کامیاب معاشیات اپنانے میں مسلم ممالک پیچھےکیوں؟منصور ندیم

ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ  کے مطابق مسلمان ممالک اقتصادی معاملات میں قرآنی تعلیمات یعنی اصولی قواعد، انصاف، کفایت شعاری وغیرہ کو اختیار کرنے میں ناکام ہیں یا پھر انتہائی پست درجے پر ہیں ۔ ان کے مقابلے میں مغربی ممالک تجارت و اقتصادیات کے اسلامی اصولوں سے قریب ترین اور کامیاب ہیں۔ اس پر (Economic  Islamicity Index) جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسٹڈی (تحقیقی مطالعہ) کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں تجارت اور اقتصادیات کے جو مروجہ اصول اور ضابطے ہیں وہ مسلم ممالک میں موجود رائج اصول و ضوابط سے زیادہ اسلام سے قریب ہیں ۔

اسی یونیورسٹی کے دو محققین نے An Economic Islamic city Index (اسلامی اقتصادیات کے اصولِ عمل) کے عنوان سے دنیا کے 208 ممالک کا مطالعہ کیا ہے اور ان کی صف بندی یا درجہ بندی (Ranking) کی ہے اس میں آئر لینڈ سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد ڈنمارک، لکسمبرگ، سوئیڈن، برطانیہ، نیوزی لینڈ، سنگا پور، فِن لینڈ، ناروے اور بلجیم تقریباً تمام یورپی ممالک۔ جاپان، کوریا، یہاں تک کہ اسرائیل بھی آگے ہے۔ ملائشیا وہ پہلا مسلم ملک ہے جو دنیا بھر کے 208 ملکوں میں 33ویں نمبر پر ہے۔ شہزادہ ایس رحمان اور حسین اصغری نے واشنگٹن ڈی سی کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے توسط سے یہ ریسرچ کی ہیں ۔مضمون  گلوبل اکنامک جنرل (جلد 10، شمارہ 3) (Economic Journal. Vol-10, Issue-3) میں  شائع ہوا ہے۔

شہزاد ایس رحمان، انٹرنیشنل فنانس اور انٹڑنیشنل افیئرز   کے پروفیسر ہیں جبکہ حسین اصغری انٹرنیشنل بزنس اور انٹرنیشنل افیئرز  کے پروفیسر ہیں۔ دونوں پروفیسر صاحبان نے مل کر ایک بڑے پروجیکٹ کو اسلامی معیار یا کسوٹی کو پیش نظر رکھ کر ریسرچ کی ۔ دلچسپ بات ہے کہ ہندستان کا درجہ 94 نمبر پر ہے جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش 141 اور 145 درجے پر آتے ہیں۔ امریکہ 15ویں نمبر پر ہے جبکہ روس اور چین 45 اور 62 کے درجے میں شمار کیے گئے ہیں۔ چند مسلم ممالک کچھ بہتر پوزیشن میں ہیں۔

مثلاً کویت (42)، قازقستان (54)، برونائی (55)، بحرین (61)، عرب امارات (64) ، ترکی (71) ، تیونیشیا (72)، اردن (74)، آذربائیجان (80)، عمان (82)، لبنان (87)، سعودی کا نمبر 91ویں ہے۔ انڈونیشیا جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلم ملک ہے اس کا نمبر 104 پر آتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ صرف سود سے پاک معیشت ہی اسلامی تجارت اور اقتصادیات میں سب کچھ ہے جبکہ  انسان کے انفرادی سلوک، اخلاق، بھروسہ، قول و قرار، معاہدہ یہ سب بھی بہت معنی رکھتا ہے۔ قرآن یا اسلام تجارت اور معیشت میں اس پر بھی زور دیتا ہے اور سختی کے ساتھ اس کا پابند بھی بناتا ہے۔ اور مغرب کی اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی ترقی میں یہ اہم اور بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اسلامی تجارت کے تین بڑے اصول ہیں :
(1) معیشت کے معاملے میں عدل و انصاف اور ترقی میں تسلسل ۔
(2) بڑے پیمانے پر فلاح عام اور روزگار کے مواقع۔
(3) اسلام احکامات پر معیشت کے اصول اختیار کرنا اور مالیات کے معاملے میں اسلامی اصول کو برتنا۔

یہ تعلیمات ہیں اسلامی معیشت کی جو اقتصادیات کے (12) بارہ بنیادی اصولوں پر مشتمل ہیں۔

(1) معاشی مواقع اور کمانے کی آزادی ریاست کے تمام شہریوں کے لیے (economic freedom
(2) معاشی انتظام و انصرام کے ہر معاملے میں عدل و انصاف یعنی حقوق ملکیت اور معاہدہ کا تقدس (قرآن و حدیث کی بنیاد پر )۔
(3) ملازمین کے ساتھ اچھا سلوک بشمول کام کے مواقع اور ملازمت میں برابری۔
(4) جی ڈی پی
GDP کے مختص کوٹے سے اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بشمول اعلی تعلیمی میدان میں جدید تحقیق و ترقی پیش قدمی وغیرہ۔
(5) غربت و افلاس کا خاتمہ، ریاست کی بنیادی ذمہ داری کہ ہر شھری کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا، (افراد کی علمی، ذہنی اور جسمانی بلا تخصیص کے) ، ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ، ریاستی اور ذیلی ریاستی اداروں کے اخراجات کے معاملے میں احتیاط و اعتدال۔
(6) تقسیم دولت اور آمدنی کی گردش۔
(7) بہتر سماجی انتظام فلاح اور ٹیکس کے ذریعہ سماجی اور ترقیاتی خدمات۔
(8) بچت اور خرچ کی زیادہ سے زیادہ شرح۔
(9) مارکیٹ اور مالیات کے معاملے میں اعلیٰ قسم کے معیار اور کردار کا مظاہرہ اور بدعنوانی سے پاک لین دین۔
(10) اسلام کا نظام معیشت جس میں نفع و نقصان دونوں میں قرض سے پرہیز، قیاس و گمان کی نفی ،
(11) تجارت اور
GDP پر زور،
(12) ماحولیات کا تحفظ اور مارکیٹ اور تجارت پر کڑی نظر رکھنا۔

ان دونوں پروفیسر صاحبان کی ریسرچ سے جو حقیقت اخذ کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کسی بھی طور پر اسلامی اصولوں اور نظریات کی پابندی نہیں کرتے۔ مسلم ملکوں کا اگر اوسط نکالا جائے تو ان کا درجہ (Rank) 133 ویں نمبر پر آتا ہے۔ جبکہ دنیا میں موجود 208 ملکوں میں مسلم ممالک کی تعداد 56ہے۔

ریسرچ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلم ملکوں کی ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ ان ملکوں میں حکمرانی کی ناکامی غیر معیاری ادارے، بہت زیادہ بدعنوانی، جس کا اسلام سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انصاف 56 اسلامی ریاستوں میں کئی ریاستیں جو کلی یا جزوی طور پر اسلامی قوانین کے اطلاق کا دعوٰی کرتی ہیں، وہ مسلم ریاستیں یا اسلامی ملک بھی وہ اسلامی تعلیمات یا قرآنی تعلیمات کو اپنانے یا اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔

اسلام اخلاق، ایمانداری، اور ہر ایک کی فلاح وبہبود، ہر ایک کے لئے عدل و انصاف سکھاتا ہے۔ اگر اس کے پیروکار ان چیزوں میں کمتر نظر آتے ہوں تو ان اسلامی ممالک کا ان مغربی ریاستوں کے لوگوں کے مقابلے میں پیچھے ہوجانا ایک فطری چیز ہے جو ان مذکورہ صفات میں آگے ہوں۔ اس سچائی کو جان کر یقیناً  ایک سچا مسلمان کانپ جائے گا کہ اسلام کے ماننے والے اپنے دعویٰ میں کس قدر منافقت برت رہے ہیں۔ اگر ان مسلم ممالک کو منافق ممالک کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ دعویٰ ایمانداری کا ہے مگر بے ایمانی، بدعنوانی پر یہ ریاستیں اپنے ہر عمل کمر بستہ ہیں۔

ہمارے شاعر و ادیب، مبلغ مغربی ممالک کی عیش پرستی پر انھیں کوستے ہیں مگر نام نہاد مسلمانوں اور مسلم ملکوں پر جس قدر بے باکی اور حق گوئی سے تنقید کرنی  چاہیے نہیں کرتے۔ مسلمان اور مسلم ممالک اپنا احتساب اور جائزہ لینے سے بھی قاصر ہیں۔ ایک کافر ملک جسے امریکہ کہتے ہیں جو ہمارے بقول مسلمانوں اور مسلم ملکوں کا سب سے بڑا دشمن ہے وہ آج ریسرچ یا تحقیق کے ذریعے  مسلم ملکوں کو آئینہ دکھا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے بڑھاتا ہے انھیں ترقی کی اونچائیوں تک پہنچاتا ہے جو اس کے طور طریقہ کو اپناتے ہیں جو محض دعویٰ کرتے ہیں اور قول و فعل میں تضاد رکھتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ مغربی ممالک کی ترقی، اخلاقی صفات اور فلاحی معاشرت یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ مسلمان سچائی، ایمانداری، لین دین کے معاملے میں کتنے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ محنت و مشقت کے معاملے میں دوسروں کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔

بقول علامہ اقبالؒ ۔۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا!

آج کے مسلمان اپنے اجداد و اسلاف کے دعوے  کررہے ہیں ، مگر بالآصل اپنے نفس کے بتائے ہوئے راستے  پر رواں دواں ہیں جو راستہ ایک گہرے گڑھے کی طرف  جاتا ہے۔ آج اس سے بچنے کا واحد ذریعہ یا طریقہ ہے کہ مسلمان رجوع الی اللہ یا رجوع الی القرآن کریں۔ اللہ سے رجوع کیے بغیر امت مسلمہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے معاملات ، معیشت، معاشرت اور طور طریقوں کو درست کیے بغیر اقوام عالم کی دوسری قوموں سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کو ترقی یافتہ قوموں کی رہبری اور رہنمائی میں چلنا پڑے گا۔ ان کو محض کوسنے یا تنقید کرنے سے نہ مسلمان آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ مسلمان ممالک۔

بس دعا ہے کہ اللہ مزید ذلت اور رسوائی سے پہلے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دے۔

لَعِبْرَۃً لّاِ ُوْلِی الْاَبْصَار (3:31)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(دیدۂ و بینا رکھنے والوں کے لئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے )۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply