الٹی شلوار (نان منٹو ورژن)۔۔۔ سید کامل عباس

صبح سویرے اکبر کے آفس جاتے ہی دروازے پر دستک ہوئی تو ایک عورت جس کی عمر لگ بھگ اڑتیس یا چالیس تک ہوگی پریشان حال کھڑی تھی۔

سعیدہ حیرانگی سے دیکھتے اس کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مقصد جاننا ہی چاہتی تھی کے وہ عورت بولی: باجی گھر سے نکلی ہوں اور جلدی میں شوار الٹی پہن لی ہے اگر اجازت دیں تو اندر آکر شلوار سیدھی کر لوں؟

سعیدہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اکیلی گھر ہوتی تھی اور اکبر کے جانے کے بعد گھر کے کام کاج میں لگ جاتی اور کیونکہ لاک ڈاون کی وجہ سے بچوں کی کلاسز آن لائن ہو رہی تھیں تو بچے کلاس لینے میں مصروف تھے۔

آ جاؤ اندر اس طرف واش روم ہے وہاں جا کر سیدھی کر لو سعیدہ نے دروازے پر آئی عورت سے کہا

بہت شکریہ باجی اور یہ کہہ کر وہ واش روم میں چلی گئی

سعیدہ ایک نرم دل عورت ہے مگر موجودہ حالات کے پیش نظر لوگ احتیاط ہی کرتے ہیں اور ضرورت مند کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

کچھ سوچتے اس نے واش روم کے باہر کھڑے ہو کر آواز لگائی: چلو بھئی اب باہر آ بھی جاؤ اور بھی کام ہیں مجھے سعیدہ بولی

مگر اندر سے کوئی آواز نہ آئی

ایک دو بار بلانے پر جب کوئی جواب نہ آیا تو سعیدہ نے دروازے کو ہلکا سا دھکیلا جو کہ کھلا ہوا تھا۔

وہ عورت واش روم کے فرش ہر چاروں شانے چت پڑی تھی۔

سعیدہ گھبرا گئی اور اس کا موبائل ڈھونڈنے لگی کے کسی جاننے والے کو اطلاع دے یہ کیا بیٹھے بٹھائے کوئی مصیبت گلے نہ پڑ جائے۔

موبائل تو نہ ملا مگر اس کے ہینڈ بیگ میں ایک پرچی موجود تھی جس پر لکھا تھا: یہ مرگی کی مریضہ ہیں اگر ان کی طبیعت خراب ہے تو براہ مہربانی اس نمبر پر اطلاع دیں”

سعیدہ جو ڈر سے کانپ رہی تھی کپکپاتے ہاتھوں سے نمبر ملایا جو ایک صاحب نے اٹھایا اور شکریہ کے ساتھ جلد از جلد پہنچنے کی یقین دہانی کروائی

سعیدہ سمٹ کر ایک کونے میں پریشان بیٹھی اس کے رشتہ داروں کا انتظار کرنے لگی اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی

دروازہ کھلتے ہی تین لوگ گھر کے اندر داخل ہوئے۔ سعیدہ ان کا ارادہ بھانپ چکی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیچاری اپنی تمام جمع پونجی ان کے حوالے کر بچوں کو سینے سے لگائے اس عورت کو جاتا دیکھ رہی تھی جس نے شلوار اب بھی الٹی ہی پہنی ہوئی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply