اچھی زندگی کیا ہے؟ (18،آخری قسط)۔۔وہاراامباکر

آپ کا انتقال ہو چکا۔ آج آپ کا جنازہ ہے۔ آپ کے عزیز جمع ہیں اور آپ کی زندگی کو یاد کیا جا رہا ہے۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کو کیسے یاد رکھا جا رہا ہے؟ کیا آپ اچھی زندگی گزار کر گئے ہیں؟ اور یہ اچھی زندگی کیا ہے؟
ہو سکتا ہے کہ مرنے سے پہلے آپ کی آخری سوچ اطمینان بھری ہو۔ آپ نے اپنی طرف سے ایک مکمل زندگی گزاری۔ لیکن آپ کے قریبی عزیز جو بات کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپ کی زندگی اچھی نہیں تھی۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اس بارے میں ٹھیک ہوں اور آپ غلط؟
یا پھر اس کا برعکس؟ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ آپ کتنی شاندار زندگی بسر کر کے گئے ہیں لیکن آپ کی زندگی کا انہیں کیا پتا۔ جب آپ نے اپنی زندگی کا جائزہ لیا تھا تو لگا تھا کہ بے کار وقت گزار گئے۔ یہ ایک اچھی زندگی نہیں تھی۔
کون ٹھیک ہے؟ اور اگر آپ کے پاس یہ دو آپشن ہوں تو کونسا انتخاب کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس سیریز کے آخر میں پہنچ گئے ہیں تو کیوں نہ ایک نظر خود اپنی زندگی کے تجزیے پر؟ اور اس کا مطلب خود سے کچھ بڑے سوالات پوچھنا ہے۔ “کیا آپ ویسے ہی رہ رہے ہیں جیسا آپ کا خیال ہے کہ آپ کو رہنا چاہیے؟”، “کیا آپ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں جن کی آپ کو پرواہ ہے؟”، “زندگی میں آپ کے لئے کیا چیز اور کتنی اہم ہے؟ خاندان، دوستیاں، پیسہ، عزت، خوشی، آرام، دنیا پر مثبت اثر، علم، نیکی یا کچھ اور؟”
اس وقت آپ جو انتخاب کر رہے ہیں، جس طرح اپنا وقت گزار رہے ہیں، یہی آپ کی زندگی کو شکل دے رہا ہے۔ اس لئے یہ سوچنے کی اہمیت ہے کہ اہم کیا ہے۔ جیسا کہ سقراط کا کہنا تھا کہ “وہ زندگی جس کا معائنہ نہیں کیا گیا، وہ بھی بھلا زندہ رہنے کے قابل ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونانی اساطیر کا ایک کردار سیسفس ہے۔ اس کی سزا ایک بھاری پتھر کو لڑھکا کر پہاڑ کے اوپر لے جانا ہے اور جب وہ اوپر پہنچتا ہے تو پتھر لڑھک کر نیچے گر جاتا ہے اور سیسیفس کا یہ پھر سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ یہی اس کا پورا وجود ہے اور اس کی پوری زندگی۔ وہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا۔ پہاڑی کے اوپر اور نیچے، نہ ختم ہونے والے چکر میں۔
بیسویں صدی کے فلسفی البرٹ کیمو کہتے ہیں کہ “ہمیں تصور کرنا چاہیے کہ سیسیفس خوش ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم میں سے ہر کوئی بنیادی طور پر سیسفس ہی ہے۔ ہم سب کی یہی زندگی ہے۔ صرف پتھروں کا فرق ہے جنہیں ہم پہاڑ کے اوپر کی طرف لڑھکانے میں مصروف ہیں۔ لیکن! ہم انتخاب کر سکتے ہیں کہ کس شے کو معنی دئے جائیں۔ ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کی قدر کی جائے تا کہ ہم جو کام کریں، وہ معنی رکھتا ہو۔ کچھ لوگ سیسفس کی قسمت کو ستم ظریفی کے طور پر دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کا کوئی معنی نہیں جبکہ اس کا برعکس یہ ہے کہ یہ خوشی کی کہانی ہے کہ کسی بھی چیز کا معنی ہو سکتا ہے، جو بھی ہم اس میں ڈال سکیں۔
ڈاکٹر بنیں اور زندگی بچائیں۔ گھر بیٹھ کر والدین کا کردار ادا کریں اور اپنے بچوں کے لئے خوشگوار بچین تخلیق کریں۔ دوست کے لئے بہترین دوست بنیں۔ ایسا کام تلاش کریں جو آپ کو پسند ہے۔ اپنا وقت رضاکارانہ طور پر ایسی سرگرمیوں میں لگائیں جن کی آپ پرواہ کرتے ہیں۔ بزنس شروع کریں اور پیسے بنائیں۔ شطرنج کے چیمپئن بنیں۔ کبوتروں کو دانہ ڈالیں۔ یہ آپ کا انتخاب ہے کہ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔
اس فلسفے کے مطابق زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کے پاس یہ طاقت ہے کہ اس زندگی کو زبردست بنا سکیں اور اس کا معیار بھی آپ نے طے کرنا ہے۔
اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی جوین چیولا آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ آپ اپنے کام اور پیشے کو اہمیت دیں کیونکہ اپنی جاگتی زندگی کے وقت کا سب سے بڑا حصہ آپ اس میں صرف کریں گے۔ ایسا کام کریں جو آپ کو پسند ہو، خواہ اس میں پیسہ یا مرتبہ کم ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن رابرٹ نوزک یہاں پر سوچ کا ایک تجربہ تجویز کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ سائنسدانوں نے ایک آخری ورچوئل رئیلیٹی کی ایجاد کر لی ہے۔ اس کے ذریعے آپ جو چاہے، تجربہ محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ ایکسپرئنس مشین آپ کو کوئی بھی چیز اور کتنی بھی دیر کے لئے کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ایک گھنٹہ، ایک دن، دو سال، یا پھر تمام عمر اگر آپ چاہیں۔ آپ کا جسم بستر پر لیٹا ہو گا جس کو ٹیوبوں سے خوراک ملتی رہے گی۔ آپ اس مشین کے ذریعے خواہ پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کا تجربہ کریں، کینسر کا علاج دریافت کر کے نام کمائیں، سپرسٹار بنیں، پہاڑ سر کریں، اس کی حد صرف آپ کا تصور ہے۔ یہ مشین اتنی مکمل ہے کہ جب آپ یہ کر رہے ہیں تو آپ کو ذرا سا شک بھی نہیں ہوتا کہ یہ اصل نہیں۔ یہ ویسا ہی محسوس ہو گا جیسے آپ کو اس وقت اپنے گرد کی دنیا۔ آپ کے پاس یہ بتانے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا کہ یہ صرف سمولیشن ہے۔
کیا آپ اس مشین میں زندگی بسر کرنا چاہیں گے؟ نوزاک کا اپنا جواب نفی میں تھا۔ اور ان کا خیال تھا کہ زیادہ تر لوگ ان سے اتفاق کریں گے کیونکہ یہ تجربات تو ہیں لیکن حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آپ کو مشین میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کے لوگوں کے ساتھ بامعنی تعلقات ہیں لیکن اصل دنیا میں یہ لوگ آپ کے بغیر اپنی اپنی زندگیاں گزارنے میں مگن ہیں جبکہ آپ ایک بستر پر پڑے ہیں۔
اگر آپ کے لئے اس بات کی اہمیت ہے کہ آپ کا اس دنیا پر کوئی اصل اثر ہو تو یہ مشین آپ کو یہ دینے سے قاصر ہے۔ اس لئے بے کار ہے۔
لیکن اگر آپ hedonist ہیں یعنی آپ کا خیال ہے کہ اچھائی اور خوشی ہم معنی ہے تو پھر یہ مشین آپ کے لئے ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے جو حاصل کر سکتے ہیں، وہ اصل دنیا میں نہیں۔
تو آپ کیا کہتے ہیں؟ مشین میں جانا پسند کریں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم فلسفے میں ہمیں اچھی زندگی کے بارے میں اپنے خیالات ملتے ہیں۔ سقراط ایتھنز کے لوگوں کو آسان زندگی سے خبردار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ “اپنی زندگی پر سب سے کڑی نگاہ اور تنقید آپ کی اپنی ہونی چاہیے۔ کسی کا انتظار نہ کریں کہ وہ آپ کو آ کر بچائے گا۔ یہ آپ کے کرنے والا کام ہے”۔
اگر آپ کو اس سیریز میں فلسفے کا تھوڑا سا اندازہ ہوا ہے تو آپ کو علم ہو چکا ہو گا کہ گہرائی میں دیکھنا بہت مفید ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی چیز کو چیلنج کر سکتے ہیں اور سوال کرنے کو تیار رہتے ہیں جس میں خود اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں بھی ہیں۔
یہاں پر ہم ارسطو کے یوڈامونیا کے تصور کو ایک بار پھر دیکھتے ہیں، جو ان کے نیکی کی تھیوری سے آنے والا تصور ہے۔ یہ ایسی زندگی کی وضاحت کرتا ہے جو پھلنے پھولنے والی زندگی ہے جس میں ایک شخص کی پہلی ترجیح اپنی ذات کی بہتری ہے۔ نیکی، دانائی، گہری سوچ اور خود آگاہی کو بہتر کرنے والی زندگی کی۔ ارسطو کی نظر میں اچھی گزاری جانے والی زندگی یہی ہے۔
ارسطو البرٹ کیمیو سے اختلاف رکھتے کہ زندگی کو معنی صرف ہم دیتے ہیں اور اچھی زندگی کے بے انتہا طریقے ہیں۔ اور یقینی طور پر ایکسپرینس مشین استعمال نہ کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کے نکتہ نظر میں اچھا انسان ہونے کا ایک ٹھیک طریقہ تھا۔ اور اس اچھی زندگی میں جاننے کی تلاش بھی تھی۔ ارسطوئی فلسفے میں دنیا کو جاننا، خود کو جاننا، عقل کا استعمال کرنا۔ خود کی بہتری کے لئے سعی کرنا اور اپنا نیک ترین وجود بننا ایک انسان کا مقصد تھا۔ جو اس میں کامیاب نہیں ہوئے، انہوں نے بھرپور زندگی نہیں گزاری۔
ارسطو کا یہ بھی خیال تھا کہ کچھ چیزیں لازمی طور دوسروں سے بہتر یا کمتر ہیں۔ اس لئے آپ کی زندگی اچھی یا بری ہے، اس کا معیار صرف آپ کی اپنی ترجیح نہیں۔
مثلاً، اگر آپ انتخاب کرتے ہیں کہ سارا دن ٹی وی دیکھنا ہے تو نہیں، یہ اچھی زندگی نہیں، خواہ آپ کو پسند ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو اور کیمیو اس بارے میں مخالف خیالات رکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟
یاد رہے کہ جیسا سیریز میں پہلے کہا گیا تھا کہ اڑھائی ہزار سال پہلے بھی جو سوال پوچھے گئے تھے، ان پر بحث ابھی جاری ہے۔ اور ہمارے پاس خیالات کا تنوع ہے۔
اور اب تک آپ یہ بھی جان چکے ہوں گے کہ ایسے اختلافات کسی کی کمزوری نہیں۔ ہمارے اپنی فکر کی وسعت کے لئے ضروری ہیں۔ ایک فلسفی کے لئے یہ اس کی زندگی کا انتخاب ہیں، خواہ اس کا فلسفہ کسی بھی قسم کا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی فلسفی مذہبی ہیں تو کئی لامذہبی۔ کچھ میٹریلسٹ تو کچھ ڈوئلسٹ، کچھ کانٹین، کچھ افادیت پسند، کچھ جبری تو کچھ قدری۔ کچھ فلسفے کو پڑھنے اور پڑھانے میں زندگی گزارتے ہیں لیکن زیادہ تر فلسفی ہماری جیسے زندگی ہی گزارتے ہیں۔ مختلف کیرئیر جس میں فلسفہ روزمرہ کا کام ہے، نہ کہ پیشہ۔ یہ بس سوچنے سمجھنے والی زندگی گزارنے کا ایک انتخاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو ادیبوں میں، ڈرامے لکھنے والوں میں ملیں گے، طنز و مزاح کرنے والوں میں یا دوسرے آرٹ میں۔
کیونکہ عملی طور پر فلسفے کا مطلب صرف سوال اس سوال پر غور کرنا ہے کہ “کیوں؟”۔ اس کو چیلنج کرنا ہے جو ٹھیک نہیں لگتا۔ اس بارے میں دوسروں کی رائے سننی ہے۔ اور تیار رہنا ہے کہ نئے سچ کو تسلیم کر سکیں اگر اس کے حق میں ایویڈنس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والدین جو بچوں سے بات کر سکیں کہ کونسا کام کیوں کرنا ہے، نہ کہ صرف حکم دے دیں۔ جہاں مناسب ہو، انہیں فیصلے میں شریک کر سکیں۔ اداروں کے ملازمین جو صرف اپنے منصب کے فرائض پورا کر دینے سے ہی سروکار نہ رکھیں۔ عقل استعمال کرنے والے مزدور۔
ایسے باس جو بہتر ماتحت تیار کر سکیں، خواہ کسی بھی پیشے سے تعلق ہو۔ کیونکہ فلسفہ تخلیق کاری، لچک اور مکمل ویژن میں اور سوچ کے طریقے میں مدد کرتا ہے۔
فلسفی کی طرح رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سوالات کو روکنے نہ دیا جائے۔ بہتر زندگی کے لئے محنت کی جائے اور وقت پڑنے پر اپنا ذہن بدلنے میں تامل نہ کیا جائے۔ فلسفی کی نظر میں اچھی زندگی گزارنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفی کی اچھی زندگی گزارنے سے ہمیں ہمارے سوا اور کوئی نہیں روک سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply