظر آئے مگر اپنی صنعتوں اور ملوں میں ان سے کائیاں اور ماہر کاروبار دکھائی نہ دیا۔ یہ کیا ماجرہ ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنے میں ناکام افراد ذاتی دولت اکھٹا کرنے میں اتنے کامیاب ہو جاتے ہیں؟ بنیادی بات یہی ہے جو میں نے پہلے آپ کے لئے تحریر کر دی ہے۔ بجٹ قبضہ گروپ کا وہ ہتھیار ہے جو وہ ہر سال استعمال کرکے آپ کو اپنی خودساختہ مجبوریوں کے واویلے سے متاثر کرتے ہیں اور پھر تمام دن اپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کے اہتمام کرنے پر مامور ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو تبدیلی لانا ہوتی تو آج غریب کی اولاد جھگیوں میں مٹی پھانکے کے بجائے دبئی اور لندن میں ارب پتیوں کے ساتھ ان کی اولادوں کی طرح مکمل آسائش میں نہ پل بڑھ رہے ہوتے!
میرا دل کرتا ہے کہ کاش ٹائم مشین کسی طرح مل جائے تو میں واپس اسی دور میں چلا جاؤں جہاں ماسٹر صاحب دہشت گرد لگتے تھے اور محبوبہ کے ابا دہشت گردوں کے سپریم کمانڈر …اعتبار ساجد کو سلام کہ جس نے فرمایا
ایسی فضا کے قہر میں ، ایسی ہوا کے زہر میں
زندہ ہیں ایسے شہر میں اور کمال کیا کریں !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply