آتمان۔۔ مختار پارس

مجھے وہ درخت بہت پسند تھا۔ اس کی چھاؤں ٹھنڈی تھی اور اس پر بہت سے پرندے بولتے تھے۔ ایک دن وہ درخت کاٹ دیا گیا۔ جب وہ درخت کاٹا جا رہا تھا تو میں نے منہ پھیر لیا ۔ وہ درخت میرا نہیں تھا۔ پھر بھی مجھے اس کے کٹ جانے کا افسوس تھا۔ وہ درخت میں نہیں تھا، پھر بھی میں خود دھڑام سے گر پڑا۔ وہ درخت کسی کا نہیں تھا، مگر اپنے ہونے کے مقام کو ویران کرگیا۔ میں اس درخت کو سوچتا نہیں تھا، مگر اس کے اچانک نہ ہونے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ دکھ صرف چھاؤں کے ختم ہونے کا نہیں ہوتا۔ رنج یہ ہوتا ہے کہ کبھی کچھ ایسا نہیں ہو سکتا جو موجود کو ناموجود ہونے سے روک سکے۔ قیامت ایک نہ ایک دن ضرور ٹوٹتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد ناموجود کٹ جانے کے باوجود آنکھوں کے سامنے سے کبھی ہٹتا ہی نہیں۔

جسم کو صرف ٹانگیں سہارا نہیں دیتیں۔ جسم کو سہارا زندگی سے ملتا ہے اورزندگی کو سہارا آنکھیں دیتی ہیں۔ دیکھنے کی سکت کا تعلق خواہشِ قلب کے نخلستان سے ہے۔ لفظ تو درختوں پر لگے پتوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ہوا کے زور سے جب وہ بے سروساماں ہو کر گرتے ہیں تو ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن اشجار نظریات کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے پتے جھڑ بھی جائیں تو ان کی حیثیت کم نہیں ہوتی۔ جن کی حیثیت کم نہ ہو رہی ہو، انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ دیکھنے والا جاں بلب ہو کر منہ تو پھیر سکتا ہے مگر انہیں بھول نہیں سکتا۔ نظریات صرف اس وقت نظروں سے گرتے ہیں جب وہ دل کی دھڑکن سے زیادہ شور کرنے لگیں۔ شورِ قیامت میں سر دھننے والے نہیں جان سکتے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظریں اشجرِ اخضر پر نہیں مقصدِ احقر پر جمی ہوتی ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ کتنے لوگ ہیں جو سوچ کو گھٹنوں کے بل گرتا دیکھ کر منہ پھیر رہے ہیں۔ ان کو اس عمل سے روک دینا اس بات کی ضمانت نہیں کہ چھاؤں باقی رہے گی۔ سایہ اسی وقت رخصت ہو جاتا ہے جب سورج عین سر پر آ جاتا ہے۔

ہمیں ان ساعتوں کے پاس جانے کا رستہ ڈھونڈنا ہے جو وقت کی قید سے آزاد رہتی ہیں۔ ہمیں کوہِ گراں کے اس پار موجود گاؤں سے اٹھتے ہوۓ دھوئیں کو دیکھنا ہے اور سرمئی دھندلکوں میں خود کو تحریر کرنا ہے۔ ہمیں وہ سب سن کر سمجھنا ہے جسے سماعتوں کا قربِ یقیں میسر ہی نہیں۔ بجلی کڑکتی ہے تو دل آواز سے پہلے دہل جاتا ہے کہ فلک شگاف تارِ حزیں آسمانوں سے اتر کر کسی کے نازِ جبیں پر نہ گر پڑے۔ حادثے خواہشوں میں الجھے ہوۓ در و دیوار کو یوں ڈھونڈتے ہیں جیسے انہیں نہ گرایا تو کسی کی خواہش خود ان کے سروں پر تلوار بن کر برس پڑے گی۔ ہر نفس کے ذمہ آتمان کے مان پر جان وارنا ہے اور بھول جانا ہے۔ مرنے والے کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس کے دکھ کی جھیل میں کن آنکھوں کے کنول کھل اٹھیں گے۔ اگر جھیلوں کو پتہ ہو کہ چاندنی ان کے خاموش پانیوں پر پھولوں کی چادر تان کر بکھرنے والی ہے تو وہ کسی کنکر کو اپنے اندر بھنور بنانے کی اجازت ہی نہ دیں۔ دریا کو اپنے سوکھ جانے کا ڈر تو ہوتا ہے مگر اس کی خبر نہیں ہوتی۔ پہاڑوں کا ٹوٹ کر گرنے کا ارادہ نہیں ہوتا مگر انہیں روئی کے گالوں کی طرح اڑنے سے انکار کی اجازت نہیں۔

یہ احساس گمراہ کن ہے کہ ہم سب کو اور سب ہمیں جانتے ہیں۔ اس خاکدان میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ جو شخص اس بات کو نہیں مانتا، وہ تا بہ ابد اس احساس میں غلطاں رہے گا وہ جانت ہے۔ اس دعوے کے کارن وہ اپنی جستجو کو مار بیٹھتا ہے اور اس کے ادراک کے ہر روزن سے اژدھے نمودار ہو جاتے ہیں جو نہ مارتے ہیں اور نہ مرتے ہیں۔ موت کے ساتھ امید کی وابستگی بہت ضروری ہے۔ کوئی بند گلی کسی حقیقت کی طرف نہیں لے کر جا سکتی۔ منزل تک وہی پہنچ سکتا ہے جو یا تو قوتِ پرواز رکھتا ہے یا زمیں کو چیر کر اس کے اندر جانے کی سکت رکھتا ہے۔ قوتِ پرواز صرف روح میں ہے اور زمین کے اندر صرف جسم جا سکتے ہیں۔ خاک کا حصہ بن جانے والے ہر بیج نے پھر پھوٹنا ہے اور پرواز کرنے والی ہر روح نے پھر سے جنم لینا ہے۔ موت کے بعد بھی کوئی موت ہو گی یا نہیں، اس بابت معلوم نہیں۔ درخت کٹ جانے کے بعد بھی سر اٹھا سکتا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حقیقت کو بیان کرنا حقیقت سے زیادہ پُراثررہتا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ہو جانے والا قتل کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس قتل کی تفسیر البتہ زمانوں کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ حادثے بلا وجہ نہیں ہوتے۔ ہر واقعہ کسی داستان گو کی تلاش میں رونما ہوتا ہے۔ اگر لفظ سانس لینے کے قابل ہو جائیں تو پھر کردار کبھی نہیں مرتے۔ مقصدِ زیست، داستانِ عشق میں الجھ کر حاصلِ زیست کو بیان کرنا ہے۔ کوئی اس کہانی کا کردار ہو یا اس کا لکھنے والا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق اس وقت پڑتا ہے جب کہانی کے کردار اس بات کے داعی ہو جائیں کہ یہ کہانی کسی نے نہیں لکھی اور یہ کہ وہ ناگہاں وجود کے شورِتخلیق سے آوازِ نو بن کر خود بخود کہہ دیے گئے ہیں۔ جسم میرا ہو سکتا ہے، مگر آواز نہیں۔ میرے اندر کوئی اور بولتا ہے۔ میں کسی اور کا لہجہ ہو سکتا ہوں مگر یہ طاقتِ گفتار میری نہیں۔ آنکھیں میری ہو سکتی ہیں، ان میں پھیلا کاجل بھی میں ہو سکتا ہوںِان کو جھپکنا بھی میرا عمل ہے، مگر ان آنکھوں میں جو محبت نظر آتی ہے، وہ میں نہیں ہوں۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply