• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ہم جنس پرستی کے حق میں بل پاس ہو جائے گا؟۔۔راجہ محمد احسان

کیا ہم جنس پرستی کے حق میں بل پاس ہو جائے گا؟۔۔راجہ محمد احسان

وطنِ عزیز میں ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان واقعی قابلِ تشویش ہے۔ ہم جنسی پرستی صدیوں سے کہیں نہ کہیں ,کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے  لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے اسے ایک منظم طریقے سے پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ برائی کو پروان چڑھانے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ اس کا ابلاغ ہے ۔ اس برائی کی پہلے پرنٹ  میڈیا میں اور پھر  الیکٹرانک  میڈیا میں اس طرح سے رپورٹنگ کی گئی  کہ جیسے رپورٹنگ کرنے والے اسے جرم سمجھتے ہیں اور ایسے قبیح فعل میں ملوث ہونے والے افراد کے جرم کی رپورٹنگ کر رہے ہیں (خصوصاً اغلام بازی اور امرد پرستی) ۔

پچھلی صدی کے اردو شعراء کا بھی اس میں کافی حصہ ہے جنھوں نے اپنی شاعری کے کرشمے لڑکوں اور لونڈوں کی محبت میں دکھائے۔ خیر اس کے بعد ایسی محبتوں کا تذکرہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ناولوں اور قصے کہانیوں میں ہونے لگا اور پھر ایک قدم اور آگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹنگ کے بعد ڈراموں اور فلموں میں بھی یہی سب  دکھانے کی کوشش کی گئی ۔

انسانی نفسیات ہے کہ جس   چیز کا تذکرہ بار بار اس کے سامنے کیا جائے اور خصوصاً اسے کر کے دکھا دیا جائے (جیسا کہ فلموں اور ڈراموں میں کر کے دکھایا جاتا ہے) تو وہ باتیں اس کے لاشعور کا حصہ بننے لگتی ہیں، اُن باتوں کا وہ عادی ہونے لگتا ہے اور اس سے نفرت کم ہونے لگتی ہے اور جن لوگوں کا اس طرف پہلے سے رجحان ہوتا ہے اسے کرنے پر دلیر ہونے لگتے ہیں۔

ہماری اپنی زندگیوں میں ایسی بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جن کے بارے میں آج سے تیس سال پہلے تک ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن اب انہی باتوں کے لئے ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ہم جنس پرستی کے حوالے سے انکل ٹام پاکستان میں اپنے اہداف تقریباً حاصل کر چُکا ہے ۔ ہر دوجنس میں یہ خوب پھل پھول رہی ہے۔ خصوصاً کالج کے لڑکے لڑکیوں میں یہ بہت عام ہے اور ہاسٹلز کا تو   پوچھیں ہی مت۔

ہمارے سیاست دانوں ، فلمی اور ٹیلی ویژن کے ستاروں ، اداکاروں   اور کھلاڑیوں میں یہ بیماری اب بہت عام ہو چکی ہے بس اسے قانونی شکل دینا فی الحال کافی مشکل ہے، لیکن اسے انفرادی طور پر اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ،بلکہ فرد کا ذاتی فعل کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ “میرا جسم میری مرضی” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تا کہ اسے قانونی شکل دینے کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔

غیرفطری اور غیرانسانی حرکات میں اب ہم جنس پرستی سے ایک قدم آگے بڑھایا جا رہا ہے ،الیکٹرانک میڈیا میں محرم رشتوں کے معاشقے دکھائے جا رہے ہیں، اور لوگوں کو جنسی تسکین کے لئے رشتوں کے  تقدس کو پامال کرنے کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔ باپ بیٹی، سسر بہوں، بہن بھائی اور سالی بہنوئی کی جنسی محبت کے واقعات رپورٹ ہونا شروع ہو چکے  ہیں اور بہت سے واقعات محلہ گزٹ کے ذریعے ہماری سماعتوں تک پہنچ چکے ہیں اور آپ جانتے ہی ہیں کہ پاکستان میں ایسے واقعات کی رپورٹنگ اور ایسے رازوں سے پردہ اٹھنے کی شرح کیا ہے۔ ان سے کہیں زیادہ ایسی گپت محبتیں بھی ہوں گی جو سینوں میں دفن ہیں۔

حکومتوں کی ان معاملات میں پشت پناہی کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، آخر کو سنسر بورڈ ہم نے کس لئے بنا رکھے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کا آخر کیا کام ہے۔ لیکن اس مقتدر حلقے نے اپنے کان، آنکھیں اور زبانوں پہ   قفل لگا رکھے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بڑھتی فحاشی کیخلاف موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ وہ دن دور نہیں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی کے حق میں بل پاس کروا  لیا جائے گا۔

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply