سعودی عرب، خواتین کو بغیر محرم رہائش کی اجازت۔۔منصور ندیم

سعودی عرب نے بالآخر قانونی طور پر غیر شادی شدہ، شادی شدہ، مطلقہ اور بیوہ خواتین کو با اختیار حیثیت سے علیحدہ رہنے کا قانون بنا دیا ہے، اب انہیں بغیر اجازت والدین، سرپرست کے یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ الگ رہ سکتی ہیں اور بغیر کسی سرپرست یا والدین اور شوہر کے اجازت نامے کے اکیلے سفر کرسکتی ہیں۔

یہ تاریخ ساز فیصلہ سعودی عرب کی تاریخ کا ایک انتہائی بڑا فیصلہ ہے، کہ خواتین کو علیحدہ رہائش کے لئے اب کسی مرد ولی کی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے خواتین کے لئے امور زندگی کے سارے معاملات کے لئے اپنے “ولی” مرد یعنی والد، بھائی، شوہر، بیٹا یا چاچا یا ماما کی حیثیت سے لازمی سرپرستی درکار ہوتی تھی۔

سعودی عرب کی عدالتی اتھارٹی نے اس سے پہلے کے شرعی عدالت کے اس آرٹیکل کو ختم کردیا ہے۔

Article 169, Paragraph B of the Law of Procedures before Sharia Courts, which stipulates that an unmarried, divorced, or widowed adult female must be handed over to her male guardian.

ترجمہ : آرٹیکل ۱۶۹,پیراگراف “ب” بمطابق شریعہ کورٹ کوئی بھی بالغ خاتون چاہے کنواری، شادی شدہ، مطلقہ یا بیوہ ہو، وہ اپنے مرد سرپرست کی زیرنگرانی ہوگی۔

اور اب نئے قانون کے مطابق

, “An adult woman has the right to choose where to live. A woman’s guardian can only report her if he has evidence that she has committed a crime.”

“کوئی بھی بالغ خاتون یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سی کہیں بھی رہے، اس کا سرپرست صرف ایک ہی صورت میں شکایت کرسکتا ہے کہ اگر وہ اس کے کسی جرم کا گواہ ہو۔”

علاوہ ازیں اگر کوئی خاتون جرم کی مرتکب بھی ہے تو عدالتی فیصلے یا سزا کے بعد بھی وہ زبردستی سرپرست کے حوالے نہیں کی جائے گی۔

اب کوئی بھی خاندان ایسا کوئی کیس دائر نہیں کر سکتا جس کے مطابق ان کی بیٹی یا بہن کہیں الگ رہنے کی خواہش رکھتی ہو۔ ایسی کوئی خاتون جو اپنی علیحدہ رہائش رکھنا چاہے، ان کے خلاف ایسے کیس قابل قبول نہیں ہونگے۔

اس تاریخ ساز فیصلے کی وجہ بننے والی سعودی عرب کی ایک رائٹر خاتون مریم العتیبی ہیں، جب انہوں نے اپنے والدین کی مرضی کے بغیر سفر کیا، سنہء ۲۰۱۷ میں دارالحکومت ریاض سے شمال مغرب میں ۲۵۰ کلو میٹر شمال مغرب میں واقع اپنے آبائی گھر الراس Al-Rass سے اپنے والد اور بھائی کی بد سلوکی کی وجہ سے گھر چھوڑ گئی تھیں، اور ان کا کیس عدالت میں چل رہا تھا، ان کے والد کی طرف سے ان پر یہ الزام تھا کہ مریم العتیبی نے والد کی مرضی کے بغیر گھر چھوڑا اور اکیلے سرپرست کی مرضی کے بغیر رہ رہی ہیں، بالآخرجولائی سنہء ۲۰۲۰ میں ان کے کیس کا فیصلہ ان کے حق میں دیا گیا اور عدالت نے Court passed an unprecedented ruling that she had

“the right to choose where to live”.

ترجمہ: مریم العتیبی حق رکھتی ہیں کہ وہ کہاں رہنا چاہتی ہیں۔

یہ فیصلہ اس نئے قانون کی بنیاد بنا، اس سے پہلے رواں سال کے آغاز جنوری میں سعودی عرب نے ۱۸ سال کی کسی بھی خاتون کو جو اپنا علیحیدہ شناختی آئی ڈی رکھتی ہو، اسے یہ اجازت دی تھی کہ وہ اپنا نام بغیر سرپرست کی مرضی کے تبدیل کرسکتی ہے۔ اس سے پہلے اگست سنہء ۲۰۱۹ میں خواتین کے اکیلے سفر پر پابندی اٹھا لی تھی، اور یہ اجازت بھی دی تھی کہ ۲۱ سال کی کوئی بھی خاتون اپنا پاسپورٹ یا سفری دستاویز بغیر کسی سرپرست کے اپنی مرضی سے بنوا سکتی ہے۔ اور اس سے گذشتہ سال خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی مل گئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تمام قانونی اصلاحات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن ۲۰۳۰ (Vision 2030) کی لیڈر شپ کا حصہ ہیں، جسے وہ ملک کے معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور مذہب کی درست تفہیم کے ساتھ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لئے گئے کئی اقدامات عملی طور پر سعودی عرب میں خواتین کے قانونی اور معاشی حقوق کے لئے انتہائی بار آور ثابت ہوئے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply