غزہ کے گیارہ دن۔۔وہاراامباکر

دس مئی کی شام سے اکیس مئی کی صبح تک غزہ کی پٹی جنگ کا زون بنی رہی۔ بمباری اور گولہ باری ہوتی رہی۔ گھر گرتے رہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ بچوں سمیت سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اسرائیلی سویلین اموات بھی ہوئیں، اگرچہ کہ مقابلتاً بہت کم تھیں۔ اسرائیل کے اندر اور مقبوضہ علاقے میں لوگ آپس میں لڑ پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ واقعہ غزہ سے شروع نہیں ہوا مگر ہلاکتوں کی تعداد یہاں زیادہ رہی۔ غزہ میں مرنے والوں کی تعداد 243 تھی جس میں اٹھاون بچے تھے۔ زخمی لوگوں کی تعداد 1900 تھی۔ اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 11 تھی جس میں دو بچے تھے جبکہ 250 زخمی ہوئے۔
ان کے علاوہ مقبوضہ مغربی کنارے میں مرنے والوں کی تعداد 26 تھی اور زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزار سے زائد تھی۔
یہ کیسے ہوا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاقے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد مصر اور اردن سے حاصل کئے تھے۔ ان پر اس کا قبضہ پچھلے پچپن سال سے چلا آ رہا ہے۔
مشرقی یروشلم میں یہاں کا پرانا شہر ہے جس میں مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ یہاں داخلے کا ایک راستہ باب العامود (دمشق گیٹ) ہے۔ رمضان کے آغاز پر اسرائیلی فورس نے یہاں پر بیرئیر لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مجمع روکنے کے لئے کیا گیا ہے، جبکہ فلسطینیوں کے خیال میں یہ انہیں روکنے کے لئے کیا گیا تھا اور یہ دکھانے کے لئے کہ یہ شہر انکا نہیں۔ بالآخر، کئے جانے والے احتجاج کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔ اسرائیل میں نو مئی کو یومِ یروشلم منایا جاتا ہے جو قومی تعطیل ہے۔ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس دن اسرائیلی حکومت نے یہودیوں کے یہاں پر داخلے پر پابندی لگا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے شہر سے کچھ فاصلے پر شیخ جراح کا علاقہ ہے۔ یہاں پر 1970 کی دہائی سے کئی گھروں کی ملکیت کے بارے میں تنازعہ جاری ہے۔ اسرائیلی عدالت نے یہاں پر رہنے والے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اور یہ کیس کرنے والی اسرائیلی آبادکاروں کی انتہاپسند تنظیم ہے۔ اس فیصلے پر فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔ اسرائیلی فورس نے مظاہرین پر کریک ڈاوٗن کیا۔ کئی انتہاپسند اسرائیلی آبادکاروں نے فلسطینیوں کو اشتعال دلایا۔
یہ کیس اب اسرائیلی سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ درجہ حرارت کم کرنے کے لئے اس کی سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
شیخ جراح خود مقبوضہ علاقہ ہے۔ اور یہاں پر اسرائیلی قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اسرائیلی عدالت اس کو سننے کی مجاز نہیں۔ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
جبکہ دوسری طرف، اسرائیل کا موقف ہے کہ فلسطین کوئی ملک نہیں، اس لئے یہ علاقہ مقبوضہ نہیں اور اس پر بین الاقوامی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اسرائیلی قانون کا ہوتا ہے۔ اور خاص طور پر یروشلم تو اس کا دارالحکومت ہے۔ انہیں یہاں پر کسی بھی قسم کی تعمیر کا حق حاصل ہے۔
اور یہ وہ وجہ تھی شیخ جراح کا معاملہ توجہ کا مرکز تھا۔ یہ چند گھروں کے معاملے سے زیادہ بڑا تھا۔ عالمی برادری کی بھاری اکثریت پورے یروشلم کو اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھتی۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ شہر کیسے شئیر کیا جائے گا؟ یہ ابھی کھلا اور حل طلب سوال ہے۔ لیکن جب تک یہ طے نہیں ہوتا، اسرائیل زمین پر صورتحال تبدیل کر رہا ہے۔ شیخ جراح کا یہ معاملہ بڑے پیٹرن کا حصہ ہے، جو ضم کر کے بے دخلی کا پیٹرن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ جراح میں مظاہرے کئی روز سے جاری تھے۔ سات مئی کو جمعة الوداع پر مسجد الاقصٰی میں بڑے تعداد میں لوگ جمع تھے۔ یہاں سے بڑا مظاہرہ شروع ہوا۔ اسرائیلی پولیس نے جواباً مسجد پر ریڈ کیا۔ پتھر پھینکے والے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ صورتحال بگڑتی گئی۔
دس مئی کو مسجد میں آنسو گیس کا استعمال ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے سو کلومیٹر دور غزہ ہے جو ایک چھوٹا علاقہ ہے جس کی لمبائی اکتالیس کلومیٹر اور چوڑائی چھ سے بارہ کلومیٹر کے درمیان ہے۔ یہ مغربی کنارے سے الگ ہے اور بہت گنجان آباد علاقہ ہے جہاں بیس لاکھ لوگ بستے ہیں۔ اور ان کا نکلنا مشکل ہے۔ اسرائیل نے پچھلے چودہ سالوں سے یہاں کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔ غزہ کا کنٹرول حماس کے پاس ہے۔
حماس نے اسرائیل کو الٹی میٹم دیا کہ اس کی فورس مسجد الاقصٰی اور شیخ جراح کا علاقہ شام چھ بجے تک خالی کر دے۔
جب یہ ڈیڈلائن گزر گئی تو حماس نے وسطی اسرائیل پر راکٹ فائر کئے۔
جواب میں اسرائیلی ملٹری نے حملہ کیا، جس میں ایک بلند عمارت گرا دی گئی۔ حماس نے اس کا جواب دیا۔ فائر ہونے والے راکٹوں کی قطاریں لگ گئیں۔ غزہ سے لہر در لہر راکٹ نکلنے لگے۔
اس کے بعد صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ اسرائیلی حملے زور پکڑنے لگے۔ اسرائیل کی طرف آنے والے ہزاروں راکٹوں میں سے زیادہ تر آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم نے تباہ کر دئے۔ غزہ میں کوئی دفاعی نظام نہیں۔ عمارتیں گرنے لگیں، جنازے اٹھنے لگے۔
اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ صرف ان کو نشانہ بنا رہا ہے جہاں حملہ آور ہیں۔ اور چونکہ حماس چھپنے کے لئے شہری علاقہ استعمال کرتی ہے، اس لئے ہونے والی اموات کا بار ان پر ہے۔ لیکن غزہ جیسے گنجان آباد علاقے پر بمباری ہو گی تو لامحالہ طور پر سویلین ہلاکتیں ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ میں یہ نیا نہیں تھا، لیکن دوسری طرف اسرائیل میں ایسا ہوا جو پہلے نہیں ہوا تھا۔ ہزاروں اسرائیلی اور فلسطینی ان شہروں میں باہر نکل آئے جنہیں “ملے جلے شہر” کہا جاتا ہے۔ ان فسادات میں اسرائیلی عربوں کی پٹائی اور دکانیں توڑنے سے لے کر یہودی عبادت گاہ کو نذرِ آٹش کرنے جیسے واقعات ہوئے۔ دہائیوں میں ایسے فسادات اسرائیل کے اندر نہیں ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ بندی اکیس مئی کو ہو گئی لیکن یہ صرف پہلا (اور ضروری) قدم ہے۔ اس جنگ بندی میں اقوامِ متحدہ، مصر اور قطر نے کردار ادا کیا ہے۔
فلسطینیوں کے لئے مسئلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ مکمل یا برابر کے شہری نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں کردار وہی ممالک ادا کر سکتے ہیں جن کا اسرائیل پر کوئی leverage ہے۔ اور ایسا سب سے زیادہ اہم ملک امریکہ ہے۔ تاہم، نئے امریکی صدر جو بائیڈن کا کردار اس میں فعال نہیں رہا۔ (امریکہ کی پرانی نسل اسرائیل کی مضبوط حامی ہے۔ اس کی ایک وجہ سرد جنگ کی صف بندی تھی۔ نئی نسل میں اس بارے میں خیالات ویسے نہیں)۔
موجودہ تقسیم یہودیوں اور عربوں کے درمیان کی نہیں۔ بلکہ ایک طرف وہ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ اکٹھے رہنا اور مفاہمت ممکن ہو گی۔ ایک ہی زمین پر یہ دونوں باہمی احترام کے ساتھ رہ سکیں گے اور دوسری طرف وہ ہیں، جو ایسا نہیں سمجھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت تو امن سے اکٹھے رہنے کا امکان بہت ہی مشکل لگتا ہے۔ لیکن دوسری طرف “یہ ایسے ہی چلتا رہے گا” اچھا جواب نہیں۔
مسئلہ فلسطین کی عمر سو سال ہو چکی ہے۔ گیارہ روز کا یہ تنازعہ اس کا ایک اور باب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply