ایدھی کے عاشق کا نوحہ۔۔۔ عبدالحنان ارشد

کچھ دنوں قبل فیصل ایدھی اور محترمہ بلقیس ایدھی نے ایک پریس کانفرنس کی جس کے بعد یہ تاثر ملا، شاید ایدھی صاحب کے جانے کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ جو غریبوں، مفلسوں اور ناداروں کے لئیے کسی فرشتہ سے کم نہیں ہے، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ، مقامی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مل کر مختلف شہروں میں قائم اس کے سینٹرز پر قبضہ کر کے اسے بند کرنے کے درپے ہے۔
اس مسئلہ کو میڈیا نے کافی اٹھایا، جس کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے فیصل ایدھی کو یقین دلوایا کے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اور ان کی زمینیں ان کو واپس ملیں گی۔ یہ تو تھا ایک طرف کا موقف جو فیصل ایدھی صاحب نے بیان کیا تھا۔
لیکن اس سارے معاملے پر کچھ تحقیق کی گئی، تو معلوم یہ ہوا ایسا کچھ بھی نہیں جیسا فیصل صاحب بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ٹھٹھہ کی زمین جو کے NHA کی ملکیت تھی اس پر مقامی ایڈمنسٹریشن نے ناجائز قبضہ کروا دیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ زمین جناب ممتاز کھتری صاحب کی ہے جو انہوں نے ایدھی سینٹر کو 1985 میں 30 سال کی لیز پر دی تھی، زمین کی اصل ملکیت کے کاغذ بھی کھتری صاحب کے پاس ہیں۔ لیز ختم ہونے پر انہیں نہ کرایہ دیا جا رہا تھا اور نہ ہی ان کی زمین خالی کی جا رہی تھی۔ جس پر مقامی عدالت نے انہیں زمین کا قبضہ واپس لے کر دیا۔مقامی لوگوں کے مطابق باقی جگہیں جہاں کا فیصل صاحب نے ذکر کیا تھا وہاں بھی کوئی قبضہ نہیں ہوا۔
محترمہ بلقیس ایدھی اگر صوبائی حکومت کو کہہ دیتیں تو ایدھی سینٹر کو نئی جگہ مل جانی تھی۔۔ نہ جانے پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ایدھی صاحب کے جانے کے بعد ان کا لگایا گیا بوٹا جو اب تناور درخت بن چکا ہے، ایدھی صاحب کی روایات سے ہٹ رہا ہے۔ وہ ایدھی صاحب جو کارپوریٹ دنیا اور کمرشلزم کے خلاف تھے، آپ کویاد ہو گا ان کے بعد ایدھی سینٹر کی چندہ کمپین کوکو کولا۔ نے کی تھی، جبکہ ایدھی صاحب اپنے وقت میں انہیں بھگا دیا کرتے تھے۔
میں نے دوسرا موقف لکھنے کی کوشش کی ہے، جس کو میڈیا نہیں دکھا رہا۔
ان سب باتوں کا جواب تو فیصل صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
فیصل صاحب کا بھی موقف لے کر جلد لکھنے کی کوشش کروں گا۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply