مودی جی شکست تسلیم کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ دیدی سے کیا الرجی ہے؟۔۔عبدالعزیز

نریندر مودی نے ممتا بنرجی کو بنگال کے اسمبلی انتخاب میں ہرانے کے لیے ہر حربے کا بے دریغ استعمال کیا۔ تہذیب سے گری ہوئی حرکتیں کیں۔ دیدی اودیدی کا طنزیہ فقروں کا ہر انتخابی جلسے میں استعمال کیا۔ دو مئی  تاریخ  دیدی گئی۔ اپنی پوری سیاسی فوج لگا دی، منی پاور، مسل پاور سب کا استعمال کیا، خود اور ان کی ٹیم نے پولر ائزیش (ہندو مسلمان کرنے کی)   ہر ممکن کوشش کی۔ ترنمو ل کانگریس کے اندر شگاف ڈالنے کی بھی کوشش سے باز نہیں آئے۔ شبھندو ادھیکار ی جن کو ممتا بنرجی نے کئی اہم و زارتیں دے رکھیں تھیں ان کے باپ اور بھائی جو ایم پی ہیں انہیں بہت کچھ سے نوازا تھا وہ انتخاب کے اعلان سے ایک دو ماہ پہلے بی جے پی میں شامل ہوگئے۔نندی گرام میں انہوں نے اتر پردیش کے یوگی جیسا کردار ادا کیا بے شرمی کے ساتھ ممتا کو بیگم کہہ کر پکارتے اور کہتے بیگم اگر کامیاب ہو گئیں تو بنگا ل اور نندی گرام کو منی پاکستان بنادیں گی۔ کشمیر میں تبدیل   کر دی گئیں۔

وہ اکثر تقریروں میں کہتا کہ ستر اور تیس کا مقابلہ یعنی ستر فیصد ہندوؤں اور تیس فیصد مسلمانوں کا مقابلہ ہے اس قدر تلخ کلامیاں کر تا کہ ممتا بنرجی زہر کا گھونٹ پی کر رہ جاتیں ترنمول کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی بنانے کے لئے مودی اور ان کی پارٹی نے جی جان سے کوشش کی مگر ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘ دوسوپار کا نعرہ دینے والی پارٹی 77پر سمٹ کر رہ گئی۔ اسی کی گنتی بھی پوری نہیں کر سکی۔ ممتا بنرجی کی شاندار جیت ہوئی۔ مودی اور ان کی پارٹی نے کراری شکست کا سامنا کیا۔ زبان سے پہلے راجناتھ سنگھ اور بعد میں مودی نے رسماً ہار تسلیم کر تے ہوئے ممتا بنرجی کو مبارکباد ی کا دولفظی پیغام بھیجا مگر دل سے شکست تسلیم نہیں کی۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ممتا بنرجی نے اروند کیجریوال کا کردار ادا نہیں کیا ۔

کیجریوال اپنے ترقیاتی کاموں کو گنوا تے رہے امیت شاہ جو دہلی کی خاک چھان رہے تھے ایک دو بار تقریری مقابلے کی دعوت دی مودی کو تو منہ بھی نہیں لگا یا۔ شر پسند عناصر سے بھی دامن بچا تے رہے اور بھاری اکثریت سے جیت کر دکھایا۔ تلخیوں کے غبار سے اپنے آپ کو پاک رکھا ممتا بنرجی نے ہر معاملے میں مودی اور ان کے آدمیوں کو دندان شکن جواب دیا۔ سب کے دل غبار آلود ہو گئے، خاص طور پر مودی جو اپنے آپ کو ’ہم چوں ما دیگر ے نیست‘ (مجھ جیسا کوئی نہیں)کی راہ پر پر چل رہے ہیں۔ ان کادل غبار آلود ہو گیا تلخیوں سے بھر گیا‘انتقامی جذبات سے لبریز ہو گیا۔

ممتا بنرجی نے جو مودی اور ان کی پارٹی کی بر بریت اور جارحیت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا اس کا خار نکالنے پر پارٹی اپنی عادت ثانیہ کی وجہ سے مجبور ہے۔دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے راستے کے روڑے کو دیکھنا پسند نہیں کر تی اس کی مدر آرگنائزیشن نے مہاتما گاندھی کو جب برداشت نہیں کیا تو ہماشما کو کیسے بر داشت کرے گی۔ تیسری وجہ بنگا ل سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں جو پوری نہیں ہوئیں ، امیت شاہ بھی بہت گرجے بر سے حکومت بنانے کے سارے قواعد بنا لئے تھے چوٹ بھی کستے تھے۔ ای وی ایم کی بٹن اتنے زور سے دبا نے کے لیے کہتے کہ اس کا کرنٹ کلکتہ میں دیدی کو لگے۔دیدی ان کے دشمنوں کی فہرست میں شمار ہو نے لگی تھیں جس کی وجہ سے سنگھی جماعت نہ فراموش کر نے کے لئے تیار ہے نہ معافی تلافی چاہتی ہے۔ مودی کا مقابلہ دیدی سے ہوگیا تھا مودی نے اس کو prestige issue(وقار کا مسئلہ) بنا لیا ہے۔ مودی اپنے وقار کی جنگ ممتا بنرجی سے دوسرے راستے سے جیتنا چاہتے ہیں۔ ایک تو ایک ایسا گورنر ممتا بنرجی کے سر پر بیٹھا دیا ہے جو ممتا بنرجی کے درد سر بنا ہوا ہر روز کچھ نہ کچھ کہتا اور بکتا رہتا ہے جو ممتا کو گراں گزرتا ہے۔ کورونا کی مہا ماری میں ترنمو کانگریس کے تین بڑے لیڈروں اور ایک سابق لیڈر کو گرفتار کرا کے کچھ دیر یا دوچار دنوں تک اپنے جذبات کی تسکین کی یا نفرت اور دشمنی کا مظاہرہ کرکے ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کو پریشان کیا۔ جب گرفتار شدگان کو راحت مل گئی تو اب ممتا بنرجی کو بدنا م کرنے کا ایک بہانہ ڈھونڈا وہ یہ کہ یاس طوفان کے لیے جو وزیر اعظم نے جائزے کی میٹنگ بلائی تھی اس میں ممتا بنرجی نے شرکت نہیں کی۔ حالانکہ ممتا بنرجی نے میٹنگ میں جاکر وزیر اعظم سے ملاقات کی اور ایک رپورٹ کے ساتھ بیس ہزارکروڑ روپئے کا پیکیج کا مطالبہ کیا تاکہ تباہ زدہ علاقے کے لوگوں  کو از سرِ  نو آباد کیا جا سکے۔

ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ ایک دوروز پہلے انہیں وزیر اعظم کی میٹنگ کی اطلاع دی گئی جبکہ ان کا پیشگی پروگرام دیگھا کیلئے بن چکا تھا۔ دوسرے اس میٹنگ میں ممتا بنرجی کے کل کے لیفٹیننٹ اور آج کے دشمن نمبر ایک شبھندو ادھیکار ی کو مودی جی نے بلا رکھا تھا تاکہ ممتا کو دکھ اور پریشانی ہو قانون دانوں کی رائے ہے کہexecutive meeting میں اپوزیشن لیڈر کو جو حکومت کا انتظامیہ کا حصہ نہیں ہوتا ہے اس کو دعوت دینا سراسر غلط حرکت ہے۔ حقیقت تو یہ کہ ہر میٹنگ میں مودی جی ممتا کو دکھ پہنچا نا چاہتے ہیں الیکشن پہلے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی برسی کی تقریب میں ممتا بنرجی کی تقریر سے پہلے ان کو مشتعل کرنے کے لیے جے شری رام کا نعرہ لگوا دیا جس کی وجہ ممتا بنرجی نے تقریر کرنے سے انکارکردیا۔ ایک انتظامیہ کی میٹنگ کو مودی جی نے پارٹی کی میٹنگ بنا دیا اور دشمن کو ممتا کو تکلیف دینے کے لیے بیٹھا دیا۔ یہاں سے راجدھانی پہنچتے ہی مغربی بنگال کے چیف سکریٹری الاپن بندو پادھیا کو دہلی طلب کیا۔اس ہدایت کے ساتھ کہ30مئی کو دس بجے سے پہلے بنگال کی ذمہ داری کے بجائے مرکز میں نئی ذمہ داری سنبھال لیں کسی آئی اے ایس یا آئی پی ایس افسر کو مرکز میں ریاستی حکومت کی اجازت سے بلایا جاتا ہے۔افسر اور ریاستی حکومت کی مرضی اور خواہش کا بھی دخل ہوتا ہے۔ دستور اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر مودی جی ہر معاملے میں اپنی مطلق العنانی سے کام لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح ملک میں جو وفاقی نظام ہے وہ بھی خطرے میں پڑ جائے اور دستور کی دھجیاں بکھیر دی جائیں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کے اس اقدام کو سراسر دستور کے خلاف بتایا ہے۔ سرکاری افسران نے بھی مرکز کے اس رویہ پرتنقید کی ہے اور اعتراض جتایا ہے۔ ریاستی حکومت مودی کے اس اقدام کو چیلنج کرنے کے لئے کورٹ جانے پربھی غور کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ممتا بنرجی اپنی ایک ٹیم بناکر کورونا اور طوفان کے ماروں کو راحت پہنچا رہی ہیں اور روز وشب کام انجام دے رہی ہیں مودی جی اپنے جذبات کی تسکین کے لیے گندہ سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ممتا بنرجی نے صاف صاف کہا ہے کہ گندہ سیاسی کھیل سے باز آئے بنگال کے لوگوں کو تکلیف نہ دیجیے شکست تسلیم کیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مودی جی کا پیر ممتاچھونے کے لیے بھی تیار ہیں بشرطیکہ وہ ممتا کو ستانے اور بنگال کوdestablise(عدم استحکام) کرنے کی کوشش نہ کریں۔ میرے خیال سے مودی جی ڈنک کسی نہ کسی صورت سے مارتے رہیں گے وہ نہ بنگال کی شکست کو آسانی سے ہضم کر سکیں گے اور نہ اپنی عادت دیرینہ سے باز آئیں گے اس لیے کہ انہیں دیدی دیدی کہتے کہتے الرجی سی ہوگئی ہے یہ بیماری کوئی اچھی بیماری نہیں ہے اس کا علاج بھی مشکل سے ہوتا ہے۔ میرے خیال سے ممتا اس جھاڑ جھنکار سے دامن جس قدر بچائیں گی ان کو اسی قدر راحت ہوگی وہ مودی اور ان کی ٹیم سے جس قدر مشتعل ہوں گی اسی قدر وہ ہراساں کرنے اور کرانے کی کوشش کر تے رہیں گے۔ کم وبیش ملک بھر میں مودی پریشانی کو لوگ جھیل رہے ہیں۔ ایک کو رونا وائرس ہے ایک مودی وائرس ہے راہل گاندھی نے کووڈ کانا م مو وڈرکھ دیا ہے کیونکہ مودی کی حکومت کی نا کامی اور نا اہلی کی وجہ سے آج سارا ملک پریشان ہے۔ لہذا ممتا بنرجی کو سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ٹھنڈے دل سے مودی کا مقابلہ کرتے رہنا ہوگا وہ حکومت کو عدم استحکام کرنے اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر نے سے شاید ہی باز آئیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply