• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنسی زیادتیاں اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں۔۔ڈاکٹر اظہر فخرالدین

جنسی زیادتیاں اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں۔۔ڈاکٹر اظہر فخرالدین

جنسی زیادتیاں دنیا بھر کے معاشروں کے لیے ایک چیلنج ہیں بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے جہاں ابھی بھی قانون سازی میں سقم موجود ہیں اور طاقتور مجرم اپنے سیاسی بیک گراؤنڈ اور پولیس یا عدالتی نظام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر قانون کی گرفت سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ ریپ کا مسئلہ تمام معاشروں کو مساوی مسئلہ ہے اور اسکو رنگ، نسل، مذہب اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی نسلوں کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے۔

جنسی زیادتیاں صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ انسانیت سوز جرم ایک ناسور بن چکا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں تقریبا ً ہر ایک منٹ میں ایک جنسی زیادتی سے جڑا جرم رپورٹ ہوتا ہے۔ ہر 6 میں سے 1 خاتون کا اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار یا تو ریپ ہوتا ہے یا اس پر جنسی حملہ کی کوشش کی جاتی ہے۔ مردوں کو بھی اس سے استشناء  حاصل نہیں۔ ہر 33 میں سے ایک مرد بھی اسی صورتحال سے گزرتا ہے۔ Child Protective Agency کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سالانہ 63,000 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ جس میں سے ایک تہائی تعداد 12 سال سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق وہاں روزانہ سو کے قریب ریپ کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں (ہر 15 منٹ میں ایک جنسی زیادتی)۔ NCRB کے اعداد و شمار کے مطابق ہر روز انڈیا میں 109 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال ایک دو سالہ بچہ ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ 2008 میں 22,500 واقعات رپورٹ ہوے جبکہ 2018 میں 1,41,764۔ یہ اس انسانیت سوز جرم میں اضافے کے رحجان کی ایک خوفناک منظر کشی ہے۔

اسی طرح بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز بنانا اور انکی فروخت کے ذریعے پیسہ کمانا بھی ایک گھناؤنا جرم ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ انڈیا میں ایک ہزار کے لگ بھگ ایسے کیسز ریکارڈ ہوئے۔ پاکستان میں گذشتہ سال ہی راولپنڈی سے ایک گروہ پکڑا گیا جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا تھا اور اسکی فلمیں بنا کر انٹرنیٹ پر فروخت کرتا تھا۔

ارض پاکستان میں بھی حالات تشویشناک ہیں: روزانہ کم از کم 11 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں (بحوالہ the news). آزاد کشمیر میں 2020 تک 31 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ گلگت بلتستان میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں معاشرتی وجوہات کی بنا پر ایسے واقعات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا یا پھر ان اعداد و شمار کو مرتب کرنے کا نظام ابھی نسبتا ً  کم فعال ہے۔

ایک پریشان کُن امر قانون اور قانون کی عملداری کا ہے۔ ارض پاکستان میں رپورٹ ہوئے کل 22,000 سے زائد کیسز میں سے صرف 77 کو سزا ہوئی (0.8٪)۔ 5,000 کے لگ بھگ کیسز عدالتوں میں لٹکے ہوئے ہیں۔ 1200 کے قریب کیسز میں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر ملزمان کو رہا کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے مقامی سطح پر جنسی زیادتیوں کے بڑھتے ہوے واقعات، بالخصوص بچوں پر ہونے والے جنسی حملوں کی روک تھام کے لیے ایک قانون گذشتہ برس متعارف کروایا ہے جس کے تحت سخت ترین سزائیں اور 60 دن کے اندر اندر کیس کی سماعت کا مکمل کیا جانا ضروری ہے۔ کیس کی تفتیش ایک ڈی ایس پی لیول کا افسر مکمل کرے گا تاکہ سیاسی اثر و رسوخ کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ان سب کے باوجود معاشرے میں بڑھتے ہوے ریپ کے واقعات پریشان کن ہیں۔ کیونکہ مجرمان کو سزا سنائے جانے کا رحجان انتہائی کم ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ جنسی حملہ میں ملوث افراد کون ہوتے ہیں اور یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپکو یہ جان کر شدید پریشانی ہو گی کہ دو تہائی کیسز میں مجرم ریپ سے متاثرہ فرد کو براہ راست جانتا ہوتا ہے۔ 38 فی صد کیسز میں یہ ایک قریبی دوست یا رشتہ دار ہوتا ہے (US Department of Justice, 2005)۔ وادی سماہنی میں گذشتہ روز ہونے والے افسوسناک واقعے میں بھی ایک قریبی دوست ملوث تھا۔ آدھے سے زیادہ کیسز یا مجرم کے گھر پر ہوتے ہیں یا متاثرہ فرد کے گھر پر (یعنی دونوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا ہوتا ہے)۔ ایک بڑی تعداد ساتھ کام کرنے والوں کی اور افسران بالا کی بھی ہوتی ہے (آفس یا تعلیمی اداروں کی مثال)۔ انجان لوگوں کے ہاتھوں ریپ کی تعداد نسبتا بہت کم ہوتی ہے۔ جہاں تک جنسی حملوں کے پس پردہ وجوہات کا تعلق ہے یہ در اصل طاقت کے زریعے کیا جانے والا جرم ہے اور اسکی کئی ممکنہ وجوہات ہیں مثلاً  کسی کو مغلوب کرنا، انتقام لینا، جنسی ہوس اور اسکے ساتھ ساتھ میڈیا اور دم توڑتی معاشرتی اقدار ۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی 1987 میں شائع ہوئی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق معاشرے میں عدم مساوات، معاشرتی فکری زوال، جنسی مناظر دکھانے والی فلمیں، معاشی تفریق اور بیروزگاری کا جنسی تشدد سے براہ راست تعلق ہے۔ معاشرے میں پھیلتی بے حیائی بھی ایک ایم فیکٹر ہے لیکن اس کو تمام تر وجہ قرار دینا نا انصافی ہے کیونکہ اگر یہ درست ہوتا تو مرد دوسرے مردوں کا یا بچوں کا ریپ نہ کرتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے اہم سوال اس جرم کو روکنے میں ہمارے کردار کا ہے۔ ہمیں ہر طرح کی عصبیت سے بالاتر ہو کر اس مسئلے کو اپنی نسلوں کے لیے ایک خطرہ سمجھ کر لڑنا ہو گا۔ معاشرے میں آگاہی پھیلانا، قانون سازی اور قانون کی عملداری، جنسی زیادتی کی کیسز کی تیز سماعت، سزاؤں کا نفاذ، مجرمان کی معاشرے میں حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی نسلوں کو اس حوالے سے تعلیم دینا ہو گی۔ اپنے بچوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی بتانا ہو گا کہ انھیں کس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ بچوں کو نامناسب طور پر چھونے یا برے الفاظ سے متعلق اگاہی دینا ہو گی۔ اگر بچہ سکول، مدرسے یا کسی رشتہ دار کے گھر جانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو تو والدین کو وجوہات جاننا چاہئیں ۔ بچے کو محفوظ جگہ اور محفوظ لوگوں کا concept سمجھانا چاہیے کہ خطرے کی صورت میں انھیں کس سے رابطہ کرنا ہے اور کس طرح کے لوگ یا سچویشن خطرناک ہو سکتی ہے۔ آجکل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اس میں اپنے بچوں کی سوشل میڈیا پر تشہیر بھی انکی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ والدین کو اس حوالے سے بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک اہم بات متاثرہ فرد یا خاندان کے درد کو محسوس کرنے کی ہیں وہ پہلے ہی ایک اذیت سے گزر رہے ہیں اس پر سیاست کرنا، متاثرہ فرد کی شناخت کو عام کرنا یا اس مسئلے کو غیر حساس طریقے سے ہینڈل کرنا بھی انکے درد میں اضافہ کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ الزام ثابت ہونے تک ملزمان کی سوشل میڈیا یا میڈیا کے زریعے کردار کشی کی بھی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ ہماری ذمہ داری قانون کے نفاذ کی ہونی چاہیے نہ کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply