کہانی کا آغاز آدم و حوا, بلکہ بنی نوعِ انسان، کے سقوطِ قسمت سے ہوتا ہے۔ اس اصطلاح ” سقوطِ قسمت “میں ہی کہانی کے تمام راز پنہاں ہیں۔ جب آدم اور حوّا نے معرفتِ خیر و شر کے مآخذ، شجرِ ممنوعہ، کا ذائقہ چکھا تو نتیجتاً جو پہلا عرفان حاصل ہوا، وہ یہ کہ، برہنہ پن ہی حقیقی شر ہے، اسی “شر” کو کتابِ مقدّس کے مطابق وقتی طور پر انجیر کے پتوں سے ڈھانپا گیا، یہی وہ مقام ہے کہ بنی نوعِ انسان کو جنت سے ہاتھ دھونے پڑے، اور انسانی آلام و مصائب کی بنیاد پڑی، اس ممانعتِ اوّل کو عموماً شجرِ ممنوعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، مگر انصاف کا تقاضا ہے کہ اس کو غلافِ تناسلی یا برگِ تناسلی کا نام دیا جائے ، یہیں سے ” تناسلی تہذیب ” کی داغ بیل ڈلی۔
آسمانی تعلیمات میں آخر اس برگِ تناسلی کو اس قدر غیر معمولی اہمیت کیوں حاصل ہے؟ اس الہامی علامت کی کیا منطقی تشریح کی جا سکتی ہے؟ غلافِ تناسلی صرف ایک پردہ ہے جس کا مقصد نگاہ اور نظارے کے درمیان رکاوٹ پیدا کرنا ہے، آخر اس پردے کے پیچھا ایسا کیا ہے کہ اس طرف نگاہ اٹھانے کی اجازت نہیں. اس سوال کا جواب جتنا سادہ ہے، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
یہ غلافِ یا برگِ تناسلی درحقیقت اس شجر سے لیا گیا جو کہ عارفِ خیر و شر ہے، اور آدم و حّوا کے “جانبدارانہ ” استعمال نے اس برگ کو نہ صرف علامتِ جُہل میں بدل ڈالا بلکہ ان کا یہ فعل ،مستقبل میں خیر و شر کے حقیقی تفاہیم میں انحراف کا موجب بنا، برگِ تناسلی کا یہ جانبدارانہ اور غیر منصفانہ استعمال ,شر و خیر کے مطالب میں ردوبدل کا باعث بنا ، برگِ تناسلی کے مذکورہ استعمال نے “عضوِ شر ” کے برہنہ پن کو گناہ سے تعبیر کیا اور اسی عضو کے پنہاں ہونے کو تقدّس و خیر تصوّر کیا گیا، اگرچہ انسانی سوچ کی وسعتوں کا تقاضا تھا کہ عضوِ گناہ یا شر کے پوشیدہ رکھنے کو ممنوع قرار دیا جاتا کہ ہر عاقل و بالغ اپنی آنکھوں سے گناہ کو دیکھ اور سمجھ پاتا اور اپنی استطاعت کے مطابق خود کو اس سے بچا پاتا، مگر اس غلاف نے عضوِ گناہ کو نگاہ سے چھپاتے ہوئے خیر کو شر اور شر کو خیر کا نام دینے پر مجبور کیا، اسی پوشیدگی کو حقیقی تقوی تصوّر کیا جانے لگا اور تہذیبِ تناسلی نے منافقت کے نازک پردے میں اپنا ٹھکانہ جا ڈھونڈا۔ اس مقام پر تجسّس کے گھوڑے کو لگام دینا ناممکن ہو جاتا ہے کہ آخر برگِ تناسلی کے پیچھے کیا ہے؟
علمِ انسان کے ماہرین کے مطابق انسان کی سب سے پہلی زبان اس کی تن بولی تھی، اشارہ جات و تاثرات کا مرحلہ دوسرا ہے، خوشی و غم یا راحت و درد کی آوازیں اس سے اگلا مرحلہ اور آخری مرحلے پر مخصوص آوازیں الفاظ کا روپ دھارتی گئیں جس سے باقاعدہ زبان کا آغاز ہوا، مگر ابتدائی زبان تن بولی ہے، یعنی کہ مختلف اعضاء، انسان کی مختلف کیفیات کے مظہر تھے، گویا کہ حیاتیاتی مواصلاتی نظام انسان کی کیفیات کا اہم اور بنیادی ترین وسیلہ تھا اور ہے، آج بھی فرد کے تحت الشعور میں حیاتیاتی زبان سے وصول کردہ پیغام کی شدت، الفاظ سے کہیں زیادہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی، بے شمار سمندری مخلوقات، جن میں کچھ مچھلیوں کی نسلیں بھی شامل ہیں، فعلِ تولیدی کیلئے جسمانی ملاپ پر انحصار نہیں کرتیں، بلکہ “یک نگاہِ نازِ جاناں قیمتِ ایمان ما ” کے مترادف دیدارِ یار ہی حملِ عمیق کیلئے کافی ہوتا ہے، اس مثال سے تن بولی کی شدتِ تاثیر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مگر افسوس کہ برگ تناسلی کے بے جا استعمال سے یہ تاثیر ماند پڑ گئی، یقیناً خشکی پر زندگی خشک تر واقع ہوئی ہے، گویا کہ برگِ تناسلی نے اس حیاتیاتی مواصلاتی نظام کے سِرِ اسرار کی ، بقول کرنل محمد خان ” مسلمانیاں” کر ڈالیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس غلاف نے انسانیت کے بچپنے اور بلوغت کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے، برگِ تناسلی کے استعمال سے پہلے کا دور بچپن، جبکہ بعد کے دور کو بلوغت کہا جا سکتا ہے۔ بچپن ایک حسین اور بےباک دورِ زندگی ہے، جبکہ بلوغت قدرے کرخت اور خشک دور کا نام ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف فنونِ لطیفہ کے اظہار میں ہم انسان کی بچپنے کی طرف لوٹنے کی خواہش کو واضح محسوس کر سکتے ہیں،
اس برگ کے ظہور نے میدانِ جنسیات میں دو مختلف انتہاؤں کو جنم دیا ہے، ایک طرف متعدد ازواج اور بے شمار لونڈیوں سے بھرے حرم ہیں، جبکہ دوسری طرف اس فعل کی ممانعت یا کم از کم ایک خاص حد میں رکھنے کے بھاشن سننے کو ملتے ہیں، کیونکہ ایسے افراد کے نزدیک یہی فعلِ گناہ، انسانیت کی تنزلی کا باعث ہے ، اور ان دونوں گروہوں کے پاس اپنے اپنے فعل کی اخلاقی و مذہبی توجیح موجود ہے، درحقیقت سارا معاملہ اختیارات و ممکنات کا ہے، کمزور ، غریب، نادیدہ و بے بس افراد برگِ تناسلی کے اِس طرف موجود ہیں، جبکہ طاقتور اور اختیارات رکھنے والے افراد برگ کے دوسری طرف کی دنیا کے مکین ہیں، اور دونوں اپنے اپنے انتخاب کو عین خیر گردانتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں