• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ملالائی بے سروپائی اور غیرت کے تن تنہا ورثاء۔۔حسان عالمگیر عباسی

ملالائی بے سروپائی اور غیرت کے تن تنہا ورثاء۔۔حسان عالمگیر عباسی

ملالہ قوم کا فخر ہے یا قوم کا فخر مسلنے والا کردار ہے، سے پہلے یہ سمجھنا زیادہ مناسب ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ بادامی مٹی میں آنکھ کھولنے اور پلنے والی بندی گوری خاک میں اڑان بھر رہی ہے۔ اس کی سٹیٹمنٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر پکڑی جا رہی ہے ،یا سیاق و سباق کے سمجھنے کے بعد بھی یہ کردار پکڑ میں آ رہا ہے؟ سے زیادہ اس یقین کی پختگی اہم ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی نظام کی جڑوں کی مضبوطی ایک سٹیٹمنٹ سے کبھی کمزور نہیں ہو پائے گی جب تک غیرت کی تعریف نکاح کے بعد ازدواجی زندگی کی پاکیزہ شروعات مانی جاتی رہے گی۔

ایک غیر مناسب اور بے سر و پا شرلی کو اہمیت دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کہ غیرت ابھی جاگ رہی ہے کسی بھی طرح مقابلہ جیتنے کی نوید نہیں ہے۔ بِنا ناکوں چنے چبوائے اور دانت کھٹے کیے بھی جنگیں جیتی جا سکتی ہیں مثلاً خاندانی نظام جب تک مضبوط ہے یہی دراصل جیت ہے اور ردِعمل اور الفاظ سے دفاع کی شاید اتنے بڑے پیمانے پہ ضرورت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر خاندانی نظام مضبوط ہی نہیں ہے اور شکست تسلیم کر لی ہوئی ہے تب بھی الفاظ کی مدد سے شکست کو فتح میں نہیں بدلا جا سکتا۔ یہ دراصل عمل کی دنیا ہے جہاں الفاظ کی زیادہ وقعت نہیں ہے۔ اعمال اقوال سے زیادہ اونچا بول لیتے ہیں۔ لمبی تقریر سننے والے اگر خاندانی نظام کا سودا کیے ہوئے ہوں تو بے سود ہے اور اگر خاندانی نظام کی مضبوطی روز روشن کی طرح عیاں ہے تو یہی وہ قوی دلیل ہے جسے الفاظ کے سہارے کی اتنے بڑے پیمانے پہ اب مزید شاید ضرورت نہیں ہے۔

ایک جوان شخص کے قول سے زیادہ فعل اس کے دعوے کی مضبوطی ہے۔ ہاں ایک بچے کو دو اضافی ٹانگوں اور بوڑھے کو تیسری ٹانگ درکار ہوتی ہے۔ جب خاندانی نظام مضبوط ہے اور دو پاؤں پہ کھڑا ہے تو ملالہ کی بے سروپائی ہٹے کٹے کو لنگڑا نہیں بنا سکتی۔ جب عملی دلیل دے دی ہوئی ہے اس کے بعد غیر اہم ایشو کو الفاظ کی مدد سے بنیاد دینے والے اپنی اہمیت اور ساکھ میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ عملی دنیا میں وقت کا ضائع ہونا مانع ہے۔ ایک کامیابی کئی بہاروں سے سمیٹتے آرہے ہیں کو ثابت کرنا اتنا بھی ضروری نہیں ہے جتنا ٹیلنٹ کیسے بھاگ رہا ہے کو روکنا اہم ہے۔ ملالہ جھمیلا اگر ڈرامہ سیریل  تھا تو یہ سوچنا ضروری ہے بڑے دماغ کیسے چھوٹے دماغوں کو ٹال مٹولنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بجائے یہ سوچنے کہ ملالہ کو ہم کیسے کھڑا نہ کر پائے لہذا آنے والوں کو کھڑا کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی کامیابی کے پیچھے بھوری مٹی کے باشندوں کا ہاتھ ہو پر جو ان کے ہاں اڑان بھر چکی ہے پہ فکرے کس کے وقت کا ستیاناس کیا جارہا ہے۔ وقت کی بربادی سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ وقت کا غلط استعمال کیا جارہا ہے جو نتائج کے اعتبار سے صفر درجے پہ فائز ہے۔

اب یہاں تک بات پہنچ چکی ہے کہ ملالہ کی پارٹنرشپ کی خواہش کو بنیاد بنا کے ایک دوسرے کی گھر کی خواتین کو چوک چوراہوں میں برہنہ کرنے کی غلیظ جسارت ہو رہی ہے یعنی یک نہ شد دو شد۔ ملالائی بے سروپائی سے جن کی غیرت مچل رہی تھی ان کی بے سر و پا باتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک کو بچانے کے چکر میں باقی ماندہ عزتوں کی رسوائی بھی دے بیٹھنا عام ہوتا نظر آرہا ہے جسے سمجھنا عام فہم ہے کیونکہ یہاں یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ملالہ کی پارٹنرشپ کے حق میں دلائل گھڑنے والے اپنی بچی یا گھر کی عورت سے آغاز کریں حالانکہ پارٹنرشپ کے حق میں ہونا یہاں عملی طور پہ ممکن ہی نہیں ہے اور اسی لیے الحمدللہ ایسا دیکھنے کو بھی نہیں ملا کیونکہ یہاں نکاح ایک اہم روایت ہے جس پہ سب کا اندھا ایمان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بجائے پردیسی بے سر و پا باتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور غیرت کے اکیلے وارثین مہرے بن جاتے سے بہتر ہے کہ مہربانی فرما کے خاندانی نظام کی کامیابی پہ شکر بجا لائیں اور اس کامیابی کو ثابت کرنے کے لیے الفاظ کی مدد لی جائے سے بہتر ہے ان الفاظ کو آنے والی ملالاؤں کو بھیڑیوں سے بچانے کے لیے کیا کچھ ہو سکتا ہے کے لیے استعمال کریں کیونکہ الفاظ بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ لفظ ملالہ کو مارے جانے والا کوڑا یا پتھر نہیں ہے بلکہ اس کا استعمال مفید ہونا چاہیے اور مفید تب ہو گا جب اس کے ذریعے سے شکر بلند ہو گا اور آنے والے حالات کے جائزے کے بعد خطرات سے آگاہی اور کامیابی پانے کے لیے مشوروں اور تجاویز دی جانے لگیں گی۔ کچھ تحاریر میں ملالہ کو قوم کی بیٹی سمجھ کر گزارشات کی گئی ہیں۔ زبیر منصوری صاحب کی تحریر اس بابت کئی حوالوں سے اہم ہے۔ بھٹکنے والے کو بے گانگی و بے اعتنائی نہیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply