میدان ہوں یا پہاڑریگستان ہو یا صحرا ،دریا ہو یا سمندر ،ہر جگہ ہماری جمالیاتی حِس کی تسکین کے لیے ذرائع موجود ہیں ،جو دیکھنے والوں کی آنکھوں کو تراوٹ و تسکین اورروح کو مسرت و شادمانی بخشتے ہیں ۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات کسی یونانی دیومالائی داستانوں کے ہیرو کا سا حسن اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
ملکہ کوہسا ر مَری پاکستان کے شمال میں واقع ایک خوبصورت سیاحتی تفریحی اور صحت افزاء مقام ہے ۔پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع مری کا سفر سر سبز پہاڑوں ،گھنے جنگلات ،رقص کرتے بادلوں سے بھرا پڑا ہے۔ راستے میں ہر قدم پر ٹھہرنے کو جی چاہتا ہے ہر طرف شاہ بلوط،اوک،سلور اوک،سلکی اوک، دیودار،پلندر کے قد آور اور قدیم درخت ہیں ،اس کے علاوہ ہنگی ،کائیں ،بنفشہ، گل سرنجان ،گل ترنی ،یہاں کے جنگلی پھول ہیں جو قدرتی انعام کے طور پر یہاں اُگتے ہیں ۔
مری گلیات میں بے شمار حسین مناظر ایسے ہیں جو انسان کی آنکھوں میں ٹھہر سے جاتےہیں ،کہیں طلوعِ آفتاب کی کرنیں پہاڑوں کے چہرے کو سونے کی طرح چمکدار بناتی ہیں ،تو کہیں شفق کی سرخی پہاڑوں کے لبوں پر غازہ لگاتی ہے،پہاڑ جب برف کی چادر سے منہ باہر نکالتے ہیں تو کوہساروں پر بہار کا قافلہ خیمہ زن ہوتا ہے ،کہیں پھولوں کی خوشبو فضاؤں کو معطر کر تی ہے ، تو کہیں طیور بہار کی خوشی میں فضاؤں میں نغمے گاتے پھرتے ہیں ،کہیں یخ بستہ ہوائیں بدن کو چیرتی ہو ئی گزرتی ہیں، تو کہیں چہرے پر بکھری لٹوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے لگتی ہیں ۔
چشموں کا پتھروں سے ٹکراتامیٹھا اور خوشبو دار پانی موسیقی کا ایک پُر ترنم راگ الاپتا ہے،بلندقامت سر سبز درختوں میں سے گزرتے بکریوں کے ریوڑ ایک روح افزا ء منظر پیش کرتے ہیں۔رات کے وقت آسمان کی طرف دیکھیں تو ستاروں ،کہکشاؤں سے بھرا آسمان کسی جادوئی دنیا کا منظرپیش کرتا ہے، اور اگر نیچے پہاڑوں پر گھروں میں جلتی بتیاں دیکھیں تو لگتا ہے جیسے تارے زمیں پر ہوں ۔
ان حسیں وادیوں میں سب سے زیادہ مسحور کن ،روح پرور مناظربادلوں کے ہوتے ہیں ۔ یہ حسن آپ کو کسی کنواری الہڑ دوشیزہ جیسا حسین لگے گا آپ پہاڑپر کھڑےہوں تو بادل آپ کو نیچے وادیوں میں چلتے پھر تے سیر کر تے نظر آئیں گےاور پھر یوں ہی چلتے پھرتے بادل آپ کے چہرے کو چھوتے ہوئے ہلکی سی نمی چھوڑجاتے ہیں ۔کہیں یہ ہی بادل ناچتے گاتے جھومتے آپ سے اٹھکھیلیاں کرنے لگتے ہیں اگر آپ ہاتھ سے اُن کو چھونے کی کوشش کریں تو آپ کے ہاتھوں پر اپنا لمس چھوڑ جاتے ہیں ،یہ ہی بادل کبھی اچانک برسنا شروع ہو جاتے ہیں ان حسین و جمیل وادیوں میں بارش کی غیر یقینی ضرب المثل ہے۔ آپ دھوپ میں بیٹھ کر دھوپ کا مزہ لے رہے ہوں کہ اچانک آسمان پر بادل چھاتے ہیں اور ہیرے موتیوں کی طرح برسنا شروع ہو جاتے ہیں ۔خوب جم کر بادل برسنے کے بعد یہ دوشیزہ دلہنوں جیسا لباس زیب تن کر لیتی ہے اور آسمان پر ایک سترنگی کمان بن جاتی ہے جس کو دھنک (قوس قزح) کہا جاتا ہے ۔پہاڑوں پر یہ رنگوں سے بھری کمان دل موہ لینے والا منظر پیش کرتی ہے ۔اس کمان سے رنگ برنگے تیر نکلتے ہیں جو جا کر انسان کی جمالیاتی حس میں پیوست ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کرتا ہے ۔تتلیوں کی طرح رنگ بکھیرتی چیئر لفٹ میں بیٹھیں تو یہ حسیں وادیاں دنیاوی بہشت لگنے لگتی ہیں ۔
جس طرح اللہ تعالی نے ان وادیوں کو حسین و جمیل بنایا ہے اسی طرح بچوں کو بھی بہت نازک اور خوبصورت بنایا گیا ہے معصوم بچے پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں مگر ان ہی معصوم پھولوں کے ہاتھوں سے جب کاغذ ،قلم اور دوات چھین کر ان کے کچے ذہنوں میں روزگا ر کی فکر ڈال دی جائے تو یہ ہی معصوم بچے ننھے مزدور کہلاتے ہیں ۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بے شمار ننھے مزدورہیں کہ جنہوں نےکبھی سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی جو جانتے ہی نہیں کہ سکول ہوتا کیا ہے ۔میں نے نتھیاگلی میں ایک بچے سے پوچھا تم سکول نہیں جاتےکہنے لگا !ہم میں سے کوئی بھی کبھی سکول نہیں گیا، ہم بس مدرسے جاتے ہیں اور پارہ پڑھتے ہیں ۔
مال روڈ پر ننھے مزدوروں کی ایک فوج دیکھی کوئی پھول بیچ رہا ہے کوئی غبارے بیچ رہا ہے کوئی خود سردی میں ٹھٹھرتےہوئے لوگوں کو گرم ٹوپیاں بیچ رہا ہے، کوئی ڈرائی فروٹ بیچ رہا ہے، کوئی بھاری بھر کم سامان اُٹھا کر ایک دوکان سے دوسری دوکان میں لے جا رہا ہے یہ سب ننھے مزدورمحنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں ،یہ ہمارے ملک کی ذہین و فطین چائلڈ لیبر ہے جو اپنے خاندان کے کفیل بنے ہوئے ہیں اور ان کی خوداری تو دیکھیے کہ کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیں گے جب تک کوئی چیز نہ دیں یہ چیزیں بیچ کر ہی لوگوں سے پیسے لیتے ہیں بہت خودار ہیں یہ ننھے مزدور ۔
بچوں سے مشقت ،خوشحالی و ترقی کے دعویدار معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ،اور قوم کی اخلاقی اقدار کے زوال کی علامت ہے ۔اور ریاست کا انصاف تو دیکھیے کہ ایک طرف تو حماد صافی ہے جو پیدا ہوتے ہی ایک پروفیسر،عالم ،فاضل ، موٹیویشنل سپیکر بن گیا اور ایک طرف احمد شاہ ہے جو کہتا ہے پیچھے دیکھو تو سارا میڈیا سارا پاکستان اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے ملک و قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں بچے ملک و قوم کے معمار ہوتے ہیں تو پھر ان ننھے اور خودار مزدوروں کا کیا قصور ہے ؟ دھرتی ماں تو سب کے لیے سانجھی ہوتی ہے ماں تو اپنے سب بچوں سے ایک جیسا پیار کرتی ہے پھر یہ کیسا تضاد ہے کہ اشرافیہ کے بچے مہنگے ترین سکولوں میں پڑھیں اور غربا کے بچے محنت مزدوری کریں ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں