• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • روڈ سیفٹی: پاکستان میں صحت عامہ کے لیے چیلنج۔۔تحریر:ڈاکٹر محمد زمان/مترجم:عدیلہ بھٹی

روڈ سیفٹی: پاکستان میں صحت عامہ کے لیے چیلنج۔۔تحریر:ڈاکٹر محمد زمان/مترجم:عدیلہ بھٹی

روڈسیفٹی کے سلسلے میں میں آگاہی کم ہونےکے باعث پاکستان کا منظر نامہ حادثات سے بھرا پڑا  ہے،جو کہ صحت عامہ کے لیے سنگین مسئلہ ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےمطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 27،582 افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہو کر لقمہ اجل بنتے، اور تقریباً 50،000 معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔جبکہ ان حادثات کی صورت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی گاڑیوں کی مارکیٹ ویلیو کم ہونے اور ادویات وغیرہ پر ہونے والے اخراجات کی مد میں لگ بھگ 500 ارب روپے کا نقصان الگ سےاٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں آگاہی و شعور کی کمی کہ وجہ سے لوگ ان حادثات کو تقدیر کا لکھا سمجھتے ہیں حالانکہ ریسرچ کے  مطابق صرف  2 فیصد  حادثات تقدیر کے زمرے میں آتے ہیں۔

ان ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ موٹر سائیکل ہیں۔ موٹر سائیکل قیمت میں کم ہونے کی وجہ سے باآسانی دستیاب ہیں اور ہر ایک کی پہنچ میں ہیں۔
60  فیصد سے  70 فیصد  حادثات ان موٹر سائیکلوں کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر موٹر سائیکل سوار دوران ڈرائیونگ ہیلمٹ پہننے اور روڈ سیفٹی کے اصول و ضوابط پر عمل کرنے کی زحمت گوارا  نہیں کرتے۔ حالانکہ دوپہیوں والی سواری استعمال کرنے سے انہیں گرنے یا پھسلنے سے شدید زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ موت کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہےلیکن اس کے باوجود یہ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگیوں سے لاپرواہ نظر آتے ہیں.

دوسری بڑی وجوہات میں سیل فون کا استعمال، تیز رفتاری، غلط یوٹرن، وغیرہ ہیں اور اس کے ساتھ ڈرائیور حضرات اشاروں پر عمل کرنا تو دور، اپنی گاڑیوں تک کے اشارے  نہیں لگاتے، تبھی پیچھے سے  آنے والی گاڑیوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ گاڑی کہاں جا رہی ہے اور کس جانب مڑے گی، نتیجتاً شدید حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ صرف پاکستان ہی نہیں جو روڈ سیفٹی کے مسائل سے دوچار ہے بلکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔مثال کے طور پر 2018 میں دنیا بھر میں ہر 24 سیکنڈ کے اندر ایک حادثہ پیش آیا اور تقریباً53 .1 ملین افراد ہلاک ہوئے۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں حادثات کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے حالانکہ ترقی پذیر ممالک میں دنیا کی کُل گاڑیوں کا  16 فیصد  ہے جبکہ حادثات میں انکا حصہ  44 فیصد  ہے اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے یہ عمل اُلٹ ہے، ان کے پاس گاڑیوں کا  44 فیصد  ہے اور حادثات میں ان کا حصہ  16 فیصد  ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک ہی ٹریفک حادثات کا زیادہ شکار کیوں ہوتے ہیں؟
وہ کونسے ایسے تشریحی اصول و اقدار ہیں جو کہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہیں؟

1:درحقیقت ترقی یافتہ ممالک نے گاڑیاں دریافت و اختراع کرنے کے ساتھ انہیں چلانے کے لیے اصول و ضوابط بھی مرتب کیے ہیں جبکہ دوسری جانب ترقی پذیر ممالک اوّل تو گاڑیاں بناتے ہی نہیں یا بنائیں بھی تو بہت کم اور ہمیشہ روڈ سیفٹی کے قواعد و ضوابط کو تفریح و مزاح میں لیتے ہوئے نظر انداز کرتے ہیں۔

2:ترقی یافتہ ممالک میں ریاست صحت عامہ کی خاطر روڈ سیفٹی کے سلسلے میں کافی محتاط رویہ اختیار کرتی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں روڈ سیفٹی کو اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ صحت عامہ پر توجہ دینے کی بجائے سرحدوں کی حفاظت کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کو حادثات کا زیادہ سامنا ہے۔

دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح حکومت پاکستان بھی صحت عامہ کی حفاظت میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتی ہے تبھی روڈ سیفٹی یہاں نظرانداز کیا جانے والا اہم معاشرتی مسئلہ بن چکی ہے ۔

اس صورتحال سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے؟

حکومت پاکستان کو روڈ ایکسیڈنٹ کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے کچھ سخت اقدامات اٹھانا ہوں گےجیسے؛

* صحت عامہ کے مسئلے کی جانب توجہ دیتے ہوئے ایسی عوامی پالیسی مرتب کریں جس سے لوگوں کی زندگیاں سڑکوں پر محفوظ بنائی جا سکیں۔

* بھاری جرمانے کے نفاذ کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی۔ ڈرائیور حضرات بھاری جرمانوں سے بچنے کے لیے محتاط طرز عمل اختیار کریں گے تو ہی شہری  ان حادثات کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

*الیکٹرانک سرویلینس سسٹم کو اپناتے ہوئے ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ہر گاڑی میں ایک چپ نصب کرتے ہوئے ہائی ریزولیوشن کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جائے۔

* ڈرائیوروِں کو تربیت دی جائے اور سوشلائز کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

*یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کی صحت عامہ اور سماجی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں روڈ سیفٹی آگاہی مہم چلا کر ، پمفلٹس، بینرز اور لیکچرز کے ذریعے ٹریفک کا شعور اجاگر کرے، کیونکہ ٹریفک نظام میں بہتری روڈ یوزر کی احساس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ٹریفک قوانین و روڈ سیفٹی قوانین سے مکمل آگاہی سے ہی ممکن ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply