امامت۔۔سانول عباسی

آج ایک محترم دوست کی وال پہ ایک واقعہ پڑھا تو یادوں کے گلستان میں مہکتے ایک پھول  نے  ذہن و دل کو معطر کر دیا۔

کوئی شاید 2010 کے الوداعی یا 2011    کے شروع   دنوں کا واقعہ ہے ،دن اور تاریخ ذہن سے محو ہو چکے ہیں، ہمیں عرب سر زمین پہ آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، کہ ہماری پہچان مذہبی اجارہ داروں کے خلاف اپنی جگہ بنا چکی تھی، ایک تو خالص دیہاتی ماحول میں جوان ہوئے ،پہلوانی چھوڑے ابھی   لگ بھگ چار سال ہوئے تھے، کسرتی جسم ،جوان خون اوپر سے کتابوں کے انبار جو دیمک کی طرح چاٹ رکھے تھے، ہمہ وقت اٹھائے پھرتے، موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کب کوئی موقع ملے اور ہم ان کتابوں کو انڈیل کے اپنی دھاک بٹھائیں ، لہجے میں  مناظرانہ تلخی و شدت پسندانہ سوچ کا غلبہ تھا، گفتگو کا اسلوب بلا کا سخت ،عجیب تحکمانہ اندازِ تخاطب اور کرخت لہجے  سے مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرتے، تو جیسا بھی کڑیل قسم کا مخالف  ہوتا، ایک بار تو دب جاتا اور جب کوئی ایک بار ہم سے ڈر گیا تو اسے پھر  گھر پہنچا کے ہی دم لیا ۔

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب ہم ایک خاص  قسم کے  زعمِ باطل کا شکار تھے،  جب ہم خود کو عقلِ کُل سمجھتے تھے اور میرا خیال ہے کہ ابتدائی دنوں میں جب انسان نیا نیا کچھ سیکھتا ہے تو اپنے آپ میں اس قسم کی یکتائی محسوس کرتا ہے، مگر جیسے جیسے کائنات اس کے سامنے کھلتی چلی جاتی ہےتو  اس پہ اسکی لاعلمی آشکار ہوتی چلی جاتی ہے، اور اسے احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ جاننے کا دعوے دار ہے وہ علمی حوالے سے مچھر کے پَر کے برابر بھی نہیں اور الحمد اللہ  بہت جلد ہم پہ بھی  رب العالمین کا خاص کرم ہوا، اور یہ آشکار ہوا کہ ہمارا یہ زعم  فقط خیالِ باطل کے سوا کچھ بھی نہیں،  اگر ہم کچھ سیکھنا آگے بڑھنا  چاہتے ہیں تو اس باطل خیال کو زندگی بھر کے لئے دفن کرنا پڑے گا۔

دیارغیر میں  جمعہ کی نماز کا وقت تھا ،مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی اور صرف پاکستانی نہیں تھے بلکہ مختلف  کمیونٹی کے لوگ تھے ،عرب، بنگالی، پاکستانی، مصری، اور انڈونیشین سبھی اپنی اپنی کمیونٹی گروپ بنائے بیٹھے تھے اور ہم چونکہ ایک خاص مذہبی ذہن رکھتے تھے اور بغیر داڑھی والے نئے نئے مولوی مشہور ہوئے تھے، تو پہلی صف میں بالکل امام کے مصلے کے پیچھے براجمان تھے اور نہ جانے کون سے خیالوں میں مستغرق تھے کہ آواز آئی، آج  امام صاحب  نہیں آئے اور نماز کے لئے آج مقتدیوں میں سے ہی کسی کو یہ فریضہ انجام دینا ہو گا، وہاں موجود منتظمین نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا مگر سر جھکا لیا۔

اکثر مساجد کے منتظمین انتہائی سخت ہوتے ہیں، وہ سری نمازوں میں تو کسی کو سامنے آنے ہی نہیں دیتے بلکہ خود ہی ایک دوسرے کی ملی بھگت سے امامت پہ ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں مگر جہری نمازوں میں انکی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی رضاکار یہ فریضہ سرانجام دے ،سری نمازوں میں تلاوت اونچی آواز میں نہیں بلکہ بالکل دھیمے انداز میں کرنی ہوتی ہے تو ان کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، سورة الكوثر سورةالاخلاص سے کام چل جاتا ہے مگر جہری نمازوں میں تلاوت اونچی آواز میں کرنی ہوتی ہے، تو چھوٹی  سورتوں کی تلاوت میں سبکی محسوس کرتے ہیں، تو اس وقت ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اور یہ فریضہ انجام دے اور ان کا پردہ رہ جائے ۔

مسجد کے منتظمین نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور سر جھکا لیا، ان میں سے ایک بندے نے ایک عربی النسل سے گزراش کی لیکن اس نے ہماری طرف اشارہ کر کے کہا

“for today Imam, ask him”

اور ہمارے بات بے بات مذہبیوں سے بحث مباحثہ اور کبھی کبھار مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھانے کو بنیاد بناتے ہوئے امامت کا قرعہ ہمارے نام نکال دیا گیا ،پھر کیا تھا اٹھتے تو ٹانگیں کانپنے لگتیں بولتے تو زبان لڑکھڑانے لگتی، مزے کی بات ۔۔خطبہ عربی میں دینا تھا اور پھر اس عربی کی  انگلش میں ترجمہ و تشریح بھی کرنی تھی ،خدا خدا کر کے خطبہ دیا اور چونکہ نماز پڑھانے کاکچھ تجربہ تھا تو نماز پڑھاتے ہوئے کچھ آسانی رہی ،نماز پڑھائی اور دل ہی دل میں خود کو کوستے رہے اور شرمندگی کا  ایک   پہاڑ دل پہ آ گرا کہ ویسے تو ہم خود کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں اور جب وقت آیا تو حالت یہ کہ جیسے موت کا فرشتہ سر پہ مسلط ہو گیا ہو۔ پھر کیا تھا اس دن کے بعد ایک اگلے جمعہ تک  جتنے ہمارے قدر دان تھے  ہمیں ایسی نظروں سے دیکھتے کہ لگتا آنکھوں ہی آنکھوں میں سنگسار کر دیں گے ،مگر ہم نے  اگلے جمعہ کی نماز پہ امام صاحب سے گزارش کی یہ جمعہ ہم  خود پڑھائیں گے، ایک تو شرمندگی کے احساس  نے پورا ہفتہ پریشان رکھا ،دوسرا قدردانوں کی نظروں نے ہمت بندھائی  اور کچھ نا کچھ ساکھ بحال ہوئی، قدردان کچھ سیخ پا تو ہوئے کہ یہ جمعہ بھی خراب کرانا ہے کیا ؟مگر وقت و موقع کی نزاکت نے ہمارا ساتھ دیا ،اور رب العالمین کے فضل و کرم نے بہت  رحمت   کی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اس دن اپنے مسلمان ہونے پہ انتہائی شرمندگی محسوس ہوئی ،یہ وہ بنیادی ضروریاتِ دین  ہیں جن سے اکثر ہمارا سامنا رہتا ہے  اورہم  ان بنیادی ضروریاتِ دین سے بےبہرہ ہوتے ہیں ۔ میرا ماننا ہے کہ ہر مسلمان کو اس حوالے سے ہمہ وقت  تیار ہونا چاہیے کہ وقت آئے تو بغلیں جھانکنے کی بجائے   اللہ کا نام لے کے سامنے  کھڑے ہو جائیں ۔

 

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply