امتحان کی تیاری کیسے کی جائے۔لئیق احمد

قدیم چین دنیا کی وہ پہلی ریاست تھی جس کے شاہی خاندان “سوئی” نے اپنے دور حکومت میں امتحانات لینے کا آغاز کیا ان امتحانات کا مقصد اس وقت صرف حکومت کے مختلف عہدوں پر بہترین لوگوں کی تعیناتی تھا، لیکن دنیا کے بیشتر تعلیمی اداروں میں جو موجودہ امتحانی نظام رائج ہے اس کا آغاز یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسباق جو طلبہ پورا سال پڑھتے ہیں ان اسباق کو دہرانے میں طلبہ سستی کا شکار نہ ہوں اور ان امتحانات سے طلبہ کی تحریری صلاحیتیں بھی کھل کر اجاگر ہو سکیں ۔

ماہرین نفسیات بھی اس امتحانی نظام کو طلبہ کے لیے مفید قرار دیتے ہیں اور اس کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ امتحان دینے کا سب سے بڑا فائدہ طلبہ کو یہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا علم ہو جاتا ہے اور امتحان کی تیاری کرنے سے وہ اسباق ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے سال بھر کی محنت ضائع ہونے سے محفوظ ہو جاتی ہے۔اسکول ہو کالج یا یونیورسٹی ہر ادارے کے طلبہ کے ذہن میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم امتحان کی تیاری کیسے کریں ۔

یہ تحریر انشاءاللہ نوجوانوں کے ایسے ہی سوالوں کا جواب مہیّا کرے گی، نوجوانوں کو پیپر کی تیاری کے حوالے سے درج ذیل نکات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
1۔ انسانی دماغ کسی بھی نتیجے پر حواس خمسہ کی دی ہوئی اطلاعات کی مدد سے پہنچتا ہے ،جس طرح دماغ حواس خمسہ کی اطلاعات کا محتاج ہے اسی طرح حواس خمسہ کا کام بھی صرف اطلاعات پہنچانا ہی ہوتا ہے، اس ضمن میں صرف ایک مثال دیکھ لیں جیسے آنکھ کا کام صرف ویڈیو ریکارڈ کر کے دماغ کو پہنچانا ہوتا ہے آنکھ خود یہ فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی کہ جو نظارہ میں دیکھ رہی ہوں وہ خوبصورت ہے یا نہیں یہ فیصلہ دماغ اطلاعات کو پا کر ہی کرتا ہےیعنی اگر تمام حواس کسی ایک ہی بات کی اطلاع دے رہے ہوں تو وہ بات دیر تک حافظے میں محفوظ رہتی ہے، اس لیے طلبہ کو سبق بلند آواز میں یاد کرنا چاہیے، آواز کے ساتھ سبق پڑھنے کا طلبہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ یاد کرنے میں ہمارے تینوں حواس آنکھ زبان اور کان استعمال ہوں گے اور جو بات تین حواس کے ذریعے دماغ تک پہنچے گی انشاللہ جلد یاد ہوگی۔

2۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ ہماری زبان میں ایک memory box ہوتا ہے اگر ہم کچھ بھول بھی جائیں تو وہ ہماری زبان کو ضرور یاد رہتا ہے ،مثلاً ایسا کئی دفعہ ہوتا ہے جب ہم امتحانات میں لکھتے لکھتے کچھ بھول جاتے ہیں اور ذہن پر بہت زور دینے پر بھی وہ الفاظ ذہن میں نہیں آ رہے ہوتے تو ہم پورا پیراگراف منہ میں ایک دفعہ دوبارہ بولنا شروع کرتے ہیں تو وہ الفاظ ہمیں یاد آ جاتے ہیں اس لئے زبان کی مدد سے سبق یاد کرنا بہت مفید رہتا ہے۔

3۔پیپر کی تیاری کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی کتابیں لے کر خود کو ایک کمرے تک محدود کر لیں ، بس آپ،آپ کی کتابیں اور بند کمرہ۔۔ اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ کمرے کے اندر بھی دیواروں پر رنگین تصویر نہیں ہونی چاہیے، کوئی میگزین ،پزل گیم نہیں ہونی چاہیے ،یہاں تک کہ کمرے میں کتابوں کے علاوہ آپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔

ایسا اس لیے ہے کہ ہمارا جو دماغ ہے وہ جو بھی دیکھتا ہے اور سنتا ہے اس پر ہم سے پوچھے بغیر سوچنا شروع کر دیتا ہے، مثلاً اگر آپ کسی سڑک سے گزر رہے ہیں اور سامنے دیوار پر کچھ لکھا ہوا ہے تو جیسے ہی آپ کی نظر اس پر پڑے گی آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپ کا دماغ اسے پڑھ لے گا، اور اس کے بارے میں سوچنا اور کہانیاں بنانا شروع کر دے گا، جیسے اگر ہم کسی بوڑھے آدمی کو یا سڑک پر بھیک مانگتے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ہم لوگ ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں، جب ہم ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھتے ہیں تو سیاستدانوں کو برا بھلا کہنا شر وع کر دیتے ہیں،

یعنی ہمارا دماغ کسی بھی غیر متعلقہ چیز کو دیکھنے سے بھٹک سکتا ہے اس لیے صبح اٹھ کر پہلے ٹائم پر پڑھنا بہت فائدہ دیتا ہے، کیونکہ اس وقت آپ کا دماغ زیادہ بھٹک نہیں سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ صبح اٹھتے ہی تازہ دم ہونے کے فوراً بعد پڑھائی شروع کر دیں ، بجائے اس کے کہ فیس بک کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا جائے یا موبائل اور ٹی وی پر وقت ضا ئع کیا جائے۔پڑھنے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جہاں آپ کو مکمل نہیں تو کچھ نہ کچھ یکسوئی ضرور میسر آسکے۔

4۔اکثر لوگوں کو حافظے کی خرابی کی شکایت ہوتی ہے اور ان کو کوئی چیز بھی دیر تک یاد نہیں رہتی ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ سبق لکھ لکھ کر یاد کریں اور اسی بات کا ذکر ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی آیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حافظے کی خرابی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے خط (یعنی لکھنے )کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اپنے دائیں ہاتھ سے مدد طلب کر۔
(کنز العمال ، کتاب العلم ، ج 10 ، ص 107 ، رقم الحدیث 29291 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

5۔پڑھائی کے دوران سپیڈ بہت ضروری ہے کیونکہ سپیڈ سے ہی توجہ بنتی ہے بہت سے بچے کہتے ہیں کے ہم پڑھائی پر توجہ برقرار نہیں رکھ پاتے کیونکہ ہمارا دھیان بھٹکتا ہے تو اس کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے سپیڈ یعنی جو بھی پڑھو تیزی سے پڑھو ۔لیکن ہم کیا کرتے ہیں ہم آہستہ آ ہستہ پڑھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے دھیرے دھیرے پڑھنے سے یاد ہوتا ہے، نہیں الٹا دھیرے دھیرے پڑھنے سے دھیان بھٹکتا ہے ہم ہر 5 منٹ بعد خیالوں میں کھو جاتے ہیں ۔سپیڈ نہ ہو تو من کمزور ہو جاتا ہے اور ڈولتا رہتا ہے ۔جیسے سائیکل چلاتے وقت ہوتا ہے سائیکل سپیڈ ہی کی وجہ سے بیلنس بنا پاتی ہے اگر آپ  سائیکل دھیرے چلائیں گے تو کبھی دائیں گرے گی کبھی بائیں گرے گی ۔سائیکل چلانے کے بجائے صرف بیلنس بنانے کے چکّر میں ہی لگے رہیں گے ۔

اس لئے ہمیں جو بھی پڑھنا چاہیے تیز ی سے پڑھنا چاہیے شروع شروع میں آپ کو لگے گا آپ صرف پڑھ رہے ہیں آپ کو سمجھ کچھ نہیں آ رہا لیکن آپ کو یہ اس لئے لگے گا کیونکہ آپ پہلی دفعہ  ایسا کر رہے ہوں گے لیکن 2،3 دنوں میں آپ کا دماغ بھی سپیڈ پکڑنے لگےگا آپ محسوس کریں گے کہ آپ جتنی تیزی سے پڑھ رہے ہیں اتنی ہی اچھی طرح آپ کو یاد بھی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ speed memory پر کام کرتا ہے اس حوالے سے ایک مثال سمجھیں اگر کوئی اپنا موبائل نمبر آپ کو دھیرے دھیرے بتائے تو آپ ایسے یاد نہیں کر پائیں  گے کیونکہ اکثر ہم موبائل نمبر کو یاد کرنے کے لئے انہیں تیزی سے من میں دوہراتے ہیں اور وہ یاد ہو جاتے ہیں۔ المختصر یہ کہ دماغ کو کام کرنے کے لئے 2 چیزیں چاہیے ہوتی ہیں اکیلا پن اور سپیڈ اور ان دونوں کی مدد سے ہی آپ اپنے سبق یاد کرنے کی رفتار کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں۔

6۔امتحان میں ان بچوں کے نمبر سب سے زیادہ آتے ہیں جو پریکٹس فارمولے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ اگر آپ سبق کبھی کبھی یاد کرتے ہیں تو سبق کبھی اچھا یاد نہیں ہو گا لیکن اگر آپ اس سبق کو یاد کرنے کی مسلسل پریکٹس کرتے رہتے ہیں تو نہ صرف وہ سبق آپ کو یاد ہو جائےگا بلکہ دیر تک حافظہ میں محفوظ بھی رہے گا، کیوں کہ جو بندہ روز پریکٹس کرتا ہے اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لئے تیار کرتا ہے وہ بڑا چمپین بن جاتا ہے اس حوالے سے محمّد علی کلے کی مثال دیکھیں وہ ایک دفع ریسلنگ کے لئے اترا اور اپنے مقابل کو ایک پنچ مارا اور وہ ریسلنگ اسی وقت جیت گیا صحافی آیا اور اس نے سوال کیا محمّد علی کلے آج جو تمہیں انعام ملا وہ لاکھوں ڈالر ہے بتاؤ ایک پنچ سے لاکھوں مل جاتا ہے کیا ؟ اس نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ اس پنچ کو بنانے کے لئے میں نے 21 سال پریکٹس کی ہے اور آج یہ پنچ چھوتا ہے تو بندہ نیچے گر جاتا ہے ۔اسی طرح نمبر حاصل کرنے کے لئے بھی مسلسل پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہیں کیوں کہ بڑی کامیابی ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا کر اور مسلسل پریکٹس کو اپنا کر ہی حاصل ہوتی ہے۔

7۔امتحان کی تیاری کے لئے اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پڑھنے کے اوقات کا تعین کریں کیونکہ اگر آپ صرف یہ کہیں گے کہ میں کل تیاری کے لیے بیٹھوں گا تو کل بھی گزر جائےگی لیکن آپ پڑھ نہ  سکیں گے لیکن اگر آپ یہ فیصلہ کریں کہ میں کل اتوار کو کھانے کے بعد 2 گھنٹوں کے لئے اس مضمون کے اتنے صفحات کو یاد کرنے کے لیے فلاں جگہ پر بیٹھوں گا تو اس کا بڑا امکان ہے کہ آپ پڑھنے کے لئے بیٹھ جائیں کیونکہ مخصوص جگہ اور وقت کا تعین کر لینے سے ہم اپنے آپ پر کنٹرول پا سکتے ہیں اور اپنے فیصلوں اور کاموں کو موثر اور آٹومیٹک بنا سکتے ہیں اور جب اسی طرح روزانہ آپ منصوبہ بندی سے کام کرنے کی عادت ڈالتے ہیں تو وہ کام ہماری روز مرہ زندگی کا حصّہ بن جاتا ہے جیسے صبح اٹھ کر روز نہانے کے لئے آپ کو روز منصوبہ نہیں بنانا پڑتا کیونکہ وہ آپ کی روز کی عادات میں شامل ہو چکا ہوتا ہے اس لئے اگر کسی کام کی تمام تفصیلات دماغ کو فراہم کر دی جائے تو اس کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ وہ کام آپ انہیں مقرّرہ اوقات میں انجام د ے دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

8۔ پیپر جب چیک ہونے کے لئے ایگزیمینر کے سامنے آتا ہے آپ وہاں موجود نہیں ہوتے صرف آپ کی محنت پیپر کی صورت میں سامنے ہوتی ہے کہ آپ نے پیپر کو کس انداز میں کیا ہے تو ایگزیمینر کو متاثر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چیزوں پر ضرور توجہ دیں
1۔ ایگزیمینر اس کو نمبر دیتا ہے جس کا پیپر صاف ستھرا ہوتا ہے اگر آپ کو اپنا لکھا خود سمجھ نہیں آ رہا تو آپ ایگزیمینر سے اچھے نمبر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں
2۔ کئی بچے صفحے بھرنے کے چکّر میں بڑا بڑا لکھتے ہیں کبھی لائن کے کناروں کو چھوڑ کر لکھتے ہیں تا کہ زیادہ صفحات پر ان کا کام آئے وہ اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایگزیمینر زیادہ صفحات سے متاثر ہو کر نمبر دیتا ہے اس لیے اس حوالے سے یہ بات یاد رکھیے کہ پیپر چیک کرنے والا اندھا نہیں ہوتا اسے پتہ ہے کہ اس بچے نے جگہ چھوڑ چھوڑ کر زیادہ شیٹس استعمال کی ہے اس لیے ہر لائن میں آخر تک تحریر لکھا کریں۔
3۔ جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب لکھ دے تو پیپر چیک کرنے والا متاثر ہو جاتا ہے نا لائق بچے کو کیوں کہ سبق یاد نہیں ہوتا تو وہ غیر متعلقہ چیزیں لکھتا ہے اور اکثر بچے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ کم ٹائم کی وجہ سے پیپر اچھا نہیں ہوا یہ وہ بچے ہوتے ہیں جو 2 نمبر کے سوال کے لئے 4 شیٹس لکھ آتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ نمبر دیکھیں جائے کہ کتنے نمبر کے لئے کیا چیز پوچھی گئی ہیں سوال کی اہمیت کتنی ہے اور میں نے جواب کتنا دینا ہے۔
4۔ جب بھی مختصر یا طویل  سوال ختم کریں لائن ضرور لگائیں اختتامیہ کی کیونکہ یہ لائن اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا سوال ختم ہو چکا ہے بسا اوقات پیپر چیک کرنے والا دونوں سوالوں کو ایک سمجھ کر چیک کر دیتا ہے کیونکہ درمیان میں اختتامیہ کا نشان نہیں ہوتا
9۔سب سے آخری اور اہم بات سمجھ لیں کہ ہمیں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو سوال سب سے اچھا آتا ہے پہلے وہ کرو اور جو سب سے کم اچھا آتا ہے وہ آخر میں کرو لیکن کبھی ایسا نہ کریں جو دوسرے نمبر پر سب سے اچھا آتا ہے وہ سب سے پہلے کریں کیونکہ ایگزیمینر کے ذہن میں بھی ہے کے پہلا سوال تو اس نے اچھا ہی کرنا ہے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو دوسرا سوال آپ نے پہلے نمبر پر کیا ہوگا اس کے نمبر پہلے کے برابر آئیں گے اور دوسرا سوال کیونکہ اس سے زیادہ اچھا ہوگا تو اس کا تاثر بن جائےگا کہ یہ لائق بچہ ہے اب جو سب سے کم اچھا آتا ہے وہ تیسرے نمبر پر کرے تا کہ وہ شروع کے 2 کو سامنے رکھتے ہوۓ تیسرے کو بھی اچھے نمبر دے دے  گا اور تیسرے نمبر پر اچھا آنے والا آخر میں کریں گے تو چونکہ وہ تیسرے سے بہتر ہوگا اس میں بھی اچھے نمبر مل جائیں گے۔

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”امتحان کی تیاری کیسے کی جائے۔لئیق احمد

Leave a Reply to BintAbdulsattar Cancel reply