پتیلا چوری ہوگیا۔۔سلیم مرزا

بڑا خاندان تھا ۔میرے حصّے جو کمرہ آیا اس نے تنہائی کے پندرہ سال بھگتے ۔
جوانی زیادہ تر ملک سے باہر اور اگر شہر میں تھا تو گھر سے باہر گزری ۔
اس کمرے میں سب سے طویل عرصہ میری محبت کی عدت تھی ۔۔
جو شاید ابھی تک پوری نہیں ہوئی ۔۔
پھر بھی مجھے بیاہ دیا گیا ۔۔۔

سردیوں کی طویل راتوں میں گلے لگ کر رونے سے دکھ تو کم ہوجاتا،لیکن ٹھنڈے پانی سے نہانے کا تصور پھر رُلا دیتا ۔
بیگم جس فرقے سے تھی وہ محبت کو اتنا گندہ کام سمجھتے تھے کہ اس کیلئے موزوں ترین جگہ باتھ روم ہی ہوسکتا تھا ۔
ان کے نزدیک تاخیر غسل ، باعثِ گناہ  ہے ۔فرشتے اس وقت تک نہیں آتے جب تک جائے وقوعہ مکمل کلئیر نہ ہوجائے ۔۔

پہلے پہل تو میں مخالفت کرتا رہا کہ فرشتے ہیں کہ پنجاب پولیس ۔مگر جب کلنٹن پکڑا گیا تو میں قائل ہوگیا ۔اس کے بعد میں نے گھر تو کیا باہر بھی کوئی نشان نہیں چھوڑا ۔

مصیبت یہ تھی کہ ہمارے گھر میں ایک ہی غسل خانہ تھا ۔جو ہمیشہ لاری اڈے کی طرح مصروف رہتا ۔نہانا تو دور کی بات ، وہاں پانچ منٹ آرام سے بیٹھ کر سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا ۔
لہذا جو کرنا  ہے  پہلے سے طے کرکے آئیں ۔

غسلخانہ تیس افراد کی مثانوی اور رومانوی داستانوں کا اکلوتا رازدار تھا ۔۔لیکن اس کا نلکا پاکستانی میڈیا کی طرح شور مچادیتا لہذا کوئی بیشرمی حرکت کرکے صاف نکل جانا قریبا ً ناممکن تھا ۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا، ایک دوسرے کے حال سے واقف تھے ۔
اور وقت بے وقت گُل کو شرمندہ کرتے رہتے ۔۔

شادی کے تیسرے مہینے بیگم کہنے لگی
“کتنی بری بات  ہے ۔ساتھ والے کمرے سے ہر طرح کی آوازیں آتی ہیں ”
میں چپ رہا ۔چوتھے مہینے وہ بھی چپ ہوگئی ۔اس طرح ڈیڑھ سال گزر گیا ۔
پہلے بچےکو ٹھنڈ سے بچانے کیلئے کمرے میں ایک چھوٹے سے چولہے کا اضافہ کیا گیا ۔
ضرورت ایجاد کی ماں  ہے ۔میں نے ا ماں کے جہیز کا کانسی کا پتیلہ چرا کر بیڈ کے نیچے چھپا دیا ۔
دن بھر اس میں جگ بھر بھر پانی ڈالتے اور رات مگ بھر بھر گرم پانی سے نہاتے ۔
نلکا یہ سب چپ چاپ دیکھتارہا ۔۔۔
ماں سے پتیلے کی چوری چھپی نہ رہ سکی ۔
رات ڈیڑھ بجے مجر م ، پتیلہ بمعہ گرم پانی پکڑا گیا ۔
ماں کھلکھلا کر ہنس دی ۔کہنے لگی
“پتر ۔ساری زندگی اب پتیلہ ہی اٹھاؤگے ”

Advertisements
julia rana solicitors london

بچے ایک سے چار ہوگئے ۔
مگر گھر خالی ہوتا گیا ۔بڑے اور چھوٹے بھائی نے علیحدہ گھر بنالئے ۔جن کے باتھ روموں کا سائز شرعی تقاضوں کے ہم آہنگ تھا ۔
گرم ٹھنڈے پانی کی علیحدہ ٹونٹیاں تھیں ۔
مسلم شاور تک لگے تھے کہ کبھی کبھی نہانے کو دل نہیں بھی کرتا ۔
میں اپنی فنکارانہ سستی کے باعث گیزر نہ لگوا سکا ۔گھر بدل گیا ۔پتیلے کا نصیب نہ بدلا
بچے بڑے ہوتے گئے ۔سردیوں میں پتیلہ دن بھر چولہے پہ ہی رہتا ۔ اس کی رات کی شفٹ کم ہوتے ہوتے تقریباً  ختم ہوگئی تھی ۔
بیگم عمر کے ساتھ ساتھ لبرل ہوگئی تھی ۔وہ فرشتے بھی ڈیوٹی چھوڑ گئے جو بیڈ کے کنارے کھڑے ہوکر پلیدوں کو بدعائیں دیتے تھے ۔
بازو ٹوٹنے کے بعد مجھے ڈاکٹر نے  ہرقسم کا وزن اٹھانے سے منع کردیا تو پتیلہ کیسے اٹھاتا ۔۔؟
پتیلہ اب کونوں کھدروں میں پایا جانے لگا ۔۔
کل شام جب گھر آیا تو بیوی نے روتے ہوئے بتایا
“پتیلہ چوری ہوگیا ”
“تو اس میں رونے والی کیا بات ہے “؟میں نے اسے تسلی دی
“وہ پتیلہ نہیں تھا سلیم! میری ساس کی نشانی تھی ۔میری اور ان کی خوبصورت یاد تھا۔۔۔امی اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا، وہ پتر جس نے چائے پی کر کبھی کپ نہیں اٹھایا تھا ۔ادھی راتیں پتیلہ اٹھائے پھرتا ہے”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply