• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ارض فلسطین، دو قومی نظریہ اور قابض قوتیں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ارض فلسطین، دو قومی نظریہ اور قابض قوتیں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

کافی عرصے سے پاکستان میں کچھ قوتیں سرگرم ہیں، جن کا نظریہِ فلسطین شکست خوردگی اور مغرب کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر مبنی ہے۔ وہ کسی بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ فلسطین پر پاکستان کے ریاستی موقف کے خلاف کوئی شگوفہ چھوڑیں۔ فلسطین پر مسلم لیگ کا 1940ء سے ایک جاندار موقف ہے، جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ فلسطین اہل فلسطین کا ہے اور اسے دنیا کی کوئی طاقت تقسیم کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلسطین اہل فلسطین کا ہے تو ہم اس بات کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ فلسطین میں صدیوں سے بسنے والے مسلمان، یہودی اور مسیحی اس کے برابر کے شہری ہیں۔ یہاں کچھ لوگ صیہونیت اور یہودیت کو مکس کر دیتے ہیں، جو پرلے درجے کی حماقت ہے۔

یہودیت ایک مذہب اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ریاست مدینہ کی تشکیل کا معاہدہ کیا تھا، جس میں یہودی ایک طاقتور گروہ کی صورت میں موجود تھے اور ان کی حیثیت و کردار کو تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کے حالات میں انہوں نے ریاست مدینہ کو نقصان پہنچانے کے لیے گٹھ جوڑ کیے، جس کے نتیجے میں انہیں مدینہ سے نکلنا پڑا اور مسلمان لشکروں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تھا، ورنہ اسلام کو یہودیت سے اسی طرح کوئی مسئلہ نہیں ہے، جیسے مسیحیت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر دو اہل کتاب ہیں۔ مکہ میں جب مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے تو آپﷺ نے نجاشی کے ملک میں ہجرت کا حکم دیا کہ وہ اہل کتاب اور اللہ اس کے دل میں مسلمانوں کے تحفظ کا خیال ڈال دے گا۔ اسلام کسی بھی مذہب کے خلاف جنگ یا نفرت کی بات نہیں کرتا، اس وقت صیہونیت کی ابتدائی شکل سے لڑائی تھی اور آج چودہ صدیوں بعد صیہونیت ایک منظم شکل اختیار کرکے مسلمانوں پر حملہ آور ہے تو اس سے دفاع کیا جا رہا ہے۔

ایک صاحب جو کافی معروف ہیں، فرمانے لگے کہ اسرائیل کے قیام کو اسی طرح تسلیم کر لینا چاہیئے، جیسے پاکستان اور ہندوستان کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تسلیم کر لیا ہے؟ عرض کیا کہ یہاں مسئلہ دو قوموں کا ہرگز نہیں ہے، ایسا نہیں ہے یا ایسا نہیں تھا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کی باہمی لڑائیاں ہو رہی تھیں اور مسلمانوں نے بطور اکثریت اقلیت کے حقوق کو غصب کر لیا تھا، ایسے میں اقلیت نے الگ ملک کی تحریک چلائی، تاکہ اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں۔ یہاں تو معاملہ ہی برعکس ہے۔ گذشتہ پچھتر سال سے فلسطین کی اکثریت دربدر ہے اور اپنی زمینوں اور اقدار و شناخت کے تحفظ کے لیے سرگرداں ہے۔ بین الاقوامی استعمار نے طاقت کے زور پر مقامی کمزور عوام پر دنیا بھر سے یہودیت نہیں صیہونیت کو مسلط کیا ہے، جو جبر و استبداد کے ذریعے خطہ فلسطین پر مسلط ہے۔

کیا ہندوستان کے مسلمان باہر سے لاکر آباد کیے گئے تھے۔؟ کیا مقامی اکثریت سے ان کی زمینوں اور وسائل کو چھین کر انہیں دربدر کیا گیا تھا؟ نہیں ایسا ہزگز نہیں ہوا۔ مسلمان صدیوں سے سرزمین ہند کے مقامی باشندے تھے، جو اسی مٹی پر پیدا ہوئے، انہیں اکثریت نے ظلم کا نشانہ بنایا تو انہوں نے ان علاقوں کو الگ وطن بنایا، جہاں ان کی غالب اکثریت تھی اور یہ بھی اس وقت کے برطانوی استعمار کی سازش تھی کہ کشمیر جیسے بڑے مسلم اکثریتی علاقے کو اکثریت کو سونپ کا جبر کا دروازہ کھول دیا۔ انتقال آبادی ہندوستان میں ہوئی اور یہ بھی برطانوی استعمار کے جرائم میں سے ہے کہ اس نے اس کو منظم کرنے اور اس قتل عام کو روکنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ اس بدانتظامی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہوا اور دو ممالک کے درمیان قیام کے ساتھ ہی نفرت و تنازعہ کو جنم دے دیا گیا ہے۔ جس کے نتائج آج بھی پاکسان بالخصوص بھگت رہا ہے، حالانکہ قائداعظم نے امریکہ کینڈا تعلقات کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے اچھے تعلقات کی بات کی تھی۔

دنیا بھر میں مغرب اور بالخصوص جرمنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یہودیوں پر مظالم کیے، چلیں ہم بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ یورپ نے یہودیوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے ہیں اور یہ ان کی شرمناک حرکت ہے، ویسے وہ اب بھی اقوام پر اسی طرح کے مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا بہترین حل تو یہ تھا کہ یورپ میں یہودیوں کو سہولیات فراہم کی جاتیں اور ماضی کے رویئے پر معافی مانگی جاتی، مگر اس قوم پر صیہونیت کو مسلط کرنے کے لیے سہولیات مہیا کی گئیں، جو ان مظالم کا خود شکار تھی۔ یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے کہ آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے دنیا بھر سے یہودیوں کو مذہبی بنیادوں پر اسرائیل آنے کے لیے سہولیات مہیا کی گئیں، مقامی آبادی کو تعلیمی طور پر اتنا پسماندہ رکھا گیا کہ وہ استعمار کی سازشوں کو نہ سمجھ سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی لیے صیہونیوں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کی ابتدا میں عربوں کو سمجھ ہی نہیں آئی، وہ زمینوں کی خرید و فروخت کو عام خرید و فروخت کی طرح ہی لیتے رہے۔ یہ اگرچہ اپنی جگہ حماقت تھی، مگر اس میں برطانیہ پوری طرح شامل تھا۔ فلسطین کی تقسیم کی تجویز پر پاکستان کے وزیر خارجہ کی تقریر کے الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس تقسیم کا اقوام متحدہ کو اختیار ہی نہیں ہے اور یہ تنازعہ ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کی جڑیں گہری ہو جائیں گی اور یہ مسلسل لڑائی کی بنیاد بنتا رہے گا، آج تک یہی ہو رہا ہے۔ جو لوگ صیہونیوں کو انڈیا میں مسلمانوں پر قیاس کرتے ہیں، ان کو زیادہ تحقیق کی زحمت نہیں دوں گا، فقط اسرائیل کی پارلیمنٹ کے اراکین اور ان کے والدین کی سابقہ شہریت چیک کر لی جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی، جو جہاں کا ہے، وہ وہاں واپس چلا جائے، اس سے مسئلہ فلسطین خود بخود حل ہو جائے گا۔ فلسطین کے مسلمان، یہود اور مسیحی اسی طرح مل جل کر خوشی سے رہیں گے جیسے وہ پہلے رہتے تھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply