شیر خوارزم سلطان جلال الدین ’’ ہزار مرد‘‘ کے قلعے تک۔۔آصف محمود

سون کی وادی میں کچے راستے پر میلوں اندر جانے کے بعد ایک موڑ آیا تو دور پہاڑ کی چوٹی پر جلال الدین خوارزم شاہ کے قلعے پر پہلی نظر پڑی اور حیرت سے وہیں جم کر رہ گئی ۔ قلعہ نہیں تھا ، یہ شیر خوارم کی کچھار تھی ۔ بادشاہوں کے قلعے دلی ، لاہور اور روہتاس کے قلعوں جیسے ہوتے ہوں گے لیکن شیروں کی کچھار ایسی ہی ہوتی ہے جیسے یہ قلعہ تھا ۔
قدرت نے شاید یہ پہاڑ بنایا ہی اسی لیے تھا کہ ایک روز خوارزم کا زخمی سلطان یہاں آئے تو سنگلاخ چٹانیں اس کا قالین ، نیلا آسمان اس کی چھت اور حیران کر دینے والا عمودی پہاڑ اس کی فصیل بن جائیں ۔ ۔۔۔ یہ قلعہ تلاجھہ تھا۔
جلال الدین پر ہمارے ہاں بہت کم لکھا گیا لیکن اس کے باوجود جب جب اس کی کہانی پڑھی ، سحر سا طاری ہو گیا ۔ ازبک شاعر سیف الدین نے لکھا تھا جب ہم اپنے قبیلے کے بہادروں کے قصے لکھتے ہیں تو ہم جلال الدین کا ذکر نہیں کرتے کہ جہاں شیر خوارزم کی عملداری شروع ہوتی ہیں وہاں بہادری بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ فارسی کے شاعروں نے اسے ’ ہزار مرد‘ کہا یعنی ایسا شجاع اور ایسا دلیر جو ہزار مردوں کے برابر ہو ۔ ازبکستان سے ترکی تک لوک داستانوں میں اسے مینگو باردی کہا جاتا ہے ، ایسا دلاور جسے کبھی موت نہیں آتی۔
چنگیزخان کو زندگی میں دو بڑی جنگوں اور سات چھوٹی جھڑپوں میں شکست ہوئی ، ہر بار مد مقابل ایک ہی تھا : سلطان جلال الدین ۔ چنگیز خان نے صرف ایک ہی دشمن کو بہادری پر خراج تحسین پیش کیا تھا وہ بھی جلال الدین تھا۔
نور الدین کورلاخ نے درست کہا تھا سلطان جلال الدین مسلم دنیا کا فدیہ تھا۔ یہ نہ ہوتا تو چنگیز خان کے ہاتھوں مسلم دنیا کی تباہی کی داستان زیادہ طویل اور دلفگار ہوتی ۔ اس کا باپ چنگیز سے مقابلے کے لیے اس کا مشورہ مان لیتا تو شاید دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ اس کے بھائی سازشیں کر کے تخت پر قابض نہ ہوتے تو شاید پھر بھی تاریخ کی کروٹ کچھ اور ہوتی۔ کیسا نجیب انسان تھا ، تخت بھائیوں کے پاس چھوڑ کر جنگل کو نکل گیا کہ سلطنت کسی اور آمائش میں نہ پڑ جائے۔
شکست کی راکھ سے اس نے عزیمت کا پرچم اٹھایا ۔ کبھی ہزارکبھی پانچ ہزار ، جتنے جنگجو ملتے وہ ان کے ساتھ چنگیز خان کے لیے چیلنج بنا رہا یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب اس کے پاس ایک لشکر جرار تھا۔ اس نے چنگیز خان کو لکھا : تم میرے لیے جنگل جنگل خاک چھان رہے ہو، میں اس وقت یہاں بیٹھا ہوں ۔ تم آئو گے یا میں آئوں‘‘۔
میجر ریوٹی نے لکھا ہے چنگیز خان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا اسے کسی نے یوں چیلنج کیا ہواور چنگیز خان چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ کر سکا ۔ اسے معلوم تھا اگر جلال الدین یوں للکار رہا ہے تو شیر کے منہ میں سر دینا حکمت نہیں ۔۔۔۔۔۔
یہ میرے الفاظ نہیں ، چنگیزخان کے اس تذبذب کی یہ کہانی امیر عطا نے صدیوں پہلی لکھ دی تھی ۔ وہ لکھتے ہیں شیر خوارزم کے اس چیلنج نے چنگیز کو پاگل کر دیا تھا ۔ وہ صبح سے شام لشکر کی تیاریوں پر صرف کرنے لگ گیا ۔ لیکن پھر بھی اسے تسلی نہیں ہو ررہی تھی کہ کیا وہ جلال الدین کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے یا ابھی کچھ کمی رہ گئی ہے۔ اسے معلوم تھا للکارنے والا کون ہے۔
یہاں تک کہ پھر ایک گھوڑے پر سلطان کے لشکر کے سالاروں میں جھگڑا ہو گیا اور پھوٹ پر گئی۔ افغان سالار ناراض ہو کرلشکر لے کر چلا گیا۔امیر عطا لکھتے ہیں جلال الدین کو خبر ہوئی تو بھاگ کر خیمے سے باہر آیا ، ان کی منتیں کیں ، رویا کہ ایسا نہ کرو ، مسلمانوں کے مستقبل کا خیال کرو لیکن جانے والوں کو کوئی کب روک سکا ہے۔لشکر آدھا رہ گیا۔ چنگیز خان تو گویا اسی موقع کے انتظار میں تھا۔باقی تاریخ ہے۔
آخری بڑی لڑائی دریائے سندھ کے کنارے ہوئی جب سازشوں اور داخلی جھگڑوں سے نڈھال سلطان جلال الدین تیس ہزار پناہ گزینوں ، تین ہزار گھڑ سواروں اور پانچ سو کے قریب محافظوں کے ساتھ ہندوستان جا رہا تھا کہ چنگیز خان دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ آن پہنچا۔ تین ہزار گھڑ سواروں کا مقابلہ پچاس ہزار گھڑ سواروں سے تھا۔ گلوبل کرونالوجی آف کانفلیکٹ کے مصنف نے لکھا کہ جلال الدین یوں لڑا کہ چنگیزخان حیران رہ گیا۔ اس نے چنگیز کے لشکر کو ادھیڑا اور اس کے مرکز تک جا پہنچا۔ پھر ستر ہزار کی مزیدکمک چنگیز کو آن پہنچی۔ زخموں سے نڈھال سلطان گھیرے میں آگیاتو چنگیز نے حکم دیا اسے زندہ گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔
سلطان کے سامنے چنگیز تھا اور پیچھے دریائے سندھ ۔ اسنے گرفتاری دینے کی بجائے پہاڑ سے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ یہ نسیم حجازی کی نہیں میجر ریوٹی کی روایت ہے کہ چنگیز خان کو اس کے تعاقب میں گھوڑا دریا میں ڈالنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ وہ حیران کھڑا زخمی سلطان کو دیکھتا رہا ، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کوئی یوں بھی کر سکتا ہے۔ پھر اس نے اپنی فوج کے سالاروں کو بلا کر کہا : اس شخص کو دیکھو، اس کی ماں کو اس پر فخر ہونا چاہیے ، کیسا بہادر پیدا کیا۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب سلطان کی ماں وہی پاس کہیں دریا میں ڈوب کر مر رہی تھی۔
یہ واقعہ ازبک ، فارسی اور ترک لوک داستانوں کا حصہ ہے اور اس کی منظر کشی بھی کی گئی ہے۔ یہ مقام پاکستان میں ہے اور ’’ گھوڑا ترپ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔لوگ دیکھتے ہیں اور یقین نہیں کرتے کہ کوئی یہاں پہاڑ سے سیدھا نیچے دریا میں گھوڑا ڈال سکتا ہے۔
میں اسی جستجو میں تھا کہ دریائے سندھ میں اترنے کے بعد سلطان کہاں گیا جب ایک دن ترک وزارت خارجہ کی ایک دستاویز سے معلوم ہوا کہ وہ خوشاب کے پاس ایک قلعے میں رہا۔ مزید تلاش کی تو معلوم ہوا وہ تلاجھہ فورٹ ہے ۔ برادرم جہانگیر اعوان کو فون کیا، پروگرام بنا اور اب ملک جہانگیر ، ملک جہانزیب ، ملک اورنگزیب اورشہباز چوہان پر مشتمل ہمارا قافلہ تپتی دھوپ میں اس قلعے کے نیچے کھڑے تھا جہاں ’ ہزار مرد سلطان ‘ نے زندگی کے تین سال گزارے تھے۔ بہت سارا سفر ہو چکا تھا لیکن ہم قلعے کی دہلیز پر کھڑے تھے اور قلعہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا۔ تھوڑی دیر میں اسے کھڑا دیکھتا رہا اور جمع تفریق کرتا رہا کہ وہاں تک پہنچ پائوں گا یا نہیں۔ اس قلعے کو جلال الدین سے نسبت نہ ہوتی تو یہ طے تھا کہ میں نے وہیں سے لوٹ جاناتھا۔
قلعے سے پہلی ایک ندی آتی ہے۔ اس کے آس پاس کوئلے کی کچھ کانیں ہیں۔ جن کا ذائقہ پانی میں بھی ہے۔ یہ پانی پینے کے قابل نہیں۔ البتہ روایت یہ ہے کہ قلعے کو پانی یہیں اسی گائوں سے فراہم کیا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے اس زمانے میں گائوں میں کوئی کنواں ہو۔ کیونکہ اوپر قلعے میں جو کنواں تھا وہ پانی کے سٹور کے طور پر تو کام آ سکتا تھا لیکن اتنی اونچائی پر اس طرح کے پہاڑ پر پانی کا کنواں نکل آنا نا ممکنات میں سے ہی لگتا ہے۔
یہیں خاموش وادی میں ایک گھر نظر آیا۔ ایک کسان بیل جوتنے جا رہا تھا۔ ساتھ ایک دربار تھا۔اس گائوں کا نام کچھی والا تھا۔لیکن گائوں میں گھر ایک ہی تھا۔ گھر کے مکین نے ایک ’’ گائیڈ‘‘ ہمارے ساتھ روانہ کر دیا جو سارا راستہ ہم سے شکوہ کرتا رہاکہ تم لوگ جلدی کیوں نہیں چل رہے ، شام ہونے والی ہے اور نیچے میری بکریاں میرا انتظار کر رہی ہیں۔ یہ گائیڈ ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو ہمارے لیے قلعے تک پہنچنا ناممکن تھا اور پہنچ جاتے تو واپس آنا ممکن نہیں تھا۔ راستہ ہی اتنا پیچیدہ تھا۔ایک پگڈنڈی غلط مڑ گئے تو کہاں سے کہاں جا پہنچے۔
قلعہ کیا ہے ، لمبائی میں پھیلا ایک حیرت کدہ ہے۔ ایک طرف نیچے میدان ہے اور میدان تک یوں سیدھا پہاڑ ہے جیسے دیوار کھڑی کر دی گئی۔ عمومی طور پر پہاڑ کی چھوٹی سے نیچے تک ایک ڈھلوان ہوتی ہے لیکن اس کا مشرق کی ساری طویل پٹی عمودا کھڑی ہے۔ فٹ کا میٹروں کا حساب تو مشکل تھا لیکن یوں سمجھیے کہ مشرق کی سمت اس کی قدرتی فصیل اتنی بن جاتی ہے کہ گویا عام قلعوں کی چالیس پچاس فصیلیں ایک دوسرے کے اوپر کھڑی کر دی گئی ہوں۔ جنوب میں نیچے ڈھلوان نما کھائی ہے اور اس کا اوپر کا حصہ قدرتی فصیل ہے۔یہی حالت مغرب اور شمال میں ہے۔ شمال مغرب کے درمیان سے قلعے کو راستہ جاتا ہے اور یہ واحد راستہ ہے۔ یہ قریب نصف کلومیٹر قدرتی پہاڑی فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔جس نے آنا ہے یہیں سے گزر کر آنا ہے اور فصیل سے صرف پتھر لڑھکا دیے جائیں تو آنے والوں کا کام تمام ہو جائے۔
قلعے کی کوئی فصیل نہیں ہے۔ فصیل کی اسے ضرورت ہی نہیں کیونکہ پہاڑوں نے چاروں اطراف سے ایک ایسی ہیبت ناک قدرتی فصیل کھڑی کر رکھی ہے جسے پاٹنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں۔ اتنی اونچی فصیل ہے کہ اس تک اگر کوئی ہمت کر کے پہنچ جائے تو نیچے دیکھ کر خوف آتا ہے۔یہی قدرتی پن اور یہی ’ رف اینڈ ٹف‘ قسم کا تاثر اس قلعے کا اصل حسن ہے۔
قلعہ میں داخلے کا ایک ہی راستہ ہے اور یہ راستہ انتہائی تنگ ہے ۔ پہلے فصیل کے ساتھ ساتھ ایک ہموار راستہ آتا ہے پھر ایک تنگ سی پگڈنڈی قلعے کی طرف جاتی ہے۔ایک وقت میں صرف ایک ہی گھڑ سوار اندر جا سکتا ہو گا ۔ قلعے کا داخلی دروازہ بھی تنگ ہے جس کے اطراف قدرتی پہاڑ کھڑا ہے۔ اس راستے کے علاوہ اندر جانا ممکن ہی نہیں۔روایت ہے کہ یہاں اندر ایک بڑا سا پتھرہوتا تھا جسے دو سو آدمی دھکیلتے تھے۔ یہ پتھر اس راستے پر رکھ دیا جاتا تھا اور قلعے کا داخلی راستہ بند ہو جاتا تھا۔ میں داخلی راستے کے پتھر پر بیٹھ کر جمع تفریق کرتا رہا کہ چند تیر انداز صرف اس داخلی راستے پر بٹھا دیے جائیں تو کوئی لشکر اندر نہیں آ سکتا۔ اور اگر فصیلوں پر پتھر رکھ کر انہیں لڑھکانے کے لیے چند سو لوگ دستیاب ہوں تو یہ جگہ کسی بھی لشکر جرار کاقبرستان بن جائے۔
قلعے کے اندر اس طرح کی تعمیرات باقی نہیں رہیں جیسے عام قلعوں میں ہوتی ہیں۔ قلعے کی کوئی فصیل نہیں۔ یہاں فصیل بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ پہاڑ بذات خود فصیل کا کام کر رہا ہے۔کچھ کمروں کی بنیادیں اب بھی موجود ہیں لیکن کسی مسالے کے بغیر۔ پتھروں پر پتھر رکھے ہیں لیکن مسالہ نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس جگہ کو عارضی کمین گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہو۔
تصور کریں کہ تین فٹ چوڑا دو فٹ موٹاور آٹھ دس فٹ لمبا پتھر یہاں دیواروں میںچنا گیا ہے۔خدا جانے یہ پتھریہاں کیسے پہنچا۔ لیکن ایسے تراش کر لگایا گیا ہے جیسے جدید دور میں کسی نے مشین پر کاٹ کر تراش کر کی ٹائلیں لگائی ہوں۔یہاں ٹی ڈی سی پی نے صرف ایک بورڈ نصب کیا ہوا ہے کہ یہ قلعہ جلال الدین خوارزم شاہ نے بنوایا۔
تا ہم محسوس یہ ہوتا ہے یہاں معروف معنوں میں کوئی قلعہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ پہاڑ ایک ناقابل تسخیر قلعہ کی صورت کھڑا تھا تو سلطان جلال الدین نے اسے اپنا پڑائو بنا لیا اور بھاری پتھروں سے عارضی قیام گاہ قائم کر لی۔ سلطان کے ساتھ پناہ گزین بھی تھے اور عورتیں بچے بھی ۔ روایت یہ ہے کہ تلاجھہ میں سلطان نے عارضی شہر آباد کیا تھا۔ یہ روایت اس لیے درست معلوم ہوتی ہے کہ تلاجھہ کا یہ پہاڑ واقعی اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ یہاں قدیم زمانوں کی بستی آباد ہو سکتی ہے۔
اس قلعے میں شاہی قلعے لاہور یا روہتاس کے قلعے کی طرح کی عمارات نہیں ہیں لیکن اس قلعے کے قدرتی پن میں اتنی ہیبت ہے کہ اس کے سامنے لاہور اور روہتاس کے قلعے ‘‘ برگر قلعے‘‘ لگتے ہیں۔ شیر خوارزم اگر ہزار مرد تھا تو اس کا یہ قلعہ تلاجھہ بلاشبہ ’’ ہزار قلعہ‘‘ کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ کچھی والا کی ندی عبور کر کے جب پہاڑ کی طرف چڑھائی چڑھنا شروع کی تو راستے میں چند نوجوان ملے ، ان تھکے ہارے نوجوانوں نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک تو راستہ دشوار گزار اور مشکل ہے ، آپ بھول بھی سکتے ہیں اور گم بھی ہو سکتے ہیں اور پھر اوپر کچھ بھی نہیں ہے جسے آپ دیکھنے جا رہے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھاتا کہ اس قلعے کی کیا اہمیت ہے۔اس قلعے کی یہ پہچان تھی ہی کب کہ یہاں کتنی عمارات موجود ہیں اس کی پہچان تو یہ تھی کہ شیر خوارزم نے یہاںز ندگی کے تین سال گزارے تھے۔
اتفاقات ز مانہ دیکھیے جلال الدین کی کہیں قبر نہیں ہے لیکن دنیا اسے مینگو باردی کہتی ہے اور اس کے قلعے میں کوئی عمارت سلامت نہیںہے لیکن لوگ اس کا قلعہ دیکھنے جاتے ہیں۔ کیونکہ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں ، اس ویرانے کی تاریخی اہمیت کیا ہے۔ جو نہیں جانتے وہ اتنا جان لیں کہ سلطان جلال الدین ارطغرل ڈرامے میں دکھائے جانے والے سلطان علائو الدین کے کزن تھے۔دونوں کی آپس میں جنگ بھی ہوئی تھی۔چنگیز خان سے مگر صرف جلال الدین ہی لڑ سکا۔ باقی کے سلطان اقوال زریں ہی سناتے رہے اور بغداد کے خلیفہ کی طرح بیٹھ کر دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہے یہاں تک کہ ہلاکو خان سلام عرض کرنے آ پہنچا۔
قلعے میں کچھ قدیم آثار بتاتے ہیں کہ یہاں کیا کچھ تھا۔ یہ یقینا سلطان جلال الدین سے بہت پہلے بھی لوگوں کے زیر استعمال ہو گا اور اس کی سٹریٹیجک لوکیشن دیکھ کر سلطان نے یہاں قیام کیا ہو گا۔ایک کنواں ہے اور ایک مسجد کے آثار ہیں۔ نیچے کچھ قبریں بھی ہیں جن کے آثار معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔یہ قبریں ایک میدانی سے قطعہ ارضی پر ہیں۔ قلعے کی طرف جاتے ہوئے فصیل کے نیچے ساتھ ساتھ اسی قطعہ ارضی سے گر کر جانا پڑ تا ہے۔ یہ جگہ ایک باغ کی مانند ہے۔ سر سبز۔ ہریالی ہی ہریالی۔ کیا عجب یہاں شیر خوارزم کے شہداء دفن ہوں ۔
خوشاب سے آگے ، وادی سون کی دہلیز کی دہلیز پر نہر کنارے خالق آباد نام کی بستی ہے۔ یہاں سے پہاڑ چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ پہاڑ پر قریب پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد دائیں جانب ایک کچا راستہ جاتا ہے۔ سڑک پر بورڈ لگا ہے کہ یہ راستہ بابا کچھی والا کے دربار کی طرف جاتا ہے۔ کسی سرکاری محکمے کو یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ یہاں لکھ کر لگا دے یہ راستہ قلعہ تلاجھہ کو جاتا ہے جہاں شیر خوارزم نے زندگی کے تین سال گزارے تھے۔ اسی سے آپ اندازہ کر لیں کہ ہمارے متعلقہ ادارے سیاحت کے فروغ کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔
کسی کو معلوم ہی نہیں اس قلعے کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور اس کی اگر مناسب انداز سے تشہیر کر دی جائے تو کتنے سیاح یہاں آ سکتے ہیں۔ ازبکستان میں سلطان جلال الدین کی کیا حیثیت ہے ، ہمارے سفیر وں کی بلا جانے۔ ازبکستان میں جلا ل الدین کی حیثیت ایک ہیرو کی سی ہے۔ ابھی ارطغرل کے بعد بوزداغ نے ازبکستان ہی کی معاونت سے میندرمین جلال الدین ڈرامہ تیار کیا ہے جس کا پہلا سین ختم ہو چکا ہے۔ اس ڈرامے کے پریمیئر کے موقع پر تاشقند میں ازبکستان کے کلچر منسٹر عزت بیگ نز بکوف نے بھی شرکت کی تھی۔ نسیم حجازی نے آخری چٹان ناول اسی سلطان جلال الدین پر لکھا تھا ۔ہم سے یہ تک نہ ہو سکا کہ اس ناول کا ازبک زبان میں ترجمہ کروا کر اس کے نسخے ہی ازبکستان بھجوا دیتے۔
قلعے سے اتر کر ہم نیچے وادی میں کچھی والا نامی ایک گھر پر مشتمل ’’ گائوں ‘‘ میں پہنچے تو سورج دور پہاڑوں کی اوٹ میں ڈوب رہا تھا۔ ڈھلتے دن کی مدھم ہوتی روشنی میں وادی کے اندر سفر کرتے جب تک قلعہ نظر آتا رہا میں اسے مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔ وادی سون کے باسیوں کو بھلے معلوم نہ ہو لیکن وادی سون کے پہاڑوں کو تو معلوم ہو گا انہوں نے کس بہادر سلطان کی میزبانی کی تھی۔
چنگیز خان نے کہا تھا جلال کی ماں کو فخر کرنا چاہیے کیسا بیٹا پیدا کیا۔ سون کے پہاڑ بھی فخر کرتے ہوں گے انہوں نے اس شخص کو پناہ دی تھی جو تاتاری یلغار کے سامنے عالم اسلام کی آخری چٹان تھا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply