سی ایم 400 اے کے جی ۔۔رانا اظہر کمال

اس میزائل کے بارے میں جاننے سے پہلے پاکستان کے تناظر میں بحری دفاع کی حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے۔ پاکستان کے جنوب میں قریباً 1000 کلومیٹر کا ساحل موجود ہے جس کے دفاع کی ذمہ داری پاک بحریہ کے سپرد ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اس پورے ساحل کی نگرانی اور دفاع کے لیے بحریہ کے محض آٹھ دس جنگی جہاز اور بمشکل پانچ آبدوزیں ہوا کرتی تھیں جنہیں مدد فراہم کرنے کے لیے پاک فضائیہ کے میراج فائیو طیاروں کا ایک سکواڈرن کراچی میں تعینات تھا جسے ایگزوسیٹ میزائلز سے لیس کیا گیا تھا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات، ہمارے روایتی دشمن کی بڑھتی بحری قوت کے مقابلے میں نہایت محدود دفاعی بجٹ کے باعث ہماری بحریہ بری طرح نظر انداز ہو رہی تھی۔ گوادر پورٹ کے قیام اور سی پیک کے آغاز نے یہ احساس دلایا کہ نیوی کی قوت میں اضافہ کیا جانا لازم ہے۔ اس کے بعد نیوی کو ایک مضبوط، مربوط اور منظم فورس بنانے کے لیے کام کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی بحری دفاع کے لیے تین ٹئیرز پر مشتمل نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔
الف۔ کوسٹل ڈیفینس
اس کے لیے پاکستان کی پوری ساحلی پٹی پر لانگ رینج، اوور دی ہورائزن ریڈارز کا ایک سلسلہ قائم کر کے “ضرب” اینٹی شپ کروز میزائلز کی بیٹریز تعینات کی گئیں۔
ب۔ ایریا ڈینائل/ لٹرل واٹرز ڈیفینس
پاکستان کے ساحل سے لے کر قریباً 300 کلومیٹر تک سمندری علاقے میں (جو ہمارا ابتدائی ایکسکلیوسیو اکنامک زون ہے) اس کی حفاظت کے لیے بحری جہاز یعنی کورویٹس کے حصول کا آغاز ہوا اور ساحل پر “حربہ” اور “بابر ون بی” اینٹی شپ کروز/ لینڈ اٹیک میزائلز کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی۔
ج۔ گرین ٹو بلیو واٹر ڈیفینس

ہماری بحریہ بہت چھوٹی ہے اور ہمارے کم وسائل اسے ایک بلیو واٹر نیوی بنانے میں حارج ہیں لیکن درپیش خطروں کے پیش نظر اسے اس سطح تک اپ گریڈ کیا جا رہا ہے جہاں یہ گرین اور بلیو واٹرز کے درمیان تک ملک کے دفاع کا فریضہ انجام دے سکے (مکمل بلیو واٹر نیوی فی الحال ہماری ضرورت نہیں)۔ ہمیں سب سے بڑا خطرہ بھارتی بحریہ سے ہے جو ایک بلیو واٹر نیوی ہونے کے ناتے ہماری سمندری ناکہ بندی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس ممکنہ ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے ہماری تیاریاں جاری ہیں جن میں آٹھ ٹائپ 039 بی سب میرینز، چار ٹائپ 054 اے پی فریگیٹس، دس لانگ رینج جیٹ انجن میری ٹائم سرویلینس ائرکرافٹ، سرفیس لانچڈ سپر سونک سی ایم 302 اینٹی شپ میزائلز اور ائر لانچڈ سپر سونک سی ایم 400 اے کے جی میزائلز کا حصول شامل ہے۔ اس کے علاوہ نیوی اور ائر فورس کے درمیان پہلے سے زیادہ تعاون اور مربوط کارروائی کا ایک نظام وضع کیا گیا ہے جس میں بحریہ کے میری ٹائم سرویلینس طیاروں کے علاوہ فضائیہ کے زی ڈی کے 03 قراقرم ایگل اواکس طیارے فضائی اور سمندری نگرانی جبکہ جے ایف 17 تھنڈر طیارے عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ جس طرح پاک فضائیہ ملک کی فضائی نگرانی کے لیے ایک جامع نظام استعمال کر رہی ہے، اسی طرح بحریہ نے بھی ریڈارز، سینسرز، سمندر اور فضا میں میں اپنے اثاثوں سے معلومات لینے اور ہدایات دینے کے لیے ایک مکمل سی فور آئی “نیول انفرمیشن ایکسچینج سسٹم” ترک کمپنی “مِل سوفٹ” کی مدد سے نصب کیا ہے جس کے ذریعے سمندری حدود کی رئیل ٹائم نگرانی کی جاتی ہے۔
بحریہ کو جن میزائلوں سے مسلح کیا جا رہا ہے، ان کی بنیادی اقسام یہ ہیں:
الف۔ روایتی سب سونک اینٹی شپ میزائل جیسے ہارپون، ایگزوسیٹ، سی 602، سی 801، سی 802 وغیرہ۔ یہ میزائل پہلے سے پاک بحریہ کے زیر استعمال ہیں اور سطح آب، زیر آب اور فضا تینوں سے مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے لانچ کیے جا سکتے ہیں۔
ب۔ نئی دفاعی حکمت عملی میں کوسٹل ڈیفینس اور لٹرل واٹرز ڈیفینس کے لیے ضرب، حربہ اور بابر ون بی کروز میزائلز انڈکٹ کیے گئے جو سی سکمنگ/ ٹیرین ہگنگ خصوصیات کے ساتھ ساتھ اینٹی شپ اور لینڈ اٹیک دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
ج۔ اسلحہ سازی میں ہونے والی ترقی میزائل ڈیفینس سسٹمز کی بڑھتی ہوئی افادیت نے چونکہ سب سونک میزائلز کی انٹرسیپشن کو پہلے کی نسبت آسان بنا دیا ہے اور دوسری جانب بھارتی بحریہ نے روس کے ساتھ مل کر براہموس سپر سونک کروز میزائل ڈویلپ کر کے اس کی اپنے بحری اثاثوں پر تنصیب کر لی ہے تو اس خطرے کے مقابلے کے لیے پاک بحریہ نے سی ایم 302 اور سی ایم 400 اے کے جی قسم کے سپر سونک میزائل انڈکٹ کیے ہیں۔ سی ایم 302 ایک انٹیگریٹڈ راکٹ بوسٹر+ ریم جیٹ انجن کا حامل کروز میزائل ہے جسے زمین، سطح آب اور فضا تینوں پلیٹ فارمز سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔

سی ایم 400 اے کے جی
دنیا بھر میں عموماً اینٹی شپ رول کے لیے سب سونک یا سپر سونک کروز میزائل استعمال ہوتے ہیں لیکن تین ممالک ایسے ہیں جنہوں نے کروز میزائل کے ساتھ ساتھ بیلسٹک یا کوائزائی بیلسٹک میزائل کو اینٹی شپ رول کے لیے چنا ہے۔ یہ تین ممالک چین، پاکستان اور اسرائیل ہیں۔ اس کی ابتدا چین نے سن 2000 کی دہائی میں کی تھی جو بہت زیادہ طویل فاصلے تک مار کرنے کے لیے ڈی ایف 21 اینٹی شپ بیلسٹک میزائل استعمال کرتا ہے۔ چینی کمپنی “چائنا ایرو سپیس سائنس اینڈ انڈسٹری کارپوریشن” میں جس وقت سی ایم 302 ریم جیٹ میزائل کی ڈویلپمنٹ جاری تھی تو اس کے راکٹ بوسٹر اور چین کے ایک سرفیس ٹو سرفیس میزائل ایس وائے 400 کی ٹیکنالوجی کے ملاپ سے ایس 400 کو ڈویلپ کیا گیا۔

یہ میزائل 900 کلوگرام وزنی ہے جس میں ٹھوس ایندھن سے چلنے والی راکٹ موٹر نصب ہے جو بہت زیادہ فیول ایفیشئینٹ ہونے کے باعث اسے 250 کلومیٹر کی رینج فراہم کرتی ہے۔ اینٹی شپ کروز میزائل اپنے سفر کے آخری حصے میں سطح آب سے ایک دو میٹر کی بلندی پر اڑتے ہوئے اپنے ہدف سے ٹکراتے ہیں جبکہ سی ایم 400 کا “طریقہ واردات” مختلف ہے۔ اسے لانچنگ پلیٹ فارم مثال کے طور پر جے ایف 17 سے فضا میں فائر کیا جاتا ہے اور یہ کوائزائی بلیسٹک آرچ بناتا ہوا اپنے ہدف کی طرف بڑھتا ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ اگر جے ایف 17 نے اسے 20000 فٹ کی بلندی سے لانچ کیا تو طیارے کو چھوڑنے کے بعد یہ میزائل چند سیکنڈ تک سیدھا جائے گا اور پھر اس کا رخ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلندی کی جانب ہو جائے گا۔ 35000 فٹ پر جا کر میزائل خود کو ہدف کی طرف موڑ لے گا۔ واپس نیچے کی جانب آتے ہوئے جسے ٹرمینل سٹیج کہا جاتا ہے، اس کی رفتار ماک 4 سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ (بلندی کے یہ اعداد صرف مثال کے لیے دیے ہیں، اصل معلومات کلاسیفائیڈ ہیں) اس طرح تقریباً 5000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے نیچے آتے ہوئے یہ میزائل اپنے ہدف سے ٹکرائے گا۔ اس کا 200 کلوگرام کا وار ہیڈ (بلاسٹ فریگمینٹیشن اینڈ پینیٹریشن) جو دھماکا کرے گا، وہ تو الگ ہے لیکن 900 کلوگرام کا حجم اور 5000 کلومیٹر کی رفتار جو مومینٹم پیدا کریں گے، اس کا امپیکٹ ہی ہدف کے ڈیک سے لے کر پیندے تک میں بہت بڑا خلا پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اسی وجہ سے اس میزائل کو کیرئر کِلر کا نام دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سی ایم 400 کو پاک فضائیہ کے جے ایف 17 طیاروں کے ساتھ انٹیگریٹ کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جنگ کی صورت میں بھارتی بحری بیڑہ ہمارے ساحلوں سے ایک ہزار کلومیٹر دور رہ کر بھی سمندری ناکہ بندی کرنے کی کوشش کرے تو اس کا موثر علاج کیا جا سکے۔ سی ایم 400 کو لانچ کرنے والے طیارے کے علاوہ ساحلی ریڈارز، کھلے سمندر میں موجود ہمارے جنگی بحری جہازوں کے ریڈار، میری ٹائم سرویلنس طیاروں یا قراقرم ایگل اواکس طیاروں کے ریڈار کے ذریعے بھی کنٹرول اور گائیڈ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میزائل کا اپنا ٹرمینل سیکر بھی ہے جو انفراریڈ امیجنگ اور ایکٹیو ریڈار ہومنگ کے ذریعے اپنے ہدف کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرح یہ میزائل صحیح معنوں میں ایک سٹینڈ آف ویپن ہے جو اپنے لانچنگ پلیٹ فارم کو دشمن کی رینج سے باہر رکھ کر اپنا کام خود انجام دیتا ہے۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply