متنازعہ نصاب کا مشترکہ نتیجہ۔۔نذر حافی

ہماری زندگی دوہرے معیارات سے بھری ہے۔ ہمارے ہاں دینی مدارس اور دنیاوی تعلیم کے سکول بھی اسی طرح کھولے جاتے ہیں، جس طرح دکانیں کھولی جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے ہاں دکانوں کی طرح مدارس اور سکولوں میں بھی معیار نام کی کوئی چیز نہیں۔ اکثر مقامات پر صرف تجوریاں بھری جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ سروے کرکے دیکھ لیں، ہم سب کی بات نہیں کرتے، لیکن اکثر مدارس و سکولوں کے منتظمین نظامِ تعلیم کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ دنیاوی علوم کو دینی علوم سے کس بنیاد پر جدا کیا جاتا ہے؟ یہ تقسیم درست ہے یا غلط۔ اس کو رہنے دیجئے صرف یہ پوچھ لیجئے کہ کیا دین انگریزی، کیمسٹری، فزکس، بیالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم سے روکتا ہے؟ اگر نہیں روکتا تو پھر آپ انہیں دینی تعلیم کیوں نہیں کہتے؟

آپ ان سے یہ بھی پوچھ کر دیکھئے کہ علوم عقلی سے کیا مراد ہے؟ کیا ہمارے ہاں علوم غیر عقلی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے؟ بہت کم جگہوں سے آپ کو تسلی بخش جواب ملے گا۔ جب آپ پوچھتے جائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ ہم نے ہر طرف ہوائی قلعے تعمیر کر رکھے ہیں۔ ایک طرف عام اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر یہ فضا حاکم ہے اور دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں “ایک قوم ایک نصاب” کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اُس سے بھی پتہ چل رہا ہے کہ وہاں بھی کچھ ایسے ہی ماہرین تعلیم تشریف فرما ہیں۔ یوں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ البتہ اس دعوے کے بعد ہمارے پاس اسلامی نظامِ حکومت، اسلامی نظامِ صحت، اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت۔۔۔۔ سمیت کوئی بھی نظام برائے زندگی ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ ہر جگہ یہی جملہ دہرایا جاتا ہے کہ قرآن و سنت میں ہر چیز کا علم موجود ہے، اس سے آگے ہم کچھ سوچنے کیلئے تیار بھی نہیں ہیں۔

ویسے بھی سوچنے سے تو ہمیں موت پڑتی ہے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اسلام ایک دین ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کے حوالے سے اس کا اپنا ایک مخصوص نظام ِ زندگی موجود ہے۔ اس کا ہر مخصوص نظام اپنے خاص اور منفرد عناصر و اجزاء پر مشتمل ہے۔ ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم چاہے اسلام کے سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، فلاحی، مدیریتی۔۔۔ جس نظام کی بھی بات کریں، اُس میں کسی فرقے کو پُررنگ یا حذف کرنے سے باز رہیں۔ فرقہ وارانہ دھونس جمانے کے بجائے ہم پہلے مرحلے میں خود اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کی تعریف پر متفق ہو جائیں، پھر اس کے عناصر و اجزاء کی شناخت اور ان کے باہمی تعلق کو سمجھیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ بطورِ دین، اسلام کا اپنا منفرد سیاسی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی۔۔۔ فلسفہ اور نظریہ موجود ہے۔ اس کا نظامِ تعلیم و تربیت باقی تمام اسلامی نظاموں کیلئے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج تک ہم پاکستانی ایک اسلامی نظامِ تعلیم کی موجودگی کا اظہار نہیں کرسکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے ہر نظامِ تعلیم و تربیت کی طرح اسلامی نظامِ تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی متنوع علمی و تربیتی جہتوں، فکری بنیادوں، مستحکم اصولوں، روشن اہداف، گونا گون طریقوں، ان گنت مراحل اور اس جیسے متعدد اجزاء کو متعین کرکے مستندات کے پیمانے پر ایک اسلامی تعلیم و تربیت کے نظام کو وضع کیا جانا چاہیئے۔ یہ سب بہت ضروری ہے، چونکہ نظامِ تعلیم و تربیت، ریل کی اس پٹڑی کی مانند ہے، جو معاشرے کو خاص اور متعین شدہ اہداف تک لے جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کی رو سے اگلے چند سالوں کیلئے ہمارے اہداف میں دانشوروں، سائنسدانوں، اور دیگر مفید افراد کی تعداد میں اضافہ، کرپشن سے چھٹکارا، رائج تعصبات کا خاتمہ، آسان انصاف کا حصول، انسانی حقوق کی علمبرداری، مکالمے کا فروغ، دلیل اور استدلال کا احیا، معیشت و دفاع کی مضبوطی، بیرونی دباو اور قرضوں سے نجات، بقائے باہمی کی فضا، دیگر ادیان و مذاہب کا احترام، معاشرتی و سماجی مساوات، سیاسی و جمہوری انحرافات کی اصلاح، قانون کی اہمیت کا شعور، بدلتے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کی لیاقت، ماڈرن اور پوسٹ ماڈرن دنیا میں سیکھنے اور سکھانے کی صلاحیت، دنیا کے بہترین، پُرامن اور خوشحال ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی کوشش جیسے نکات ہونے چاہیئے۔

ہونے کو تو اور بھی بہت کچھ ہونا چاہیئے لیکن جو ہو رہا ہے، اُس سے تو یہ لگ رہا ہے کہ یہ جو بظاہر ایک قوم ایک نصاب کا نعرہ ہے، اس کی آڑ میں کچھ اور کیا جا رہا ہے۔ عوام کو تو یوں باور کرایا جا رہا ہے کہ بس اب سکولوں سے بھی حافظ قرآن اور نماز و روزے کے پابند بچے نکلیں گے۔ اس خوشی میں والدین تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اصل میں اُن کا بچوں کو سکول بھیجنے کا مقصد کیا تھا اور کیا ہونا چاہیئے؟ راقم الحروف کے نزدیک قرآن مجید کی سورتوں کو رٹوانے کا عمل لوگوں کا منہ بند کرنے کیلئے ہے، دراصل اس کے زیرِ سایہ بچوں کی کتابوں میں جو کچھ ڈالا جا رہا ہے اور جو نکالا جا رہا ہے، اُس سے آگے چل کر والدین کی بے چینی اور مسالک کے درمیان فاصلہ مزید بڑھے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک فطری بات ہے کہ ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ سکول اُس کے بچے کے عقیدے کو تبدیل نہ کرے۔ اپنے بچے کے عقیدے کا تحفظ یہ ہر مُسلم اور غیر مسلم باپ کی پہلی ترجیح ہے۔ کوئی سُنی باپ یہ نہیں چاہتا کہ میرا بچہ سکول جانے کے کچھ عرصے کے بعد وہابی یا دیوبندی یا شیعہ ہو جائے، اسی طرح شیعہ والدین بھی ہرگز یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ سکول میں اُن کے بچے کے عقائد کو سلفی، اہلحدیث یا قادیانی وغیرہ میں تبدیل کرنے کیلئے سوفٹ پاور استعمال کی جائے۔ دینِ اسلام جہاں علم کے حصول پر بہت تاکید کرتا ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ علم حاصل کرو، خواہ چین جانا پڑے، یا علم اگر کافر سے بھی ملے تو حاصل کر لو، وہاں یہ نہیں کہا گیا کہ علم کے ہمراہ عقیدہ بھی انہی سے لے لو۔ بظاہر ایک قوم اور ایک نصاب کی تحریک بہت خوب ہے، لیکن اس سے ایک مخصوص فرقے کے افراد کی تعداد میں اضافے کیلئے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے بچوں کے عقائد سے چھیڑ خوانی والے متنازعہ نصاب کا واحد اور مشترکہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ مدرسوں اور مساجد کی طرح ہر فرقے اور کمیونٹی کے سکول بھی الگ الگ ہو جائیں گے اور یوں ایک قوم کئی اقوام میں بٹ جائے گی اور ایک نصاب کئی نصابوں کو جنم دے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply