ملکی ترقی میں فنی تعلیم کا کردار۔۔عمیر فاروق

معیشت کے سلسلے میں پہلی پوسٹ ہائلمر شاخت کے بارے میں کی تھی جسکا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ کیا محض کامرس اور فنانس کے چٹکلوں اور شارٹ کٹ کے سہارے معیشت کو مضبوط اور بہتر بنایا جاسکتا ہے ؟
تمام اہل علم دوستوں کا جواب تھا کہ نہیں!
سب پرائم مارٹگیج کی طرح یہ سب ترکیبیں محض عارضی سہارے ہوتے ہیں جو مارکیٹ کے اندر وقتی طور پہ ڈیمانڈ کو بڑھا دیتے ہیں۔ لیکن یہ دو دھاری تلوار بھی ہوتے ہیں اگر مارکیٹ کی یہ وقتی بڑھی ہوئی ڈیمانڈ ملکی مجموعی پیداوار کو نہ بڑھا سکے تو امپورٹ بڑھ جاتی ہے اور ڈار معاشی ماڈل جیسا ماڈل برآمد ہوتا ہے جو تجارتی خسارہ اتنا بڑھا دیتا ہے کہ اسکا قرض آئندہ نسلیں چکاتی چکاتی بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن پھر بھی غربت ہی مقدر رہتا ہے ،بلکہ غربت کے سائے مزید گہرے ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے اور یونان کے کیس میں ہوا ، یقیناً روس اور پرتگال سمیت بہت سے ممالک اسکا نشانہ بنے۔

اب اگلا سوال کہ معیشت کو حقیقی معنوں میں کس طرح جاندار اور طاقتور بنایا جائے تو جواب یہی  ہے کہ پیداوار اور پیداواری صلاحیت ہی بڑھانا ہوگی، پھر ہی اس قسم کے مارکیٹ ڈیمانڈ بڑھانے والے چٹکلے کارآمد ہونگے کیونکہ اس بڑھی ہوئی اضافی ڈیمانڈ سے ملکی صنعت اور پیداوار استفادہ کرکے ملکی معیشت کو بڑھا دے گی۔

اب اگلا سوال کہ پاکستان کی پیداوار صلاحیت میں کس طرح اضافہ کیا جائے ؟
اس پہ اس طالب علم کی رائے جو شعبہ کے ماہرین کی رائے اور تصدیق یا اصلاح کی محتاج ہے۔

اس کے بھی دو حصے لگتے ہیں ایک آجر اور دوسرا اجیر کا شعبہ ان دونوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ اجیر یا لیبر کی ٹریننگ زیادہ اہم ہے لیکن آجر یا entrepreneur کی ٹریننگ بھی اتنی ہی اہم۔
کیونکہ محض لیبر کی ٹریننگ کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ غیر ملکی فرمیں تو یہاں پروڈکشن کو ترجیح دینگی جس کی وجہ سے بیروزگاری کا خاتمہ بھی ہوگا اور معیشت کو سہارا بھی ملے گا لیکن منافع کا بڑا حصہ واپس غیر ممالک کو چلا جائے گا اور اس کے دوبارہ ملک میں انویسٹ ہونے کی ضمانت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر آجر بھی تربیت یافتہ ہوگیا تو اسکا منافع ملک میں ہی دوبارہ ری انویسٹ ہوگا تبھی معیشت حقیقی معنوں میں ٹھوس اور جاندار ہوسکے گی ترقی یافتہ ممالک کی طرح۔

لگ یہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے تعلیمی ماڈل کو نئے سرے سے ری ڈیزائن کرنا ہوگا اور مڈل کے بعد روایتی تعلیم کی بجائے فنی یا ووکیشنل تعلیم پہ زور دینا ہوگا۔ فنی تعلیم کے بھی تین درجات نظر آتے ہیں پہلا بنیادی مستری کا دوسرا سب انجنیئر کا اور تیسرا انجنیئر کا۔ مستری کے لئے ووکیشنل سکول، سب انجنیئر کے لئے پولی ٹیکنیک اور انجنیئر کے لیے انجنیئرنگ یونیورسٹی۔ اس ضمن میں ہمیں زراعت اور صنعت و معدنیات کو بیک وقت مدنظر رکھنا ہوگا ،وطن عزیز کے ضمن میں زراعت کو انڈسٹری کے طور پہ لینے کی ضرورت ہے اس طرح ہمیں بہت سے زرعی ووکیشنل سکولز بنانے ہونگے اور انکے اوپر زرعی پولی ٹیکنیک تاکہ زرعی مزدور مڈل سکول تک خواندگی اور بنیادی حساب سیکھ کر ووکیشنل سکول پکڑے اور جدید زراعت کی بنیادی تکنیک سیکھ سکے۔ اس سے اوپر زرعی پولی ٹیکنیک موجود ہوں جو ڈیری فارمز سے لیکر زرعی مشینری اور بنیادی زرعی انڈسٹری کے سب انجنیئر بننے کے اہل ہوں۔ اس سے اوپر زرعی یونیورسٹی کے زرعی انجنیئرز۔

سب انجنیئرز کا رول بہت اہم ہے کیونکہ یہی لوگ مستری یا تربیت یافتہ زرعی مزدور اور انجنیئر کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرتا ہے۔

اگر یہ کر بھی لیا جاتا ہے تو ایک بہت اہم شعبہ اب بھی غائب ہے اور وہ ہے آجر یا بزنس مین یا  entrepreneur کی تربیت اگر وہ موجود نہیں تو اس معاشی ماڈل کا فائدہ غیرملکی سرمایہ کار تو ضرور اٹھائے گا لیکن منافع ملک سے باہر منتقل ہوگا دوبارہ ری انویسٹ ہونا مشکوک رہے گا تھائی لینڈ یا بنگلہ دیش کی طرح۔

اگر ملک کو دوسرا جنوبی کوریا یا تائیوان بنانا ہے تو بہت ضروری ہے کہ آجر یا بزنس مین کی تعلیم کا بھی بندوبست ہو تاکہ وہ مقامی ملکی فرمیں بنائیں اور اس لیبر کا فائدہ اٹھا کر کامیاب بزنس کی بنیاد رکھیں۔

اس طرح سمجھ آتا ہے کہ بزنس اور کامرس کی تعلیم بجائے روایتی اداروں کے ان پولی ٹیکنیک اور انجنیئرنگ یونیورسٹیز کے ساتھ ملحق کر دی جائے۔۔یوں ہم ایسا تعلیمی ماڈل بنائیں جو کسی حد تک اسرائیلی یونیورسٹیز سے ملتا جلتا ہو۔ یعنی یونیورسٹی لیول کے انجنییرنگ اور بزنس کے سٹوڈنٹس پہ لازم ہو کہ محض سوالات کے جوابات رٹ کر ڈگری لینے کی بجائے موقع پہ ایک کامیاب بزنس ماڈل تشکیل دیں جس نچلی سطح پہ تربیت لینے والے ووکیشنل سٹوڈنٹس کو کام پہ لگا کر کوئی کامیاب منافع بخش فرم بنا کر دکھائیں۔ جو جو سٹوڈنٹس اس میں کامیاب ہو جائیں صرف انہی کو متعلقہ ادارہ ڈگری یا سرٹیفیکٹ دے باقی تعلیم میں دوبارہ سے مشغول ہوں حتی کہ کامیاب ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یعنی دوسرے معنوں میں ہمیں صرف سرٹیفیکٹ بانٹنے کا کام ترک کر کے طالب علموں کی حقیقی صلاحیت کی بنا پہ سرٹیفیکٹ دینا چاہییں اس طرح ہر سال وطن میں نئی نئی فرمز کا اضافہ بھی ہوتا جائے گا جو ٹھوس معیشت کی بنیاد رکھ رہی ہونگی اور دوسری طرف ہمارے تعلیمی سرٹیفیکٹ محض کاغذ کا پرزہ نہ ہونگے بلکہ انکی ٹھوس قدر یا ویلیو ہوگی۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply