فلسطین (10) ۔ صیہونی/وہاراامباکر

روسی زار الیگزینڈر دوئم کو یکم مارچ 1881 کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے بیٹے الیگزینڈر سوئم حکمران بنے۔ آتے ساتھ ہی انہوں نے روس میں اپنے والد کا شروع کیا گیا اصلاحات کا پروگرام ختم کر دیا اور سول آزادیوں پر پابندی لگا دی۔ زار نے اس قتل کا الزام یہودیوں پر لگایا اور ان کو ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں یہودی مخالف مظاہرے (پوگروم) شروع ہو گئے۔ یہودیوں سے آزادی سلب کر لی گئی۔ اسرائیل کے بننے میں یہ واقعہ بہت اہم رہا ہے۔
روس سے یہودیوں کا اخراج شروع ہوا اور پہلی جنگِ عظیم تک پچیس لاکھ روس سے جا چکے تھے۔ کئی امریکہ گئے، کئی یورپ، کئی ارجینٹیا، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا اور کئی فلسطین۔ چونکہ یہ نئے ممالک میٰں اچانک وارد ہو جانے والا گروپ تھا، اس لئے انہیں نئی جگہوں پر خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ دوسری طرف، دنیا میں انیسویں صدی کا آخر وہ وقت تھا جب سلطنتیں گر رہی تھیں اور ان کی جگہ ممالک لے رہے تھے۔ دنیا سیاسی طور پر نئے طریقے سے منظم ہو رہی تھی۔ اینٹی یہودیت اور نیشنلزم نے صیہونیت کو جنم دیا۔ صیہونیت یہودیوں کے لئے الگ ملک کا مطالبہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر سوال کہ آخر زار کے قتل پر یہ یہودیوں کے ساتھ ہی کیوں کیا گیا؟ اس کے جواب کے لئے ہمیں اٹھارہویں صدی میں جانا ہو گا۔ روسی سلطنت توسیع پسندانہ تھی۔ اٹھارہویں صدی میں اس نے سب سے زیادہ جنگیں عثمانی سلطنت کے خلاف لڑیں تھی لیکن فارس اور مشرقی یورپ اور یورپی پاورز کے ساتھ بھی اس کی جنگیں ہوتی رہی تھیں۔ 1772 میں اس نے آسٹریا اور پروشیا کے ساتھ ملکر پولینڈ پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کو ان تینوں سلطنتوں نے بانٹ لیا۔ پھر یہ مزید تقسیم 1792 میں ہوا۔ یہاں پر جو حصہ تھا، یہاں یہودیوں کی بڑی تعداد صدیوں سے آباد تھی۔ یہاں رہنے والے آبادی اچانک سلطنت کا حصہ بن گئی۔ ان کا طرزِ زندگی مختلف تھا۔ اور یہ روسی اشرافیہ کے لئے تشویش ناک تھا۔ 1791 میں روسی ملکہ کیتھرین نے ان کا یہ حل نکالا کہ سلطنت کی مغربی سرحد پر ان کے لئے خاص علاقہ بنا دیا۔ اس علاقے کو Jewish pale of settlement کہا جاتا تھا۔ یہودی اس علاقے سے باہر نہیں رہ سکتے تھے۔ اور باہر رہنے کے لئے انہیں خاص اجازت نامے کی ضرورت تھی۔
روس نے انہیں “روسی” بنانے کے لئے قوانین بنائے۔ یہ پانبدی لگائی گئی کہ کونسے پیشوں میں جا سکتے ہیں۔ 1827 میں ان کے نوجوانوں کے لئے آرمی میں جانا لازم کر دیا، جہاں انہیں پچیس سال گزارنے ہوتے۔ ان کو روسی بنانے کے لئے سرکاری سکول 1841 میں بنائے گئے۔
ان سے صدیوں سے جاری روایتی یہودی معاشرتی سٹرکچر کمزور پڑ گئے۔ لیکن دوسری طرف یہ سوسائٹی کا باقاعدہ حصہ نہیں بن پائے۔ ان کو باقی شہریوں سے الگ طور ہی دیکھا جاتا تھا۔
اور چونکہ یہ تعصب مذہبی یہودی یا غیرمذہبی یہودی کے درمیان تفریق نہیں کرتا تھا، اس کا اثر یہ ہوا کہ یہودی کمیونیٹی خود، بطور کمیونیٹی، مضبوط ہوتی گئی۔ یہ صرف مذہبی شناخت نہیں رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس پس منظر میں روسی زار کا قتل ہوا تو قاتلوں کے گروپ میں سے ایک یہودی کے ہونے کے سبب تمام الزام اس کمیونیٹی پر آیا اور پوگروم شروع ہوئے۔ 1882 میں روسی حکومت نے قانون منظور کر لیا جس کے تحت یہودیوں پر زمین کی ملکیت پر پابندی لگا دی گئی۔ ان کے لئے رہائش کی جگہ بہت محدود کر دی گئی۔ دیہات میں رہنے پر پابندی لگا دی گئی۔
شہروں تک اور چند پیشوں تک محدود ہو جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دستیاب مواقع میں یہودیوں نے اپنی جگہ ڈھونڈ لی۔ جب روسی ریلوے 1850 سے 1870 کے درمیان بن رہی تھی تو ایجنٹ، اسسٹنٹ اور سپلائی کا کام ان کے پاس آ گیا۔ زراعت ان کے لئے منع تھی تو تجارت میں مہارت حاصل کر لی۔ شہروں میں ان کا تناسب بڑھنے لگا۔ 1860 میں وارسا میں 41,000 یہودی تھے۔ 1900 میں یہ 220,000 ہو چکے تھے۔ اوڈیسا میں پچیس ہزار سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ۔ دنیا بھر میں صرف چار فیصد یہودی زراعت سے وابستہ رہ گئے تھے جبکہ 75 فیصد کامرس، انڈسٹری اور پروفیشنل شعبوں سے۔ شہروں میں ہونے کا مطلب یہ بھی تھا کہ شہری سماجی اور سیاسی تحریکوں سے ان کا زیادہ واسطہ تھا۔ یہ شہروں میں رہنے والی مضبوط کمیونیٹی تھی، جو الگ شناخت رکھتی تھی۔ جب دنیا میں نیشلزم ابھرنا شروع ہوا تو یہ موافق حالات تھے جہاں پر ایک نیشنلسٹ تحریک بن سکتی تھی۔ اور یہ نیشنلسٹ تحریک صیہونیت تھی۔ اور اس کو سب سے بڑی کامیابی روسی یہودیوں میں ہوئی۔ اس کا مقصد یہودیوں کے لئے الگ ملک کا قیام تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید صیہونیت کا بانی تھیوڈور ہرزل کو کہا جاتا ہے۔ان کا تعلق ہنگری سے تھا اور انہوں نے نتیجہ نکالا تھا کہ یہودیوں کو اپنا ملک چاہیے جہاں وہ آزاد رہ سکیں۔ (ہرزل کی اپنی خاص دلچسپی فلسطین میں نہیں تھی۔ انہوں نے پہلے ارجنٹینا کی تجویز دی تھی اور بعد میں مشرقی افریقہ کی)۔
ہرزل کے خیال اور پیغام نے توجہ حاصل کی۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی صیہونی کانفرنس ہوئی جس میں دو سو شرکاء تھے۔ یہاں پر فلسطین کو اپنے ملک کی جگہ تجویز کیا گیا اور ہرزل تنظیم کے صدر منتخب ہو گئے۔
اگلے برسوں میں ہرزل پوری دنیا میں اس آئیڈیا کے حق میں عالمی سپورٹ حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتے رہے۔ عثمانی سلطان، جرمن قیصر، روسی اور برٹش سرکاری اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ صرف برٹش حکومت نے مدد کی حامی بھری۔ اور اس علاقہ مشرقی افریقہ کا تجویز ہوا جو برٹش کے زیرِ نگیں تھا۔ اس کو یوگنڈا سکیم کہا جاتا ہے اور یہ علاقہ “گواس گیشو” کا تھا جو برٹش کی مشرقی افریقہ پراکٹوریٹ کا پہاڑی علاقہ تھا۔ (آج یہ کینیا کا حصہ ہے)۔ ہرزل نے اس تجویز کو 1903 میں چھٹی صیہونی کانگریس میں پیش کیا، جہاں پر اسے قبول نہیں کیا گیا۔ خاص طور پر روسی یہودیوں کی طرف سے اس کی مخالفت آئی۔ صیہونی کانگریس نے اس سکیم کی حمایت کر دی لیکن اس پر صیہونی کانگریس میں اختلافات تھے۔ اس سے اگلے سال ہرزل کا انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر اس وقت چوالیس سال تھی۔ ساتویں صیہونی کانگریس 1905 میں ہوئی جہاں پر یوگنڈا پروپوزل کو مسترد کر دیا گیا۔ کانگریس میں فلسطین میں وطن کے مطالبے پر اتفاق کر لیا گیا تھا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر باسل میں منعقد ہونے والی صیہونی کانگریس کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply