شہباز شریف کی تبدیلی۔۔محمد اسد شاہ

مسلم لیگ (نواز شریف) کے صدر شہباز شریف نے جیل سے رہا ہوتے ہی چند ایسے اقدامات کیے کہ سیاسی تجزیہ کار چونک اٹھے ۔ یوں لگا کہ مسلم لیگ (نواز) میں جس تقسیم کے لیے مقتدر حلقے تقریباً ایک دہائی سے جتن کرتے آ رہے ہیں ، وہ شاید ہونے والی ہو ۔

شہباز شریف نے جیل سے نکلتے ہی پہلا عجیب کام یہ کیا عمران حکومت کو مفید مشورے دینا شروع کر دیئے ۔ یہ کام عجیب اس لیے لگا کہ مسلم لیگ (نواز) نے اصولی طور پر تو آج تک عمران حکومت کو جائز تسلیم ہی نہیں کیا ۔ اس جماعت کا اعلانیہ موقف تو یہ رہا کہ 2018 کے انتخابات والے دن ، اس سے پہلے اور بعد میں بھی مبینہ طور پر بعض غیر سیاسی حلقوں نے طویل عرصے تک انجینئرنگ کر کے عمران خان اور اس کی جماعت کو حکومت دلوائی ۔ ایسے میں شہباز کی طرف سے عمران حکومت کو مشورے دینا اچنبھے کی بات تو یقیناً ہے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ شہباز اس حکومت کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور پارٹی کے اجماعی موقف سے ہٹ کر چل رہے ہیں ۔

دوسرا کام شہباز نے یہ کیا کہ چودھری نثار علی خان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے استوار کر لیے ۔ چودھری نثار مسلم لیگ (نواز) کے گزشتہ تینو ادوارِ حکومت میں اپنی من پسند وزارتوں کے مزے لیتے رہے ۔ لیکن پارٹی جب بھی اپوزیشن میں آئی یا اس پر مشکل وقت آیا ، چودھری صاحب کہیں نظر نہ آئے ۔ وہ پریس کانفرنسز کے بہت شوقین ہیں ۔ لیکن وزیر ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنی جماعت ، حکومت یا پارٹی قائد کا دفاع نہیں کیا ، بلکہ  ہمیشہ “میں نے یہ کیا ، میں نے یہ کہا ، میں یہ چاہتا ہوں ، میرے یہ کارنامے ہیں” جیسے جملے کہتے پائے گئے ۔ 2017 میں جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب پر “ہر طرف” سے شدید “حملے” ہو رہے تھے ، چودھری صاحب بھی حملہ آوروں کی صف میں کھڑے ہو گئے اور میڈیا میں میاں صاحب پر کڑی تنقید کر کے ان پر اپنے “احسانات” گنوانا شروع کر دیئے ۔ میاں صاحب کی بیٹی محترمہ مریم نواز اپنے والد کے دفاع میں منظرِ عام پر آگئیں ۔ شاید وقت نے انھیں مجبور کیا کہ وہ سیاسی میدان میں قدم رکھیں ۔ تب “حملہ آوروں” کی توپوں اور سنگینوں کا رخ ان خاتون کی طرف ہو گیا ۔ بعض نامی گرامی صحافی اور اینکرز نہایت گھٹیا انداز میں اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگرامز میں باقاعدہ ان کے چہرے کے تاثرات ، الفاظ ، لہجے اور ذاتی زندگی تک کی تضحیک اور تحقیر کرنے لگے ۔ سوشل میڈیا پر محترمہ کے خلاف شرم ناک کہانیاں گھڑ گھڑ کر پھیلائی گئیں ، ان کے خلاف ننگی گالیوں اور دھمکیوں کا طوفان کھڑا کیا گیا اور گندے “ٹرینڈز” بنائے گئے ۔ یقیناً یہ سب کسی منظم مہم کا حصہ تھا ۔ عین اس ہنگام چودھری نثار بھی انھی خاتون کے خلاف ناپسندیدہ بیانات جاری کرنے لگ گئے ۔
شاید ایسے ہی کسی موقعے پر شاعر نے کہا تھا:
ہم کو محشر تلک نہ بھولے گا ؛
ہنسنے والوں میں تُو بھی شامل تھا !

مناسب سیاسی رویہ تو یہ تھا کہ اگر چودھری صاحب کو محترمہ کی سیاسی انٹری پسند نہ تھی تو اس پر پارٹی کے اندر بات کرتے ۔ پھر پارٹی کا جو بھی اجتماعی فیصلہ ہوتا ، ایک بااصول سیاست دان کی طرح اس کا احترام کرتے ۔ لیکن چودھری صاحب نے عوامی سطح پر مخالفت کا فیصلہ کیا ۔ اس کے باوجود میڈیا میں محترمہ مریم نواز کی طرف سے جواباً بھی چودھری صاحب کی شان میں کوئی گستاخی سامنے نہیں آئی ۔ 2018 میں جب خود شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز سمیت بے شمار لوگوں نے پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں جمع کروائیں ، چودھری صاحب نے فرمائش کی کہ انھیں درخواست کے بغیر ہی ٹکٹ جاری کر کے گھر کے پتے پر بھجوایا جائے ۔ پارٹی ڈسپلن کے مطابق ایسا ہو نہیں سکتا تھا تو چودھری صاحب بیک وقت قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کئی حلقوں سے مسلم لیگ (نواز) ہی کے امیدواروں کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ۔ قومی اسمبلی کے حلقوں سے انھیں بہت واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ البتہ ایک صوبائی حلقے سے جیت سکے ۔ اس سے ان کا ذاتی بھرم اور سیاسی رعب تقریباً ختم ہو گیا اور وہ قومی یا صوبائی سطح پر کسی بھی پارٹی کی ضرورت نہ رہے ۔

حالیہ دنوں میں شہباز شریف نے جیل سے رہا ہوتے ہی ان کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کر کے انھیں ایک بار پھر “مشہور” کر دیا اور میڈیا میں پھر سے ان کا ذکر ہونے لگا ۔ اس رابطے کے فوری بعد چودھری صاحب لاہور آئے اور مسلم لیگ (نواز) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر سے طویل ملاقات کی ۔ شیخ صاحب کے بارے میں بھی یہی مشہور ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہونے کے باوجود میاں صاحب اور محترمہ مریم نواز کے حوالے سے مخالفانہ مزاج رکھتے ہیں ۔ شاید انھی باتوں سے پارٹی میں میاں محمد نواز شریف سے لے کر عام کارکن تک ، سب کے دل چودھری نثار کے حوالے سے “زخمی” نظر آتے ہیں ۔ ان تمام واقعات کو ذہن میں رکھ کر سوچا جائے تو شہباز شریف کا چودھری نثار سے رابطہ بہت سے لوگوں کو کھٹکنے لگا ہے ۔ چودھری صاحب مسلم لیگ (نواز) کے لیے بظاہر کسی فائدے کا باعث نہیں بن سکتے ۔ پھر شہباز انھیں پارٹی میں کیوں لانا چاہتے ہوں گے؟ اگر ایسا ہؤا تو جس پارٹی کو گزشتہ 12 سالوں میں مقتدر حلقے توڑ نہ سکے ، اس کے تقسیم ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں ۔

تیسرا کام شہباز نے یہ کیا معروف سیاسی راہ نما محترمہ نسیم ولی خان کی وفات پر تعزیت کے لیے اے این پی کے مرکز تشریف لے گئے ۔ ان کے ساتھ پارٹی کے چند اور لوگ تو تھے لیکن پارٹی کی نائب صدر محترمہ مریم نواز ساتھ نہیں تھیں ۔ حال آں کہ وہ محترمہ مریم نواز ہی تھیں جو ہزارہ کے مزدوروں کے قتل عام پر کوئٹہ پہنچی تھیں ، ان کی روتی ہوئی خواتین کو گلے لگا کر پیار دیا اور ان کے ساتھ غم بانٹا ۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں بدترین دباؤ کے باوجود پارٹی کو زندہ رکھنا ، گلگست بلتستان ، آزاد کشمیر اور چاروں صوبوں میں پارٹی کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرنا ، اور تقریباً تمام ضمنی انتخابات میں پارٹی کو کامیاب کروانا محترمہ مریم نواز کے ہی کارنامے مانے جاتے ہیں ۔ لیکن بیگم نسیم ولی خان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کا جانا کس کو ناپسند تھا؟

چوتھا کام شہباز میاں نے یہ کیا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے ساتھ رابطے استوار کر لیے ۔ انھیں ٹیلی فونز کیے ۔ ان کی تعریف میں سوشل میڈیا پر بیانات جاری کیے، انھیں لاہور میں پر تکلف عشائیے کی دعوت دی ۔ بلاول خود تو نہ آئے لیکن یوسف رضا شاہ سمیت چند دیگر لوگوں کو بھیج دیا ۔ اس موقع پر شہباز نے پیپلز پارٹی کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں دوبارہ شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی ۔ ان کا یہ قدم بھی پارٹی (ن لیگ) کے موقف سے شدید مختلف ہے ۔ پارٹی کا خیال ہے کہ 2018 اور 2021 کے سینیٹ الیکشنز میں پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ خوف ناک “دھوکے بازی” کی اور مبینہ طور پر مقتدر حلقوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مسلم لیگ (نواز) کو شدید نقصان پہنچایا ۔ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت مبینہ طور پر ہارس ٹریڈنگ کر کے ختم کروائی ۔

سینیٹ میں مسلم لیگ (نواز شریف) کے پاس واضح اکثریت تھی لیکن پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر سینیٹ میں ن لیگ سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشستیں چھیننے کا کام کیا ۔ پھر 2021 میں جب دونو جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں اکٹھی تھیں تو اتحاد کے فیصلوں کے مطابق ن لیگ نے تو پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا کو اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر کامیاب کروایا ۔ لیکن پیپلز پارٹی نے اتحاد کے فیصلوں کو توڑتے ہوئے راتوں رات جماعت اسلامی اور حکومتی پارٹی ، باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کے ساتھ خفیہ اتحاد بنا کر یوسف رضا شاہ کو سینیٹ میں اپوزیشن کا لیڈر بنوانے کا نوٹیفکیشن حاصل کر لیا ۔ حال آں کہ اتحاد کے متفقہ فیصلے کے مطابق یہ عہدہ مسلم لیگ (نواز) کا حق مانا گیا تھا ۔ اس پر جب اتحاد نے پیپلز پارٹی کو اظہارِ وجوہ کا خط بھجوایا گیا تو پیپلز پارٹی نے اس پر بھی بہت شدید رویہ اپنایا ۔ خط کو پارٹی کے ایک باقاعدہ ایک اجلاس میں پھاڑا گیا ، پی ڈی ایم اور ن لیگ کے خلاف بہت شدید الفاظ استعمال کیے گئے ۔ اس سب کے باوجود میاں

Advertisements
julia rana solicitors london

شہباز نے بلاول کو کیوں اہمیت دینا شروع کر دی اور پی ڈی ایم کے متفقہ فیصلے کے برعکس پیپلز پارٹی کو دوبارہ شمولیت کی دعوت کیوں دی ؟
شہباز شریف بچے نہیں ہیں ۔ انھوں نے یہ تینو کام سوچے سمجھے بغیر تو نہیں کیے ۔ کیا وہ بعض لوگوں کو خوش کرنا ، اور بعض لوگوں کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں ؟ لیکن سوچیے کی بات یہ ہے کہ وہ خوش کس کو کر رہے ہیں اور دباؤ میں کس کو لانا چاہتے ہیں ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply