فلسطینی مزاحمتی شاعری۔۔امجد اسلام امجد

میں نے وعدہ کیا تھا کہ آیندہ دوکالم دو عظیم فلسطینی مزاحمتی شعرا محمود درویش اور نزار قبانی کی نظموں کے نام ہوں گے لیکن ہوا یوں کہ جگہ کی قلّت کے باعث ایک بڑی شاعرہ’’فدوٰی طوقان‘‘ کی نظم کا اقتباس درج ہونے سے رہ گیا، سو محمود درویش اور اس کی نظم سے پہلے یہ اقتباس

’’منتہیٰلاش ہے پر اسے قتل کس نے کیا، کب کیا

کون ہے جو کہے میں نے مارا اُسے
اُسے کون مصلوب کرتا کہ جو سوئے دشتِ فلک

گھر سے نقشِ فنا لے کے رخصت ہوئی

اپنی خوشیوں کے چاندوں سے جھولی بھرے

یہ بتانے کہ اب

زندگی کے ہر اک کہنہ انداز کی ہو چکی انتہا

یہ بتانے کہ اب ہورہی ہے نئے دور کی ابتدا‘‘

(’’ایک انوکھے دن میں وارداتِ قتل‘‘ فدوٰی طوقان)

محمود رویش فلسطینی مزاحمتی شاعری کے حوالے سے غالباً سب سے موٗثر، معروف اور نمایندہ آواز ہے کہ اُس کی شاعری کے تراجم اُس کی زندگی میں ہی دنیا کی بیشتر زبانوں میں ہوگئے، اس کے نظموں کے موضوعات اور عنوانات کی طرح اس کی کتابوں کے نام بھی بہت انوکھے ہوا کرتے تھے۔

چند برس قبل میں نے لندن کے ایک بُک اسٹور سے اُن کی نظموں کا ایک نیا مجموعہ خریدا جس کا انگریزی نام تھا Unfortunately it was paradise. اسی طرح اُن کی جو نظم میں اس وقت درج کرنے جارہا ہوں اس کا اُردو ترجمہ ’’پردہ گرتا ہے‘‘ بنتا ہے جس میں شاعر نے خود کو ایک ایسے entertainer کے طور پر پیش کیا ہے جو برسوں سے لوگوں کو اسٹیج پر محظوظ کر رہا ہے مگر یہ نظم اُس کے آخری اور الوداعی خطاب کی صورت میں ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ اب اُس کی چھوڑی ہوئی فلسطین کی زمین کی آواز اُسے واپسی پر مجبور کررہی ہے اور وہ سب خطرات کو جانتے ہوئے اُس کی طرف واپس روانہ ہو رہا ہے۔

اس نظم کے بہت سے حوالوں میں آپ کو فلسطین کی تاریخ ، اُس کا زخم زخم بدن ،اُس کی منتظر اور پُراُمید آنکھیں ایک ساتھ دکھائی دیں گی ۔ اس سے پہلے کہ نظم کے لیے جگہ کم پڑ جائے، میں اپنی بات کو یہیں ختم کر رہا ہوں اور آپ کے ساتھ مل کر اس نظم کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

پردہ گرتا ہے

جب تالیوںکے شور سے گونجی ہوئی فضا، ہوتی ہے بے صدا

سایا سا ایک ہال کے ، سقف و درودیوار سے

چلتا ہے اور پھیل کے کرتا ہے گُربہ پا، دل کامرے طواف

ہٹتا ہے ’’الجلیل‘‘کے چہرے سے پھر غلاف

سو اس لیے ہے پیش مرا آخری سلام

میں خود کو دیکھتاہوں برہنہ تمام رات

جیسے ذبیحہ خانے میں رکھا ہوا بدن

دیکھے تھے میرے باپ نے ارماں بھرے جو خواب

میرا یہ کھیل اُن کی نہ تعبیر بن سکا

بخشی تھی ’’الجلیل ‘‘کی چڑیوں نے جو نوا

میرا یہ کھیل اُ ن کی نہ تفسیر بن سکا

ماتھا مرا پسینے میں ڈوبا ہے اور میں

ہاتھوں سے دھو رہا ہوں ندامت کی گرد کو

سو اس لیے ہے پیش مرا آخری سلام

کہتے تھے جو پسند ہے ہم کو وہی لکھو

جس نے رقم لگائی ہے اُس کا کہا کرو

دھن تھی سفید جھوٹ کی لیکن وہ ذی وقار

کہتے تھے اس پہ رقص کرو ، گیت بھی لکھو

لیکن میں تھک گیا ہوں بہت اس کمال سے

رکھنے لگا ہوں طاق پر فرضی کہانیاں

سو اس لیے ہے پیش مرا آخری سلام

واللہ یقین جانیے مقصد نہ تھا کوئی

لکھّا تھا میں نے کھیل یہ تفریح کے لیے

تعریف اس کی ناقدوں نے اہلِ فن نے کی

لیکن مجھے لگا،اُس کی نگاہیں چیر رہی ہیں مرا وجود

ہر ایک مُو پہ نقش لکھا ’’الجلیل ‘‘کا

سو اس لیے ہے پیش مرا آخری سلام

اے میرے خوں، مہکتے ہوئے بے نشاں لہو

تصویر کش ہیں بُغض و عداوت کے وہ قلم

جن کے لیے سیاہی کا منبع بنا ہے تُو

یافاؔ ہے جیسے دُھول پہ چمڑا کسا ہوا

اور اہلِ زر کے ہاتھ میںمیرے یہ استخواں

چھڑیوں کی ہیں مثال

ہلتے ہیں میرے ہاتھ پہ دیتا ہے کوئی تال

ہر رات ناظرین سے کہتا ہوں جُھک کے میں

’’کل گر حضور آئیں تو وعدہ ہے یہ میرا

کردار اپنا آج سے بہتر کروں گا میں‘‘

سو اس لیے ہے پیش مرا آخری سلام

اُونچے گھروں کے ارفع واعلیٰ اے ناظریں

لکھا ہے میں نے بیس برس آپ کے لیے

زندہ رہا ہوں آپ کی تفریح کے لیے

لیکن یہ وقت ہے کہ کروں آخری سلام

سیلابِ رنگ و نور کی موجوں سے بھاگ کر

گاؤں میں ’’الجلیل‘‘ کی گلیوں میں صبح و شام

گاؤں میں ’’الجلیل ‘‘ کی چڑیوں کے رُوبرو

بھرتی ہیں جو محال اُمیدوں میں رنگ و بو

رہتی ہیں اپنے خواب کی مستی میں بے مقام

سو اس لیے ہے پیش مرا آخری سلام

Advertisements
julia rana solicitors

مرا آخری سلام——–مرا آخری سلام

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply