• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • پاکستان گندم، چینی، گھی اور دالیں درآمد کرنے والا ملک بن گیا، شوکت ترین

پاکستان گندم، چینی، گھی اور دالیں درآمد کرنے والا ملک بن گیا، شوکت ترین

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ہم نیٹ فوڈ امپورٹر بن گئے ہیں۔ گندم، چینی، گھی، دالیں اب ہم درآمد کرتے ہیں

اقتصادی سروے مالی سال 21-2020 پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ بین الاقوامی قیمتوں کا مقامی مارکیٹ پر اثر پڑتا ہے۔ چینی کی انٹرنیشنل قیمتیں 58 فیصد بڑھی ہیں لیکن ہمارے ہاں قیمتیں اڑتیس فیصد بڑھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمت 103 فیصد جبکہ پاکستان میں 82 فیصد بڑھی۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالٹا گھی کی قیمتیں 96 فیصد بڑھی ہیں۔ ہم نے مہنگائی پر کنٹرول کیا ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان ایئر لائن، پاکستان ریلوے اور بجلی کی تقسیم کارکمپنیاں خسارے کا باعث ہے، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے لیے ماہرین کا بورڈ بنائیں گے۔

اقتصادی سروے مالی سال 21-2020 پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاورسیکٹر ہمار ے لیے بڑا چیلنج ہے۔

بجلی کی قیمت اورانکم ٹیکس بڑھانے کی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی تجویز قبول نہیں کی. آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں. ہم آئی ایم ایف کو متبادل پلان دیں گے. آئی ایم ایف اور ہماری منزل ایک ہے وہ بھی پائیدار گروتھ چاہتے ہیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ غریب اور تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ حکومت نے شماریات بیورو کو وزارت منصوبہ بندی کے ماتحت کیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ائندہ مالی سال بجٹ 5 اعشاریہ 8 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے جبکہ غیر ملکی قرض میں 700 ارب روپے کی کمی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے 4 ہزار 200 ارب روپے کے ٹیکس جمع کیے جبکہ زرعی شعبے میں 2.7 فیصد ترقی ہوئی۔ غیر ملکی قرض میں 700 ارب روپے کی کمی ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وفاقی وزیر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں 29 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply